محتاجوں کو عزت نفس سے آشنا کیجئے!


.

شاہد کاردار عالمی بنک کے نائب صدر اور پنجاب کے وزیر خزانہ رہنے کے بعد پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ ایک روز مجھے بتایا گیا کہ تھوڑی دیر میں پیف کے سربراہ پہنچنے والے ہیں۔ ادارے کے پی آر او سے کچھ معلومات لے کر سوالات ترتیب دیے۔ شاہد کاردار پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان حفیظ کاردار کے فرزند ہیں، یہ ان سے پہلی ملاقات تھی، بھلے آدمی ہیں۔ اپنی بات جلدی مکمل کرتے ہیں۔ 52 منٹ کے ٹی وی پروگرام کے لئے میں نے معمول سے دو گنا سوال تیار کیے۔

پروگرام 47 منٹ چلا کہ میرے سوالات شاہد کاردار کی سبک گفتاری کے باعث ختم ہو گئے۔ شاہد کاردار نے اپنی بات یوں ختم کی کہ ان کا ادارہ غریب بچوں کو کتابیں اور یونیفارم دیتا ہے۔ دور دراز کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں والدین بچوں کو کپڑے تک نہیں دے سکتے۔ ان علاقوں میں کئی بار ایک بچہ دو سکولوں میں داخل کرایا جاتا ہے تاکہ اسے دو یونیفارم مل جائیں یوں وہ پورا سال ان دو وردیوں میں گزار دیتا۔ میرے ہاتھ پروگرام کا وقت پورا کرنے کا سرا آ گیا۔

میں نے انہیں وہ افسانہ چند جملوں میں سنا دیا کہ کسی گھر میں فاقے تھے۔ نہ ہمسایوں کو خبرنہ رشتے دار واقف۔ گھر کا واحد کفیل اس پریشانی میں انتقال کر گیا۔ ہمسایوں اور رشتہ داروں نے چند روز اچھے اچھے کھانے بھیجے۔ دو چار ہفتوں کے بعد پھر فاقوں کی نوبت آ گئی۔ ایک دن سب سے چھوٹے بچے نے ماں کے بوسیدہ آنچل کو پکڑتے ہوئے متوجہ کیا اور پوچھا! ماں اب ہمارے گھر میں کب کوئی مرے گا۔ یہ بات سن کر شاہد کاردار کی آنکھیں بھر گئیں ان سے بات کرنا مشکل ہو گیا۔

پھر انہوں نے جس طرح غریب طبقات کی محرومیوں پر بات کی اس سے پروگرام کا اختتام شاندار انداز میں ہوا۔ وزیر اعظم نے دیہاڑی دار اور مزدور افراد کے لئے 200 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس رقم کا بڑا حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر غریب خاندانوں کو پہنچ چکا ہے۔ باقی کا تقسیم ہونے کو ہے۔ 200 ارب کیا 2000 ارب بھی مختص کر دیں تو غریب کی حالت نہیں بدلے گی۔ اسی طرح جیسے عشروں سے مخصوص مستحق خاندانوں کو زکوٰۃ دی جا رہی ہے لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ اب اس کے حالات بہتر ہو گئے ہیں اس لئے سرکار کی طرف سے فراہم کی جانے والی زکوٰۃ کی ضرورت نہیں۔

سالانہ 15 سے 20 ارب روپے محکمہ زکوٰۃ تقسیم کرتا ہے۔ جس جماعت کی صوبوں میں حکومت ہو اس کے گلی محلے کی سطح کے نمایاں کارکنوں کو زکوٰۃ کمیٹی کا رکن اور چیئرمین منتخب کر لیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کا پیسہ عموماً ایسے افراد کو ملتا ہے جو حکمران پارٹی کے لوگوں کو سلام کرنے حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں مستحق بھی شامل ہیں۔ ہمارے ہاں مدد کا تصور ہی غلط ہے۔ ہمارے اس غلط تصور نے افلاس زدہ کلاس کے مالی مسائل حل کرنے کی بجائے اسے بھکاری بنا دیا ہے۔

مستحق بھی خود کو بدلنے کی بجائے جھگڑا کر کے امداد وصول کر رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے۔ جونہی کسی گاڑی نے سڑک کنارے بریک لگائی ادھر ادھر سے درجنوں لوگ جھپٹ پڑے۔ ایسا ہی ایک واقعہ وحدت روڈ لاہور پر پیش آیا۔ ایک فلاحی تنظیم اللہ والے ٹرسٹ نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان حال رکشہ ڈرائیوروں کے لئے راشن کا انتظام کیا۔ تنظیم کے سرپرست شاہد لون گزشتہ دس سال سے رمضان میں افطار و سحر کا دسترخوان لگا رہے ہیں۔

لاہورکے تمام قرنطینہ مراکز میں کھانا دے رہے ہیں۔ تنظیم کے خیرخواہ انعام الحق سلیم اور اظہر عباس جنجوعہ کے بقول انہوں نے 450 رکشے والوں کوفی کس 4500 روپے کا راشن پیک پہلے ہی تقسیم کر دیا تھا۔ اب کی بار 550 بیگ تیار کیے۔ جس روز راشن تقسیم ہونا تھا اس صبح مقررہ جگہ پر ایک ہزار رکشہ ڈرائیور اپنے رکشوں سمیت صبح آ کھڑے ہوئے۔ ان میں سے کسی کے پاس تنظیم کے ٹوکن یا کارڈ نہ تھے۔ انہیں فہرست ترتیب دینے والے صاحب کے مخالف یونین لیڈر نے بھیج کر ہنگامہ کروا دیا۔

فلاحی تنظیم کے خلاف مظاہرہ ہوا، ذرائع ابلاغ نے اس مظاہرے کو جگہ دی۔ یوں تاثر ملا کہ ٹرسٹ والے رکشہ ڈرائیوروں کو امداد دینے کی بجائے ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ پولیس نے درد دل رکھنے والے افراد کو طلب کر لیا کہ آپ کی وجہ سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہوا۔ جیسے تیسے انہوں نے جان چھڑا لی لیکن اس واقعہ سے یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ خیر کا کام کرتے ہوئے بھی ہمارا نظام خیرات کرنے والوں پر دباؤ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

خیرات کو ہم نے معاشی نمو میں اضافے کے ذریعہ کے طور پر کبھی نہیں دیکھا۔ ہم برا خواب دیکھیں، یا کسی مصیبت کا شکار ہوں تو خیرات کرتے ہیں، ہماری اس سوچ سے بھکاری مافیا واقف ہے اس لئے ہسپتالوں اور عدالتوں کے باہر سب سے زیادہ بھکاری ہوتے ہیں۔ میرے ایک عزیز دوست دیانت دار آدمی ہیں مگر کسی دفتری معاملے میں الجھے ہوئے، کئی نیک لوگوں سے دعا کا کہہ چکے۔ سب نے معاملات جلددرست ہونے کا بتایا۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے کسی مضطرب کی مدد کرنے کا مشورہ دیا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کسی بے روزگار کو سبزی، پھل کا ٹھیلہ لگوا دینا۔ معمولی جرمانے ادا نہ کر پانے کی وجہ سے قید افراد کی مدد۔ جس سے پورا خاندان دعا دیتا ہے۔ اصل خیرات یہ ہے کہ آپ کسی ایسے ضرورت مند تک پہنچیں جو محتاج ہو گیا ہے اور عید پر خودکشی کا سوچ رہا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے خیرات کو معاشی سرگرمی میں بدلنے کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔ لگ بھگ 15 سال قبل انہوں نے جب ”اخوت“ کی بنیاد رکھی تو مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا۔

اس وقت میں نے ایک تعارفی کالم بھی لکھا۔ مجھے خوشی ہے کہ چند کروڑ روپے کے فنڈزسے شروع یہ ادارہ اب اربوں روپے کے بلا سود چھوٹے قرضے دے رہا ہے۔ ہم چاہیں تو اخوت کے ساتھی بن جائیں۔ خود ایسا کرنا چاہیں تو بسمہ اللہ۔ یاد رکھیے بھیک دینے سے بھکاریوں کے لئے مواقع بڑھتے ہیں جبکہ کاروبار میں مدد نچلے طبقات کو معاشی اور سیاسی آزادی ہی نہیں دیتی بلکہ خود داری اور عزت نفس سے بھی روشناس کراتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments