رند و زاہد بہک رہے ہیں


ارسطو ( 384۔ 323 ق م) سے منسوب اس قول کو عمرانیات اور سیاسیات کے دانشور صدیوں سے بیان کرتے آ رہے ہیں کہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ جہاں ارسطو نے کم سے کم الفاظ میں جو کہنا تھا وہ کہہ ڈالا وہیں اس نے انسان اور جانور کا موازنہ بھی کر ڈالا ورنہ کہاں جانور اور کہاں انسان! بعد کے دانشوروں نے وہی بات اپنے اپنے الفاظ میں ایسے ادا کی کہ سچ بھی بیان ہو جائے اور حضرت انسان کی دل آزاری بھی نہ ہو ورنہ ہمیشہ سے یہ خطرہ موجود رہا ہے کہ دل آزاری کی صورت میں انسان کہیں اس سے وہ سلوک نہ کر بیٹھے جو جانور ایک دوسرے سے بپھرتے وقت کر جاتے ہیں۔

دانشوروں کا زور اس بات پر ہے کہ بحیثیت سماجی حیوان انسان فطری طور پر اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور ان کے دکھ درد میں شامل رہ کر اپنے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے اور دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہو کر اپنی خوشیاں دوبالا کرتا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان رہ کر ہی اپنے صالح جذبوں مثلاً دوسرے انسانوں کے لئے ہمدردی، قربانی اور صلہ رحمی کی تکمیل چاہتا ہے۔ اشتراک عمل کے اس دائرے کی کوئی واضح اور متعین حدود نہیں ہیں کیونکہ یہ دائرہ محدود سے لامحدود ہو سکتا ہے۔ انسان نے بطور سماجی حیوان، خاندان، قبیلے، شہری ریاست (City State) اور پھر نیشنل سٹیٹ تک کا سفر طے کیا اور اب ٹرانس نیشنل ازم، انٹرنیشنل ازم اور گلوبلائزیشن کے سفر پر رواں دواں ہے۔

لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کی اسی ”سماجی حیوانیت“ جس پر اسے بجا طور پر بڑا ناز ہے اور جو اسے دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے، کا بگاڑ اس کے لئے نت نئی تباہیوں کا سامان پیدا کرتی ہے۔ یہ بگاڑ اس کی سرپھری نفرتوں اور محبتوں سے جنم لیتا ہے۔ یہ وہی انسان ہے جسے حیوان ناطق (صاحب عقل حیوان) بھی کہتے ہیں، اپنی نفرتوں اور محبتوں میں اندھا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات، خاندان، قبیلے، نسل، فرقے، خطے اور ریاست وغیرہ کی محبت اور دوسروں کی اسی قسم کی وابستگیوں سے نفرت میں وہ گل کھلاتا ہے کہ جانور جس میں الو اور گدھے بھی شامل ہیں زیر لب مسکراتے ہیں۔ قدیم و جدید انسانی تاریخ میں ہونے والی بڑی بڑی تباہیوں سے ہٹ کر ایک گھسے پٹے لطیفے کو دہراتا ہوں۔ ویسے یہ ہرگز کوئی لطیفہ نہیں کیونکہ کم و بیش دس دس مرتبہ آپ میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں ایسے معرکوں میں اپنا حصہ ڈال کر حق و باطل سے ماوراء، اور صلح کل کے تمام دعوے تھوڑی دیر کے لئے طاقچے میں رکھ کر ”نمرود“ سے نبرد آزما ہو چکے ہوں گے۔

کہتے ہیں کہ دو گوٹھوں (گاؤں ) کی کبڈی ٹیموں کے درمیان دوستانہ میچ ہو رہا تھا جسے دیکھنے کے لیے گاؤں کے ویلے لوگ جن میں ”جہاندیدہ بزرگ“ بھی شامل تھے اکٹھے بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف یہ دوستانہ مقابلہ دیکھ رہے تھے کہ اچانک دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی جس کے اثرات فوری طور پر گراونڈ کے باہر بھی ظاہر ہوئے اور اس طرح دونوں گوٹھوں کے تماشائی ایک دوسرے پر پل پڑے۔ گراونڈ کے باہر ایک نوجوان نے جب یہ بدلتا منظر دیکھا تو اس نے ”جہاندیدہ بزرگوں“ میں سے ایک سے گراونڈ کے باہر لڑائی کی وجہ دریافت کی۔ بزرگ نے انتہائی مختصر لیکن جامع الفاظ میں کہا ”او کھوتیا! دیکھ نہیں رہا کہ ہمارے گوٹھ کی ٹیم پر حملہ ہو گیا ہے، وٹہ چک۔ ۔ ۔ وٹہ۔“

یہ انسان کی خود غرضی ہی ہے کہ جب وہ پسند کرتا ہے تو برائی نہیں دیکھتا، نفرت کرے تو اچھائی نہیں دیکھتا۔ بے شک انسان غلطی کا پتلا ہے لیکن زیادہ تر غلطیاں ہم نفرت یا محبت میں کر جاتے ہیں۔ محبت بے لگام ہونا مانگتی ہے جیسے کہ۔ ۔ ۔ ”رک ہی جاتی ہے نظر حد نظر تک ورنہ/ دل تو کہتا ہے جہاں تم ہو وہاں تک دیکھوں“ ۔ تھوڑا اور آگے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ محبت، محبت مانگتی ہے اور پھر یہ مزید بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ عاشق اپنی محبت کے صلے میں چاہتا ہے کہ جب وہ اپنے محبوب سے کہے کہ چھلانگ لگا دو تو محبوب کو چاہیے کہ وہ فقط یہ پوچھے کہ کون سی کھڑکی سے؟ اور ماں اپنی قربانیوں اور محبت کے صلے میں جب بیٹے کو حکم دے کہ بیوی کو طلاق دے تو وہ بلا چوں و چرا اس کے حکم کی تعمیل کرے۔

قرآن کریم کا پیغام اس اہم معاملے پر بالکل واضح ہے جس میں اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کو تنبیہ کی ہے کہ تمہارا مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ یہ تنبیہ اس لیے ضروری تھی کیونکہ مال اور اولاد سے اندھی محبت نا انصافی اور تباہی کے دروازے کھولتی ہے۔ بطور فرد ہر انسان کے شخصی حقوق کی ذمہ داری نہ صرف ریاست بلکہ دوسرے افراد پر بھی ہے۔ قانون کی حکمرانی کا یہ تصور بڑا سادہ اور آسان ہے۔ انسانوں سے محبت کا ایک ہی معیار اور پیمانہ ہے کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو اور دوسروں کے لئے وہی سوچو جو اپنے لیے سوچتے ہو۔ بدقسمتی سے ہر فرد نے اپنے خود ساختہ معیار بنا کر لوگوں کو دو، چار یا چھے پر تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب معاملہ اپنی ذات، خاندان، نسل، علاقے، فرقے، مسلک، گروپ، جنس یا پارٹی سے وابستگی (affiliations) تک پہنچتا ہے تو شدت جذبات میں ”اچھوں اچھوں“ کی سمجھ بوجھ ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ،

غضب ہے رنگ شباب و مستی

کہ رند و زاہد بہک رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments