غلام نسلوں کا واویلا


کرنل محمد فاروق نے اگست دو ہزار اٹھارہ میں ایبٹ آباد کے مقام پر پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی، انہیں گالیاں تھیں اور انہیں پیچھے سے گولی مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑائیں، بدلے میں پولیس افسر نے بھی کمال بہادری کا مظاہرہ کیا اور وہی گالیاں بالکل اسی انداز میں کرنل کو بھی دے ڈالیں اور دونوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، معاملہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ تک پہنچا جس پر انھوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کرنل فارق کا کوئٹہ ٹرانسفر کر دیا اور یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

بدھ کی شام جب لوگ ستائیسویں شب عبادت گزاری میں مصروف تھے، اسی کرنل کی بیوی نے وہ واقعہ ایک دفعہ پھر دوہرا دیا اور یوں کرنل ایک بار پھر میڈیا کی زینت بن گیا۔ میں نے دونوں ویڈیوز کئی بار دیکھیں اور کرنل اور کرنل کی بیوی کے جارحانہ رویے سے خوب لطف اٹھایا اور میرا اس بات پر یقین پختہ ہوتا گیا کہ ہم غلام پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ فیصلہ ”سٹیٹس“ کرتا ہے کہ ہم نے کس کی عزت کس حد تک کرنی ہے اور کس کو گالی کتنی بڑی دینی ہے سو اس ملک میں رہنے کے لیے سٹیٹس اپ گریڈ رکھیں تاکہ آپ سکون کا سانس لے سکیں۔ پچھلے بارہ گھنٹوں میں ان دو ویڈیوز کے علاوہ درجنوں ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جن میں کوئی نہ کوئی صاحب اپنے سٹیٹس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے کو ذلیل و خوار کر رہا ہے اور ہمارا قانون ہمیشہ کی طرف امیر کی لونڈی بنا تماشا دیکھ رہا ہے۔ آپ کو نہیں یقین تو آپ اپنے ارد گرد دیکھ لیں۔

ہر بڑے سٹیٹس کا آدمی چھوٹے سٹیٹس کو گالیاں دے رہا ہوگا، اسے اپنا غلام سمجھتے ہوئے ذلیل و خوار کر رہا ہو گا اور یہ سب آپ کو برصغیر میں زیادہ نظر آئے گا، دوسرے ملکوں میں اس بدمعاشی کی ریشو شاید اس حد تک نہیں جتنی پاکستان میں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ انہیں اپنے ملکی قوانین پر پورا اعتماد ہے جو کہ ہمارے شہریوں اور سٹیٹس ہولڈرز کو نہیں ہے۔ آپ دیکھ لیں سکول کا ہیڈ ماسٹر چھوٹے اساتذہ کو اپنا غلام سمجھتا ہے، چھوٹے اساتذہ چوکیداروں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔

بزنس مین اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے، مل مالک مل میں مزدوری کرنے والوں کو اپنی رعایا سمجھتا ہے۔ پولیس کا انسپکٹر چھوٹے ملازمین کو گھٹیا اور ذلیل سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے انسپکٹر کے ساتھ اس کا افسر بھی کتوں والی کر رہا ہوتا ہے۔ یہی سب کچھ آپ کو ملک کے دیگر اداروں میں نظر آئے گا بلکہ آپ کے اپنے ساتھ بھی کہیں نہ کہیں ایسا ہوا گا۔ کسی وکیل، کسی ڈاکٹر، کسی فوجی، کسی پولیس افسر، کسی بزنس مین یا کسی فیکٹری کے مالک نے کہیں نہ کہیں آپ کے حق ہر ڈاکہ ڈالا ہوگا کیونکہ آپ ایک رعایا ہیں اور اس کی مجموعہ ذہن سازی ہی ایسی کر دی گئی ہے کہ یہ اس فارمولے پر عمل کرتی ہے ”جوتے مارنے والے لوگ زیادہ بلائے جائیں کیونکہ جوتے کھانے والے بڑھ رہے ہیں“ ۔

آپ دیکھ لیں جب سے یہ ملک بنا ہے اس میں یہی دو قومی نظریہ قائم ہے اور یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ یہ دوقومی نظریہ شاید اگلے سو سال تک نہ بدل سکے کیونکہ اس دو قومی نظریے کو سب سے زیادہ ہمارے حکمرانوں نے عزت و احترام سے نوازا۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان جس نعرے کا لالی پاپ دے کر اقتدار میں آئے تھے کہ میں سٹیٹس کلچر ختم کروں گا، افسوس آخر کار وہ خود بھی اسی اسٹیٹس کا شکا ر ہو گئے۔

سو یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں کوئی چاہ کر بھی اس کلچر کو ختم نہیں کر سکتا لہٰذا میرے خیال سے کرنل ہو یا کرنل کی بیوی، آئی جی ہو یا عام پولیس افسر، کوئی بزنس مین ہو یا کوئی بھی سٹیٹس ہولڈر، ہم سب اس کی رعایا ہیں، وہ چاہے تو ہمیں کچل دے یا چاہے تو گالیوں سے ہماری ماں بہن کو ایک کر دے، بس ہمیں یہ فخر ہونا چاہیے کہ ہم اس ملک کے باسی ہیں اور اس ملک کو ابتدا سے ہی جس دو قومی نظریے کی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا اس کا بنیادی پوائنٹ یہ سٹیٹس تھا۔

ہم اس ملک میں آج تک کسی سٹیٹس ہولڈر کو کوئی سزا نہیں دے سکا اور یہ ہماری ملک کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جو ہماری آنے والی نسلوں تک ایسے ہی منتقل ہو رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرے بعد میں آنے والی متوسط نسلیں اس سٹیٹس سے میری طرح نفرت ضرور کریں گی مگر ان کے ہاتھ بھی باندھے ہوئے ہوں گے۔ نہ وہ اس کے خلاف بول سکیں گے اور نہ ہی لکھ سکیں گے کیونکہ ایسے موضوعات پر لکھنا یا بولنا میرے جیسے کسی عام صحافی کے بس کی بات نہیں کیونکہ مجھے اور میرے جیسے دیگر صحافیوں کو اپنی روزی روٹی بھی چلانی ہے اور گھر بار بھی دیکھنا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کہیں نہ کہیں اسی سٹیٹس کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہمیں یہ سب ایسے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ تاریخ کا یہ فیصلہ سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے کہ ”جو قوم خود غلام رہنا چاہیے اسے خدا بھی آزادی نصیب نہیں کرتا“ ۔ مجھے شدید حیرانی ہوتی ہے جب کرنل کی بیوی جیسے واقعات اس سوسائٹی میں ہوتے ہیں اور ہماری فارغ قوم سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالتی ہے مگر دو دن بعد یہ معاملہ دب جائے گا اور کچھ ہی روز بعد ایسا ہی یہ اس سے ملتا جلتا کوئی نیا واقعہ رونما ہو جائے گا۔

یہ واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک ہمیں ایسے لوگوں کا قلع قمع نہیں کرتے جنہوں نے اس ملک کو باپ دادا کی جاگیر سمجھا اور اس کا وہ حشر کیا جو کوئی دشمن کا بھی نہیں کرتا۔ پچھلے ستر سالوں میں اس ملک پر جن چند سیاست دانوں نے یا داروں نے حکومت کی، انھوں نے ہماری تربیت ہی ایسی کر دی ہے کہ عام آدمی ان کی نظر میں محض جنگلی جانور ہے جو پیدا ہی شکار کے لیے ہوا ہے سو اس کو شکار ہونا ہی ہے۔ میری پیاری قوم کو خوش ہونا چاہیے کہ اسے آئے روز کوئی نہ کوئی سٹیٹس ہولڈر کسی نہ کسی ذریعے سے یہ بتا دیتا ہے کہ تمہارے عام آدمی کی اوقات کیا ہے۔

آپ دیکھ لیجیے گا یہ واقعہ اور ایسے ہی کئی واقعات اس ملک میں ہوتے رہیں گے اور تب تک ہوں گے جب تک سٹیٹس ہولڈر اور عام آدمی کے لیے یکساں قانون نہیں بن جاتا۔ میں بہت واضح الفاظ میں کہہ دیتا ہوں کہ یہاں بالکل بھی کرنل کا قصور ہے اور نہ کرنل کی بیوی کا ’قصور ہمارا ہے جس نے یہ نظریہ ڈویلپ کیا کہ ہم عام آدمی ہیں اور سٹیٹس والا بڑا آدمی اور اس ملک پر ہمارے سے زیادہ کرسی پر بیٹھنے والے کا حق ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی کوئی سیاستدان کے پروٹوکول کے دوران عورتیں رکشوں میں بچے جن دیتی ہیں، کبھی پروٹوکول میں نواز شریف صاحب بچہ گاڑی کے نیچے کچل دیتے ہیں اور کبھی گورنر صاحب کے پروٹوکول کی وجہ سے لوگ ایمبولینس میں ہی جان دے دیتے ہیں، سو یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اگلے سو سال بھی اسی پروٹوکول کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ لہٰذا ایک عام آدمی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ پیدا ہی غلامی کے لیے ہوا، وہ چاہیے سٹیٹس میں اس سے برا چوکیدار ہی کیوں نہ ہو، سو غلام نسلوں کا واویلا کسی کام کا نہیں ہوتا۔

باقی جہاں تک سوال ہے کرنل کی بیوی کا۔ ہماری فوج کا امیج ہماری قوم کی نظروں میں کیسے خراب ہوا یہ ایک روشن باب ہے جس کو سمجھانے کے لیے یقیناً کسی کالم کی ضرورت نہیں مگر ”عہد وفا“ کے بعد یہ امیج تقریباً کافی بہتر ہوا اور اس ڈرامے پر لگنے والا کروڑوں روپیہ کام آتا محسوس ہوا لیکن افسوس ایک کرنل کی بیوی نے سب ستیا ناس کر دیا۔ ہر ادارے میں کچھ نہ کچھ گندے کیڑے بھی ہوتے ہیں جو پورے ڈیپارٹمنٹ کا چہرہ بگاڑ رہے ہوتے ہیں اور میرا خیال سے ایک کرنل یا اس کی بیوی کی وجہ سے پورے ادارے کو تنقید کا نشانہ تب تک نہیں بنانا چاہیے جب تک اس معاملے کا کوئی واضح حل نظر نہیں آتا۔ ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ فوج ہمارے ملک کا انتہائی اہم ترین اور قابل فخر ادارہ ہے اور وہ یقیناً ایسے عناصر کا قلع قمع کرے گا جو اسے بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں اور اس معاملے میں ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments