طیارہ حادثہ، شکوہ یا جواب شکوہ


ملیر ماڈل کالونی کی گلیوں میں ایک ادھیڑ عمر مجہول شخص جذب کے عالم میں حمزہ، حمزہ پکار رہا تھا۔ اس کا گریبان چاک تھا اور بال بکھرے بکھرے ہوئے تھے۔ سرخ آنکھوں سے امڈتے آنسو گویا سمندر کی بے لگام لہروں کی طرح بے بسی کے اظہار کے بجائے ایک خطرناک طوفان کے آنے کا پتہ دے رہی تھیں۔ درجنوں کی تعداد میں موجود ایدھی اور چھیپا کی ایمبولینسز کانوں کو چیر دینے والے سائرن سیکڑوں رضاکاروں، پولیس، رینجرز اور آرمی کے دستوں اور میڈیا کے نمائندوں اور اردگرد کے رہائشیوں کے چیخنے چلانے کے باوجود ادھیڑ عمر مجہول کی صدا آسمان کا سینہ چیرتی ہوئی اپنے خالق سے شکوہ کناں تھی۔

نیم مدہوشی کے عالم میں وہ بار بار چند جملے بڑبڑا رہا تھا میرے بیٹے نے جہاز میں بیٹھ کر مجھے فون کیا تھا ابو آپ مجھے لینے ائرپورٹ آئیں گے؟ میں نے کہا جمعۃ الوداع کی نماز کا وقت ہے میں نہیں آؤں گا۔ پھر پراسرار خاموشی ”میرے خالق میں نے تو تجھے نظر انداز بھی نہیں کیا، میں تو سجدہ ریز تھا“ ۔

کسی نے پوچھا آپ کا بیٹا کیا کرتا تھا؟ اچانک اس کا سینہ تن گیا اور آنکھوں میں فخریہ چمک ’پاک فوج میں لیفٹیننٹ‘ اور پھر وہی پراسرار خاموشی۔ ”میں نے تو اپنا بیٹا ملک و ملت کے سپرد کر دیا تھا“ ۔ رضاکار جوں ہی کوئی سوختہ لاش طیارے کے ملبے سے نکال کر ایمبولینس میں منتقل کرتے ایک بار پھر حمزہ، حمزہ، حمزہ کی گردان اور آنکھوں سے امڈتی موجیں اپنا زور دکھانے لگتیں۔

طیارے کے سلگتے ملبے اور اس سے اٹھتے دھوئیں میں جواں سال بینکر عبدالرحیم، ان کی پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ اہلیہ اور تین کمسن بچوں، پاک فوج کے ہونہار میجر شہریار فضل، ان کی اہلیہ اور دو بچوں سمیت ان گنت آوازیں عرش کا سینہ چیر رہی تھیں، ”ہم سے کیا گناہ ہوا تھا ہم تو عید کی خوشیاں سمیٹنے اپنے پیاروں کے پاس پہنچنا چاہتے تھے۔ ابھی تو ہماری معصومیت بھی رخصت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اپنے خاندان کی سیاسی وابستگی کو پس پشت ڈال کر مادر وطن کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ میں تو اپنے اور بچوں کی اعلی تعلیم کے خواب دیکھ رہی تھی۔ ہم نے اپنے سفر کے لیے مدینہ کی ریاست کی ملکیت ائر لائن کا انتخاب کیا تھا۔“

منظر بدلتا ہے۔

میڈیا کے نمائندوں سے کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں خصوصی پرواز سے کراچی پہنچنے والے قومی ائر لائن کے عسکری سربراہ کا انتظار طویل ہوتا جا رہا ہے۔ چلچلاتی دھوپ اور طیارے کے ملبے میں لگی آگ کی حدت کو کم کرنے کے لیے درجنوں ائر کنڈیشنڈ کمرے اور ہولناک مناظر کا مشاہدہ کرنے والے صحافیوں کے درجہ حرارت کو معتدل کرنے میں مصروف ہیں۔ ہرکارے پل پل کی اطلاع جہاں پناہ کو پہنچا رہے ہیں۔ ماحول سازگار دیکھ کر آمد کا طبل بجایا جاتا ہے۔ خوش گلو قاری مالک حقیقی کی حمد و ثنا پیش کرتے ہیں۔

معاون خصوصی رہی سہی کسر بھی دور کرنے کے لیے تمہید کے ذریعے الفاظ کا خوبصورت جال بنتے ہیں۔ حضور بالا عسکری قیادت سے اپنے گہرے مراسم کی بارہا یاد دہانی کراتے ہوئے آغاز کرتے ہیں اور آزمودہ نسخے کے مطابق اپنی دائیں بائیں موجود نو رتنوں کے ہاتھوں میں موجود چند صفحات کو لہرا کر طیارے کے حفاظتی اور انتظامی معیارات پر اٹھتے سوالوں کو بے بنیاد قرار دے کر خدا کے قہر سے ڈراتے ہوئے اپنی معصومیت پر اپنی ہی مہر ثبت کرتے ہیں۔

عجز و انکساری کا لبادہ برقرار رکھنے کے لیے من پسند منصفوں کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونے کی نوید بھی دی جاتی ہے۔ تمام تر پیش بندیوں کے باوجود اکا دکا تلخ سوالوں پر جہاں پناہ کا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور وہ عاجزی اور انکساری کا لبادہ پھینک کر اپنا حقیقی عسکری چہرہ عیاں کرتے ہیں آڈیٹوریم میں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ماحول کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے معاون خصوصی سرعت سے نشست برخواست کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

کچھ ساعتوں بعد حسب وعدہ ’غیرجانبدار‘ منصفین کی عدالت (انکوائری کمیٹی) کا حکمنامہ میڈیا کو موصول ہوجاتا ہے چار میں سے تین منصفین جہاں پناہ کے براہ راست ماتحت ہیں حضور کو یہ یقین اور اعتماد ہے کہ اس عمل کو چیلنج کرنے کی جرات یا زحمت کرنے والوں کی آواز نقار خانے میں طوطی سے زیادہ نہیں ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، آسمانی اور زمینی دونوں ہی خداؤں کی بارگاہ میں جہاں پناہ کا اقبال بلند ہے۔

رات گزری سورج ایک بار پھر اپنی آب و تاب سے چمکا، نہ زمین پھٹی نہ آسمان میں کوئی شگاف ہوا، زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی جیسا کہ اگلے حادثے کا انتظار کررہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments