عمران خان کو جہانگیر ترین سے کیا خطرہ ہے؟


چینی سکینڈل کی رپورٹ آہی گئی ہے، ایسی رپورٹس پہلے بھی بہت سی آئی ہیں مگر ہوا کچھ بھی نہیں، چینی سکینڈل رپورٹ میں زیادہ تر مدعا جہانگیر ترین پر ڈالا گیا ہے، رپورٹ آنے پر جہانگیر ترین نے نجی ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 82 کے قریب شوگر ملز ہیں جبکہ تحقیقات صرف 10 کی ہوئی ہیں جن میں تین ان کی ملکیت ہیں۔

رپورٹ میں کہاں تک حقائق درست ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر یہ بات طے ہے 72 شوگر ملز کی تحقیقات نہ ہونا سارے عمل کو ہی مشکوک بنا گیا ہے اور پھر 10 میں سے صرف 3 جہانگیر ترین کی ہیں جن کی تحقیقات کی گئی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہدف صرف جہانگیر ترین ہی تھے۔

یہ خبر بھی ہے کہ عمران خان نے جہانگیر ترین کی طر ف سے دی گئی بلٹ پروف گاڑی واپس کر دی ہے، ظاہر ہے اب عمران خان وزیراعظم ہیں ان کی سکیورٹی ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ان حالات میں جہانگیر ترین کی گاڑی کو خان صاحب نے پھونکنا ہے بلکہ اب تو اس کے کھڑا کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ہوگی۔

کسی کا تحفہ واپس کردینے کا مطلب ہے بھائی خداحافظ۔ ۔ ۔ میرا اور آپ کا سفر بس یہاں تک ہی تھا مگر خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والا محسن ہوتا ہے اور مشکل سے نکل کر محسن کو جو بھول جائے اسے دنیا محسن کش اور احسان فراموش کہتی ہے، اندر کھاتے کیا معاملات ہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ محسوس ہورہا ہے کہ خان صاحب جہانگیر ترین سے توبہ تائب ہو گئے ہیں اور آئندہ دوستی جاری رکھنے کی گنجائش لگتی نہیں۔

جو کچھ عمران حکومت نے جہانگیر ترین کے ساتھ کر دیا ہے اس کے بعد میرا نہیں خیال کہ جہانگیر ترین بھی خان صاحب کے ساتھ دوبارہ کھڑے ہوں گے، خان صاحب سیاست کے کچے کھلاڑی ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ سیاست کتنا گندا دھندہ ہے جس میں دل نہیں ہوتا، سیاست میں موجودہ حالات کو دیکھا جاتا ہے، دوستیاں یا وفاداریاں نہیں نبھائی جاتیں، ماضی قریب میں ہی دیکھ لیں، فیصل صالح حیات نے پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا تھا۔

الیکشن سے پہلے اور الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد جس طرح جہانگیر ترین کا جہاز اڑا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، ایک دوست نے اس وقت بتایا کہ الیکشن کے بعد جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان کو ساتھ لے کر ایک آزاد ایم پی اے کے گھر پہنچے، سلام و دعا کے بعد آزاد ایم پی اے نے دونوں کو بیٹھنے کی دعوت دینے سے قبل ہی ایک کاغذ عبدالعلیم خان کو دیدیا، عبدالعلیم خان نے وہ کاغذ پڑھ کر جہانگیر ترین کے حوالے کر دیا جس پر الیکشن میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل تھی، جہانگیر ترین نے تفصیل پڑھ کر کہا، یہ تو ہو گیا اب آگے کی بات کریں، پھر دونوں اس ایم پی اے کو جہاز میں لے کر لاہور آ گئے۔

جس طرح جہانگیر ترین کو چور ثابت کرنے کے لئے عمران حکومت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے اس کے جواب میں اگر جہانگیر ترین نے جہاز کی سواریوں کی کہانیاں بیان کردیں تو خان صاحب کی رہی سہی عزت بھی جاتی رہے گی کیونکہ ریحام خان نے ذکا وقار کو بتا دیا ہے کہ ”پہلے والے کی پرفارمنس خان صاحب سے زیادہ بہتر تھی“

عمران خان نے جہانگیر ترین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ان کے لئے نیا نہیں ہے، جہاں تک میں جہانگیر ترین کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ یہ ہے جہانگیر ترین دوست، رشتہ دار پر بہت کچھ لٹا دیتے ہیں مگر بے وفا دوست اور رشتہ دار کی شکل دوبارہ نہیں دیکھتے۔

سنہ 90 کی دہائی میں جہانگیر ترین نے ملتان کی پیپسی کولا کی فیکٹری اپنے چھوٹے بھائی عالمگیر کے حوالے کی اور نئی کمپنی بنا کر لاہور کی پیپسی کولا خرید لی، اس کمپنی میں ان کے حصہ دار ان کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود، اہلیہ، ہمایوں اختر وغیرہ تھے، پھر مخدوم احمد مخدوم کے علاقے جمالی دین والی میں شوگر مل بھی لگائی، 2002 ءکے الیکشن میں مخدوم احمد محمود کے علاقے سے الیکشن جیتا تو مخدوم صاحب نے کہا کہ میری وجہ سے الیکشن جیتے ہیں۔

اس پر بات بڑھ گئی اور جہانگیر ترین نے لودھراں سے الیکشن جیت کر رحیم یار خان کی نشست چھوڑتے ہوئے کہا کہ آج بوجھ اتار دیا ہے، اس کے بعد میں آج تک کسی تقریب یا محفل میں جہانگیر ترین اور مخدوم احمد محمود کو اکٹھے نہیں دیکھا گیا۔

جہانگیر ترین کی شہباز شریف سے اچھی دوستی تھی، جنوبی پنجاب میں شوگر مل لگانے پر اختلافات ہوئے، عدالتی جنگ لڑی اور جنگ جیتی پھر شہباز شریف تعلق تقریباً ختم کر دیا اور عمران خان کے ساتھ مل گئے۔

اب عمران خان نے بھی ان سے بے وفائی ہی کی ہے، جہانگیر ترین بدلہ لینے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ کوئی نیا کارنامہ سرانجام دیں گے جیسے عمران حکومت بناکر کیا ہے۔

چینی سکینڈل رپورٹ میں آٹے کی تحقیقات کے بارے میں میں نے میڈیا میں کوئی بات نہیں سنی، ان حالات میں لگتا ہے کہ سارا ماحول جہانگیر ترین کو ایک طرف کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔

اللہ جانے عمران خان کو جہانگیر ترین سے کیا خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اتنا بڑا قدم اٹھالیا، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کہ کون جیتا اورکون ہارا، مجھے میرے تایا ارشد کاظمی کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو انہوں نے بھٹو کی پھانسی پر لکھا تھا۔

مقتل میں مجرمان وفا تھے بہت مگر
میرا ایک ہی سر تھا جو سب کی نظر میں تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments