کراچی طیارہ حادثہ: کیا کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے متصل آبادی حادثے کی وجہ ہو سکتی ہے؟


کراچی

گذشتہ روز لاہور سے آنے والا پی آئی اے کا طیارے پی کے 8303 کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی دوسری کوشش کے دوران ایک تین منزلہ گھر کی پانی کی ٹینکی سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔

یہ گھر ایئرپورٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ماڈل کالونی کے علاقے جناح گارڈن میں واقع ہے اورکراچی شہر کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی ملیر کینٹ بھی اس علاقے سے متصل ہے۔

تازہ ترين ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارہ اپنے لینڈنگ گیئر کے ساتھ اترنے کے کوشش کر رہا ہے اور اس نے ’ریم ایئر ٹربائن‘ کھول رکھی ہے جس کا مطلب ہے کہ طیارہ اپنی پاور یعنی انرجی اس سے حاصل کر رہا تھا اور اس کے دوسرے ذرائع یعنی انجن وغیرہ کام نہیں کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات کی تاریخ

’لوگوں نے شور مچایا کہ جہاز آ رہا ہے، اس میں سے دھواں نکل رہا ہے‘

’جن لاشوں کو پہلے نکالا انھوں نے آکسیجن ماسک پہنے ہوئے تھے‘

تو آبادی کے اتنا قريب ہونے کی وجہ سے طیارہ اپنے اترنے کے روٹ پر مکمل طور پر نہیں اتر پایا اور عمارتوں سے اس کی دم ٹکرا گئی۔

اس گنجان آباد علاقے کی تنگ گلیوں میں جہاں ریسکیو کے کاموں میں دشواریاں پیش آئیں وہیں یہ سوالات بھی اٹھے کہ کیا ایئرپورٹ سے اتنے کم فاصلے پر آبادی کا ہونا غیر قانونی نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر یہ آبادی اس جگہ نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟

کیا ایئرپورٹ کے اتنا قریب آبادیاں ہونی چاہییں؟

رن وے کے قریب آبادی کا مطلب ہے کچرا، کچرے کا مطلب ہے پرندے اور جانور جو اس کچرے پر آئیں گے۔ پرندوں کا مطلب ہے کہ یہ طیاروں کے لیے مستقل خطرے کی گھنٹی ہیں۔

کراچی

پاکستان میں سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق کسی بھی ہوائی اڈے کے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے میں تعمیر کے لیے سول ایوی ایشن سے این او سی لینا لازمی ہے

یعنی ان پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے سے طیاروں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان کے دونوں بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈوں یعنی کراچی کے جناح انٹرنیشنل اور لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب اتنی آبادیاں بن چکی ہیں کہ ایسے حادثات کا خدشہ بہت عرصے سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔

ایئرپورٹ کے اتنا قریب آبادیاں ہونے کے بہت سے نقصانات ہیں اس لیے دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں جن میں آبادیوں کو ایئرپورٹ کے زیادہ قریب بنانے کے اجازت نہیں دی جاتی۔

پاکستان میں سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق کسی بھی ہوائی اڈے کے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے میں تعمیر کے لیے سول ایوی ایشن سے این او سی لینا لازمی ہے۔

تو جتنی بھی عمارتیں اس 15 کلومیٹر کے دائرے میں بنتی ہیں ان کے لیے اجازت حاصل کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایئرپورٹ کی نوعیت کے حساب سے قوانین موجود ہیں جن کے مطابق تعمیرات کی اجازت دی جاتی ہے۔ یعنی اگر ایئرپورٹ پر انسٹرومینٹ لینڈنگ کی گنجائش ہے تو اسے مختلف طریقے سے دیکھا جائے گا۔

حکومتِ پاکستان نے اس بارے میں نیشنل ایئرفیلڈ پالیسی سنہ 2013 میں مرتب کی تھی۔ اس پالیسی کے مطابق رن وے کے 900 میٹر کے علاقے میں تو کسی قسم کی بھی تعمیر کی اجازت نہیں اور عموماً اس علاقے میں صرف ایئرپورٹ کی عمارتیں جیسا کہ واچ ٹاور وغیرہ ہوتے ہیں۔

اس کے بعد بیرونی عمودی سطح ہوتی ہے جس میں رن وے کے ریفرنس پوائنٹ سے 1500 میٹر اور 50 ہزار فٹ کے علاقے کو ایک مخروطی حساب سے خالی ہونا چاہیے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اس کے بعد رن وے کے دونوں سروں پر واضح علاقہ خالی ہونا چاہیے۔ جس کی حد رن وے ختم ہونے کے بعد کم از کم آٹھ کلومیٹر کے دائرے تک ہونی چاہیے۔ جس کو اوور رن علاقہ کہا جاتا ہے جس میں طیارہ اگر رن وے مکمل کرنے پر بھی نہ رکے تو اسے استعمال کر سکے۔

کراچی اور لاہور کے علاوہ گلگت، چترال میں بھی یہ علاقہ کافی محدود ہے۔ اسی طرح رن وے کے ختم ہونے کے بعد کے آٹھ کلومیٹر کے دائرے میں کسی قسم کی آلائشوں کے پھینکنے پر بھی پابندی ہے۔

کراچی

اس علاقے میں کسی قسم کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے اور اس کے آس پاس عمارتوں کی انچائی کے بارے میں بھی قواعد ہیں

طیارے کے اترنے اور پرواز کرنے کا راستہ یا فنل ایریا

ہر ایئرپورٹ کے رن وے کے دونوں اطراف رن وے کے خاتمے کے بعد 2773 میٹر تک کے علاقے کو فنل ایریا کہتے ہیں جو ایک چمنی کی طرح ہوتا ہے۔ یعنی ایئرپورٹ کے قریب چوڑا ہو جاتا ہے جبکہ جوں جوں دور ہوتا جاتا ہے اس کی چوڑائی کم ہوتی جاتی ہے۔

اس علاقے میں کسی قسم کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے اور اس کے آس پاس عمارتوں کی اونچائی کے بارے میں بھی قواعد ہیں۔

اس میں رن وے کے قریب کے علاقے میں عمارتوں کی اونچائی کم ہوتی ہے جبکہ جوں جوں یہ دور ہوتا جاتا ہے عمارتوں کی اونچائی میں اضافہ ممکن ہو پاتا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ کراچی اور لاہور کی ہوائی اڈوں کے فنل ایریا میں آبادی بہت قریب آ چکی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

آج طیارے کے حادثے کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر یہ آبادی رن وے کے سرے تک نہ پہنچی ہوتی تو کیا طیارہ یوں گرتا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ رن وے سے چند میٹر کے فاصلے پر تین منزلہ عمارتوں کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی؟

کیا ان عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیتے وقت سول ایوی ایشن کے حکام نے قوانین پر عملدارآمد کا جائزہ لیا؟

کیا این او سی جاری کیا گیا؟ اگر نہیں تو یہ عمارتیں کس کی اجازت سے اور اتنی اونچائی پر کیوں تعمیر کی گئیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp