پچیس برس کی ریاضت اور افغان امن معاہدہ


ابھی وقت ہے کچھ کر گزرنے کا، اس کے لیے توانائی کی یکسوئی کی ضرورت ہے اور بہت حد تک معاملہ فہمی کے ادراک کی۔ حصول مقصد میں دیر ہو جانا ایک معمول کی علامت ہو سکتا ہے مگر اندھیر ہو جائے تو کیا کیا جائے، چراغ طور کو کہاں سے روشن کیا جائے۔ ثروت حسین نے کہا تھا

میں نے خود کو جمع کیا، پچیس برس میں
یہ سامان تو مجھ سے یکجا پھر نہیں ہو گا

تحریک انصاف کو صفحہ سیاست پر درج ہوئے پچیس برس گزر چکے۔ کوئی وقت آئے گا اسے کسی نصف صدی کے قصے سے یاد کیا جائے گا۔ دو چار برسوں کی جدوجہد کی کہانیوں سے نہیں۔ یار لوگ اسے شاعر والے ”پچیس برس“ ہی سمجھ رہے ہیں۔ جو فہم و فراست کی پائیداری سے کوسوں دور ہیں۔ انسان کی بھی کیا فطرت ہے کہ بار بار کی ہار سے وہ کامیابی تک کا سفر تو طے کر لیا جاتا ہے مگر یہ آبلہ پائی اس فتح میں نہ چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی ہار کے اجزاء کو شامل کر دیتی ہے۔ جو فاتح کی شخصیت کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس مطلوبہ فتح میں پوشیدہ، شکست کا عنصر ایک اہم حقیقت ہے جس کو جھٹلانا معمول کا واقعہ نہیں۔

کم و بیش دو دہائیوں کی جدوجہد کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ جس کو عوام نظرانداز کر ڈالتے۔ درحقیقت اپوزیشن ایسا شاندار لفظ ہمارے سیاسی نظام میں خوش بختی کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔ اس روش کو جمہوری رویوں کی ناکامی کہا جاتا ہے۔ اپوزیشن کا مثبت کردار معاشرے کی تعمیر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ذمہ دار حکومت سازی کا۔ بدقسمتی کہ اپوزیشن کے سربراہ شہباز شریف بطور قائد حزب اختلاف زیادہ فعال نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوتے ہی پہلا مسئلہ کپتان کے لیے یہ رہا کہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا سربراہ نہ بننے دیا جائے۔ کوئی چھ ماہ اسی سیاسی کشمکش میں گزر گئے۔ اس دوران قانون سازی نہ ہونے کے عمل کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بار بار کی ”ناں“ گویا ہاں میں بدل گئی اور نون لیگ کو وزارتوں سے متعلقہ اخراجات وغیرہ کی احتسابی ذمہ داری مل گئی۔ یہ الگ بات کہ ”با امر مجبوری“ شہباز شریف اس سے مستعفی ہو گے اور علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہو گے۔ کرونا کی وبائی دنوں میں جب فضائی سفر کو چند ہفتوں کی غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنا پڑا تو واپسی کے کسی آخری جہاز میں تشریف لے آئے۔ ”تم آؤ تو کیا، نہ آؤ تو کیا“

انگریزی کے دوسرے مہینے کی بیس تاریخ کو ایک مشہور انگریزی اخبار، نیویارک ٹائمز، میں ایک تبصرہ شائع کیا گیا تھا جس کے راوی طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی بتائے گئے تھے۔ عنوان اس مضمون کا یہ تھا ”ہم طالبان کیا چاہتے ہیں۔“ حقانی نے دنیا کو بتایا تھا کہ ہم لوگ امن کے متلاشی ہیں اور امن کے حصول کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اہم بات یہ بیان کی گئی تھی کہ ہم اپنے مخالف امریکہ سے دو دہائیوں سے برسر پیکار ہیں اس لیے سیز فائر کے لیے اعتماد کی شدید کمی ہے۔ تاہم گزرے ہوئے اٹھارہ ماہ ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے اور افغان سر زمین کو غیر ملکی افواج خدا حافظ کہہ دیں۔ اس مضمون میں یہ اشارہ بلکہ اندیشہ موجود تھا کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانی آپس میں کس طرح سیاسی معاملات کو طے کر پائیں گے۔ جس کا سرا اب تک ہاتھ نہیں آ رہا۔

اس مہینے کے آخری دن دونوں فریقین کے درمیان ”امن معاہدہ“ تو ہو گیا مگر آپس کی ریشہ دوانیاں ماضی کی نسبت بدستور جاری رہیں۔ اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا تو کابل کے عین انہی اوقات میں عبداللہ عبداللہ نے بھی خود ساختہ صدر افغان ہونے کا اعلان کر ڈالا۔ یہ یاد رہے کہ موخر الذکر کو امریکہ کی اشیر آباد حاصل رہی یے اور وہ ماضی کے دور حکومت میں ”صدر ثانی“ کے اختیارات کے مالک تھے۔ اب ایسا نقشہ ترتیب نہ دیا جا سکا جس کی وجہ سے وہ خود بزم جاناں سجانے پر مجبور ہو گے۔ گو کہ انتخابات میں ان کو شکست ایک فیصد سے بھی کم ووٹوں سے ہوئی ہے تاہم وہ شکست کو قبول کرنے کو چنداں تیار نہیں۔ دو دن پہلے غنی اور عبداللہ نے آپس میں ”مفاہمت“ کر لی ہے۔ الفاظ کی حد تک تو دونوں صدور جنگ و جدل کی اس سرزمین کو امن کا گہوارہ بنانے کا اعلان تو کر چکے ہیں اور طالبان سے براہ راست مذاکرات بھی تازہ ترین طے شدہ منصوبے کے تحت عبداللہ عبداللہ ہی کریں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستیں بشمول روس اور چین نے پاکستان سے مل کر انٹرا۔ افغان امن کی طرف پیش قدمی پر زور دیا ہے۔ امریکہ جو کہ اس لڑائی میں ایک فریق رہا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ ٹرمپ کا گزشتہ بار انتخابی دوڑ میں امریکی عوام سے فوجی انخلاء کا وعدہ پورا کیا جائے۔

امن معاہدے کے بعد طالبان غیر ملکی افواج پر نشانے باندھنے سے باز آچکے ہیں جبکہ مقامی سرکاری لشکروں پر حملے جاری ہیں۔ معاہدے کی شرائط دونوں فریقین پوری کرنے سے قاطر ہیں، مارچ تک افغان فورسز کی تحویل میں قید پانچ ہزار طالبان نمائندوں کو رہائی ملی اور نہ ہی ایک ہزار سرکاری لوگوں کو طالبان نے رہا کیا۔ اب تک دو طرفہ انسانی ٹریفک کا تبادلہ مٹھی بھر افراد سے زیادہ نہیں۔ اس مصالحتی منصوبے کے سربراہ زلمے خلیل زاد ہیں جنہوں نے چند دن پہلے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اس سے پہلے دہلی کا۔ دہلی نے یوں تو افغانستان میں بے پناہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت سے دور رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد کا دورہ دہلی کوئی معمول کا رسمی دورہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ کابل حکومت آئے روز ریاستی معاملات پر اپنا اثر و نفوذ کھوتی جارہی ہے۔ اس ک ایک جھلک کابل میں واقع ایک زچہ بچہ ہسپتال میں ہونے والی خون ریزی ہے۔ جس میں دو درجن کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان نے اس امن کوشش کے لیے بہت محنت کی ہے، لاکھ قربانیاں دی ہیں۔ جوانوں نے امن کی شمع کو اپنے لہو سے روشن کیا ہے۔ اب وہاں حالات کا پانسا پلٹ رہا ہے۔ کابل حکومت نظام چلانے میں ناکام رہی ہے اور طالبان کو افغان افواج پر حملے کرنے سے بھی روکنے کے لیے کوئی موثر پیش رفت نہیں کی جا سکی۔ یعنی بے رحم موجیں ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔

تازہ ترین زلمے خلیل زاد کا دورہ دہلی اسلام آباد کے لیے شکوک و شبہات سے کم نہیں۔ اس دورے سے پہلے اس امن منصوبے کے لیے دہلی دور رہا ہے۔ اب ایسا کیا ہو گیا جو اسے بھی شریک سفر کرنے کی ٹھان لی گئی۔ اس عالمی باریکی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ امن سے وابستہ کوششوں میں دہلی کا نمبر نچلے درجے پر موجود ہے۔ لائن آف کنٹرول کے نزدیک بسنے والے کشمیریوں سے لے کر وادی کے باشندوں پر گولیاں برسانا اس کا معمول ہے۔

اور عبداللہ عبداللہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں وہ آپس کے اختلافات کو کیسے مٹا پائیں گے جب وہاں ایک منتخب حکومت موجود ہے۔ وہ لوگ اس نوشتہ دیوار کو پڑھنے سے قاصر ہیں کہ آپس کے اختلافات انہیں صدموں سے دوچار کرنے کے لیے نئے انداز سے کمر کس رہے ہیں۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments