آہ! انصار نقوی، ایک گوہر نایاب جو ہم سے بچھڑ گیا


آج زندگی کے چند بڑے سانحات میں اپنے پیاروں کو کھونے کے غم عظیم کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کا لینڈنگ سے چند لمحے قبل ائرپورٹ کے قریب آبادی پہ گر کر تباہ ہو گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد ایک صحافی دوست نے فون کر کے بتایا کہ اس طیارے میں انصار نقوی بھی سوار تھے تو ایک لمحے کے لیے دل دہل گیا اور زبان پہ بے اختیار درود شریف کا ورد شروع ہوگیا اور دل بے کل اللہ رب العزت سے اس کی خیریت اور درازیٔ عمر کی دعائیں کرنے لگا کیونکہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حادثے میں زخمیوں کی بھی کافی تعداد بتائی گئی تھی اور پھر جب پنجاب بینک کے صدر کے سروائیول کی خبر اور پھر فوٹیج دیکھی تو ایک امید سی پیدا ہوگئی کہ انشاءاللہ ہمارا دوست بھائی انصار نقوی بھی موت کو شکست دینے والوں میں شامل ہوگا۔

شام ہو گئی اور پھر شام سے رات متضاد خبروں نے اور حادثے کے متاثرین کی بڑھتی اموات کی تعداد نے جسم میں کپکپی سی طاری کی ہوئی تھی۔ انصار نقوی کا مسکراتا چہرہ نگاہوں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں کے رہا تھا لیکن ایک موہوم سی امید تھی جو ابھی دل کو تسلی دے رہی تھی کہ انشاءاللہ انصار ان خوش نصیب افراد میں شامل ہوگا جنہوں نے موت کو شکست دی ہے۔

ایسے میں حیدرآباد سے ایکسپریس نیوز کے بیورو چیف جنید خانزادہ، روزنامہ ڈان کے بیورو چیف محمد حسین اور جیو نیوز کے بیورو چیف حامد شیخ جو کہ دہائیوں ہمارے مشترکہ پرانے دوست ہیں، وہ کراچی کے لیے نکل گئے تاکہ انصار نقوی کے لواحقین کے کو نہ صرف حوصلہ دے سکیں بلکہ انصار کی زندگی کے حوالے سے خدشات اور بے یقینی کی کیفیت کا قرار بھی ممکن ہو سکے۔

رات گئے ان دوستوں کی حیدرآباد واپسی تک تو یہی بے یقینی اور بے چینی برقرار تھی کیونکہ جائے حادثہ پر ریسکیو آپریشن جاری تھا اور یہ تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی کہ حادثے میں شہادت پا نے والے کتنے افراد تھے اور زندہ بچ جانے خوش نصیب کتنے تھے۔ مگر صبح جب ریسکیو آپریشن مکمل ہوا اور تمام لاشیں ہسپتالوں تک پہنچا دی گئیں تو یہ یقین ہوگیا کہ انصار نقوی اب ہم میں نہیں رہا، انا للٰہ وانا الیہ راجعون۔

انصار نقوی سے پیدائشی تعلق تھا۔ وہ اور میں حیدرآباد کے ایک ہی محلے گڈس ناکہ میں پیدا ہوئے، ایک ہی اسکول ماڈل اسکول اولڈ کیمپس ایک ہی کلاس میں پڑھے اور گڈس ناکہ کی گلیوں سڑکوں پہ کھیل کر جوان ہوئے۔ اسکول سے واپسی پر شام کو کرکٹ کے سیزن میں کرکٹ کھیلنا اور ہاکی کے سیزن میں ہاکی اور فٹبال کے سیزن میں فٹبال کھیلنا ہمارا جنون ہوتا تھا۔

ماڈل اسکول کی کرکٹ ٹیم میں بھی ساتھ ہی کھیلے پھر انصار گریجویشن کے بعد صحافت سے وابستہ ہوگیا اور میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت سے، سندھی مہاجر لسانی فسادات کے دوران 1990 کے وسط میں گڈس ناکہ چھوڑ کر قاسم آباد ایک نو آباد سندھی آبادی میں شفٹ ہوا تو انصار نقوی نے دوران ہجرت میرا اور میری فیملی کا بھرپور ساتھ نبھایا۔

میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت سے بھی وابستہ تھا اور انصار پہلے حیدرآباد سے نکلنے والے اردو روزنامہ سفیر کے بعد انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ ہوگیا۔ اس پورے عرصے کے دوران ہم کبھی ایک دوسرے سے دور نہ ہوئے وہی چاہت ایک دوسرے کے لیے دل میں عزت اور ملنے اور ساتھ رہنے کا جذبہ کبھی معدوم نہ پڑا۔ بحیثیت ایک سیاسی کارکن میں ہر دوسرے روز پریس رلیز بناکر انصار نقوی کے دفتر میں بیٹھ کر اپنی نیوز کو بہتر جگہ پہ لگوانے کی تگ و دو کرتا اور ہم دیر تک مختلف موضوعات پہ گفتگو کرتے خوش گپیاں کرتے۔

میں عادتاً زبان کا کھلا اور منہ پھٹ واقع ہوا ہوں جبکہ انصار نقوی فطرتاً خاموش طبع، سنجیدہ اور مستقل مزاج اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے مخلص بے لوث شخص تھا۔ میری باتوں پہ ہنستا مجھے مزید بھڑکانے کے لیے پیپلز پارٹی پہ جان بوجھ کر تنقید کر کے میری صلواتیں سن کر بے تحاشا ہنسا کرتا اور پھر مجھے گلے لگا کر کہتا ”یار جب تک تیری دو چار چٹپٹی گالیاں نہ سن لوں مجھے مزا نہیں آتا“ ۔

انصار نقوی ان کی اہلیہ رعنا انصار جو کہ متحدہ قومی موومنٹ کی رکن سندھ اسمبلی بھی رہی ہیں۔ کے ساتھ میرا رشتہ ایسے ہی تھا۔ جیسے سگے بھائی اور بھابھی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارے دوست بھی تقریباً مشترکہ تھے۔ اسکول کے ساتھی اور پھر محلے کے دوست آج بھی ایک فیملی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انصار نقوی کے حیدرآباد آنے اور اس کی جانب سے دوستوں سے ملاقات کی دعوتوں کی اطلاع اکثر مجھے ہمارا ایک مشترکہ بچپن کا دوست ارشد نوید دیتا تھا۔

کچھ دن پہلے بھی اس نے مجھے بتایا کہ انصار عید پر حیدرآباد آئے گا تو ہم اکٹھے اس سے ملنے چلیں گے جب کہ میں نے تین چار روز قبل جب اس سے فون پہ بات کی تو وہ حیدرآباد آنے کے لیے خاصہ بے چین تھا کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ لاک ڈاؤن کے باعث وہ کافی عرصے سے حیدرآباد نہیں آیا تھا۔ کل بھی جہاز میں سیٹ کنفرم ہونے سے قبل وہ اپنی گاڑی میں براستہ موٹر وے حیدرآباد کے سفر کا قصد کر چکا تھا۔ آخری لمحات میں اس کی سیٹ لاہور سے کراچی آنے والی بدنصیب فلائیٹ پی کے 8303 میں کنفرم ہوئی تو کسے معلوم تھا کہ رب کی جانب واپسی کا اس کا سفر شروع ہو چکا ہے۔

اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی چیز اللہ کے پاس واپس جانے کو بے قرار ہے۔ آج جب انصار کو یاد کرتے میری آنکھوں سے مینا برس رہا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کی صحافت کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی حلقۂ یاراں بھی ایک انتہائی خوبصورت، با اخلاق، پڑھے لکھے، خوش مزاج اور مخلص ترین دوست سے محروم ہوگیا۔ انصار نقوی کی جدائی کے اس غم نے آج مجھے اسی طرح جھنجھوڑ کر بری طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جیسے 27 دسمبر 2007 کی منحوس شام بی بی شہید کی شہادت کے سانحے نے کر دیا تھا۔

آج انصار نقوی کے لواحقین کے ساتھ ساتھ اس کے پیشہ ورانہ زندگی کے دوستوں ساتھیوں سمیت مجھ جیسے پیدائشی دوست اپنے پیارے کے لیے اشکبار ہیں اور اللہ رب العظیم سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمارے پیارے دوست انصار نقوی اور اس سانحے میں شہادت کے رتبے پہ فائز ہونے والے تمام افراد کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں انہیں باغ ارم عطا فرمائے آمین۔

ڈھونڈو گے۔ اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں۔ ہم۔
تعبیر ہے جس کی حسرت غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں۔ ہم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments