کراچی طیارہ حادثہ: ’اپنے بھائی کی میت کو اُن کی گھڑی اور لباس سے شناخت کیا‘
جمعہ کو صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قومی ایئر لائن کی ایک مسافر پرواز کو پیش آئے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے 66 افراد کی میتتوں کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ باقی رہ جانے والی لاشوں کی شناخت کے لیے انگلیوں کے نشانات اور ڈی این اے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
اپنے بھتیجے کی میت کی شناخت کے لیے کراچی کے ایدھی سرد خانے آنے والے سید عمران علی نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ چند میتتیں اتنی جھلس چکی ہیں کہ وہ شناخت کے قابل ہی نہیں رہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اپنے بھتیجے کی شناخت کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اپنا ڈی این اے کا نمونہ کراچی ہونیورسٹی بھجوایا ہے۔
وزیرِ صحت سندھ کے مطابق اب تک 47 لواحقین نے اپنے ڈی این اے نمونے جمع کروائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات کی تاریخ
’جن لاشوں کو پہلے نکالا انھوں نے آکسیجن ماسک پہنے ہوئے تھے‘
کراچی طیارہ حادثہ: کیا ایئرپورٹ سے متصل آبادی حادثے کی وجہ بنی؟
سید عمران علی کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی معلومات کے لیے مناسب اور مرکزی نظام نہ ہونے کے باعث انھوں نے اپنے بھتیجے سید ارمغان علی کی تلاش کے لیے چار ہسپتالوں کے چکر لگائے اور جب انھیں کہیں سے کچھ خبر نہ ملی تو انھوں نے ایدھی سرد خانے کا رخ کیا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق پہلے مرحلے میں لاشوں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات کے ذریعے شناخت کا عمل مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے قومی رجسٹریشن کے ادارے نادرا کی ٹیمیں کراچی میں موجود ہیں۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والے دلشاد احمد کے چھوٹے بھائی کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے بھائی کی میت کو شناخت کرنے میں تو کوئی دشواری پیش نہیں آئی لیکن ہسپتالوں میں لواحقین کے رش کی بنا پر انھیں میت موصول ہونے میں تھوڑی پریشانی ضرور ہوئی۔
دلشاد نے بتایا کہ ہر شخص کی کوشش تھی کہ اس کے رشتے دار کی میت پہلے مل جائے۔ دلشاد احمد کے بھائی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے بھائی کو ان کی گھڑی اور لباس سے پہچانا۔
’میرے بھائی نے جہاز میں سوار ہونے سے چند لمحے قبل ایئر پورٹ سے اپنی تصویر بھیجی تھی۔ اس لیے ہمیں ان کے لباس کا پتا تھا۔‘
دلشاد احمد کے بھائی نے جہاز میں سوار ہونے سے قبل کراچی میں مقیم اپنی والدہ اور اہلیہ کو فون کیا تھا۔
’ہمیں جیسے ہی جہاز گرنے کی خبر ملی ہمیں پتا تھا کہ یہ وہی پرواز ہے جس میں ہمارے بھائی سوار ہیں۔ اس لیے ہم نے فوراً ہی ان کی تلاش شروع کر دی۔ اور کچھ دیر بعد مسافروں کی لسٹ سے بھی اس امر کی تصدیق ہو گئی۔‘
ان کے بھائی نے بتایا کہ انھیں جناح پوسٹ گریجوئیٹ سینٹر سے شناخت کے بعد میت مل گئی۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن لاشوں کی شناخت انگلیوں کے نشانات سے ممکن نہیں ان کے اور ان کے رشتے داروں کے ڈی این اے نمونے لیے جا رہے ہیں جسے کے بعد انھیں ٹیسٹ کے لیے لیباٹری بھیجا جائے گا۔ لہذا اس عمل میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔
- ایرانی جوہری تنصیب اور ڈرون و بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی فیکٹریوں کے مرکز اصفہان کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟ - 20/04/2024
- غزہ کی وہ تصویر جسے ’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ ملا: ’اس لمحے میں غزہ کے درد کی داستان موجود ہے‘ - 19/04/2024
- کراچی میں جاپانی شہریوں پر حملہ کیسے ناکام ہوا؟ - 19/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).