پاکستان میں مزاحمتی سیاست کیوں نہیں ہو رہی؟



پاکستان میں مزاحمتی سیاست ایک ایسے وقت میں دیکھنے کو نہیں ملتی جب ملک میں مزاحمت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ استبداد، جبر اور اندھیر نگری کی حکمرانی اس وقت چل رہی ہے۔ مہنگائی 13 فیصد سے بڑھ گئی ہے اور ستم کی انتہا دیکھئے کہ میڈیسن کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اس حکومت کے سائے تلے 40 لاکھ سے لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ 60 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے گر چکی ہے۔

میڈیا کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ ملک میں اس وقت سول اور غیر علانیہ آمریت نافذ ہے۔ نام نہاد وزیراعظم بیچارہ تو لاک ڈاؤن کرنے اور ختم کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتا، اور اس بیچارگی کا رونا خود بھی روتے ہیں پہلے فرمایا لاک ڈاؤن نہیں ہوگا دو دن بعد ”سرکار“ نے اعلان کیا کہ لاک ڈاؤن ہوگا۔ بعد میں بیچارے وزیراعظم کو اعلان کرنا پڑا کہ اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کیا میں تو نہیں کرنا چاہتا تھا۔

تو ایسے جبر اور استبداد کے دور میں اپوزیشن اور مزاحمت کی سیاست کہیں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ اس ظالمانہ نظام کے خلاف نہ کوئی سیاسی اور مزاحمتی تحریک چل رہی ہے اور نہ کوئی حکومت کے ایسے ظالمانہ اقدامات چیلنج کرنے کی جرات کر رہا ہے۔ بس ایک خاموشی اور طویل مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بجائے مزاحمت کرنے کے اپوزیشن تقسیم اور مفاہمت کی سیاست کا شکار ہے۔ عوام کو غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت کے سامنے کھلا چھوڑ دیا ہوا ہے۔ اور یہ جابر حکومت عوام کی خون چوسنے اور بوٹیاں نوچنے سے تکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ پارلیمنٹ اس وقت غیر موثر ہوگئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں پارلیمان کی کارروائی کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں ہیں۔ جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے تب سے کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہیں ہوئی ہے ماسوائے کچھ غیر آئینی صدارتی آرڈیننس پاس کرنے کے۔

ایسے حالات میں اگر اپوزیشن پارٹیوں کی مجرمانہ خاموشی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی خاموشی کی کئی وجوہات سامنے آجاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اکثر پارٹیاں اب عوام کو طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھتیں ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ اقتدار کیسے اور کس سے حاصل کرنا ہے اسی لیے انہیں عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہیں۔ جب وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ ہی نہیں سمجھتیں تو عوامی سیاست کیوں کر کریں۔ اسی لئے سب خاموش ہیں (یاد رہے اخبار میں ایک آدھ سرخی لگانے اور مذمتی بیان جاری کرنے کو مزاحمت اور عوامی سیاست نہیں کہا جاتا) اور اپنے آقا کو ناراض کرنا نہیں چاہتی ہیں۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ساری پارٹیاں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے نرغے میں ہیں اور یہ سب سٹیٹس کو اور اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی خاندان کے لوگ بیک وقت مختلف پارٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں تو ان کے مفادات مشترکہ ہیں اور سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں جبکہ اپنے مفادات عزیز ہے۔

حکومت کی ظالمانہ اور غیر جمہوری رویہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے پیچھے نیب کی ڈیوٹی لگائی ہے جو بھی حکومت کے خلاف بولتا ہے تو فوراً نیب کی نوٹس مل جاتے ہیں اسی لئے سب خاموش ہیں۔ شروع میں مریم نواز نے کچھ جلسے جلوس کیے مگر ”حکومت“ کی طرف سے کچھ رعایت ملنے کے بعد (جب نواز شریف کو باہر جانے دیا گیا) وہ پھر خاموش ہوگئی ہے اور اب اپنے ”بیانیے“ کے ساتھ لاپتہ ہے پتہ نہیں کہاں پر ہوگی وہ ”ووٹ کو عزت“ دلانے والی خاتون!

اسی طرح بلاول بھی وہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں جو ایک عوامی اور سیاسی رہنما کو کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان بھی شروع میں سڑکوں پر نکلے تھے مگر اب نظر نہیں آتے پتہ نہیں ان کا مشن پورا ہوا یا ان کو خاموش کرایا گیا۔ یہی صورتحال باقی اپوزیشن پارٹیوں کا ہے۔ سب دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عوام کی مشکلات سے ان کو کیا سروکار ہیں؟

ماضی میں بھی اس طرح غیر جمہوری اور جابرانہ حکومتیں گزری ہیں مگر اس وقت سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اور قسم کے تھے۔ ماضی میں مارشل لاؤں میں بھی بھرپور عوامی اور مزاحمتی تحریکیں چلی ہیں۔ اس طرح نہیں ہوتا تھا جس طرح آج ہورہا ہے۔ اس وقت آج کی طرح کمزور اور بزدل لیڈرشپ نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت خان عبدالولی خان، بینظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان جیسے نڈر اور بہادر سیاستدان ہوتے تھے۔ ولی خان ضیاء الحق جیسے ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کو جس طرح ہدفِ تنقید بناتے اس طرح آج کوئی عمران خان جیسے کٹھ پُتلی کے سامنے بھی نہیں بول سکتا۔

آج اگر کوئی حکومت کی ظالمانہ اور ناجائز پالیسیوں اور اقدامات کو صرف پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں تو یہ نا انصافی ہوگی بلکہ اس میں اپوزیشن برابر کی شریک ہے۔ کیونکہ اپوزیشن اپوزیشن نہیں رہی۔ اپوزیشن اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہے یعنی حکومت کو عوام دوست فیصلوں پر مجبور کروانا۔ تو اس ظالمانہ اقدامات میں دونوں قصور وار ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتیں تو پھر کوئی اور طاقت اس خلا کو پُر کرے گی۔

اب بھی اس جابر حکومت کو عوام دوست فیصلوں پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ سیاسی پارٹیاں عوامی اور مزاحمتی سیاست شروع کرے۔ کیونکہ عوام کی طاقت میں خدا کی طاقت شامل ہوجاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں عوام پر اعتماد کریں اور دکھی عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو سمجھیں اور انہیں طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر پالیسیاں تشکیل دیں کیونکہ عوام کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔

اور جب عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والا، ان کو سننے والا اور ان کے مطالبات ماننے والا کوئی نہ ہو تو پھر شدید عوامی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور یہی وہ وقت ہے عوامی تحریک اور ردعمل کا۔ اور عوامی انقلاب آنے کو تیار ہے پھر کوئی نہیں بچے گا اور اس ظالمانہ نظام کو بہا کر لے جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments