کراچی حادثے میں بچ جانے والے دو خوش نصیب کیا بتاتے ہیں؟


کراچی

دنیا بھر میں طیاروں کے حادثہ میں کسی کے بچ جانے کی مثالیں بہت ہی کم موجود ہیں۔ ان حادثات میں بچ جانے والوں کو انتہائی خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہی دو خوش قسمت محمد زبیر اور پنجاب بینک کے صدر ظفر محسود ہیں۔

محمد زبیر پیشے کے لحاظ سے انجیئر ہیں۔ وہ تو اتنے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ایک روز ہسپتال میں رہنے کے بعد ان کو اگلے روز 23 مئی کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ محمد زبیر کو معمولی چوٹوں کے علاوہ کوئی بڑی چوٹ نہیں لگی جبکہ ان کا جسم کچھ مقامات پر جلا ہے مگر اس میں بھی کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔

ظفر محسود زخمی ہوئے ہیں۔ ان کو بازو پر ایک سے زائد فریکچر آئے ہیں جس پر ان کے 23 مئی کو آپریشن ہوئے ہیں۔ ابھی ایک اور آپریشن بھی ہونا باقی ہے۔ طفر محسود کے خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی حالت بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی طیارہ حادثہ: کیا ایئرپورٹ سے متصل آبادی حادثے کی وجہ بنی؟

’بہو کی لاش سلامت تھی صرف سر پر چوٹ لگی تھی‘

وہ جنھیں موت کھینچ کر حادثے والے طیارے میں لے گئی

’جن لاشوں کو پہلے نکالا انھوں نے آکسیجن ماسک پہنے ہوئے تھے‘

محمد زبیر کی کہانی

محمد زبیر کو لاہور سے کراچی کی فلائٹ بہت اچھے سے یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم لوگ دوپہر ایک بجے لاہور سے روانہ ہوئے۔ میں خوش تھا کہ کورونا اور لاک ڈاون کی صورتحال میں بھی عید گھر پر کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ جہاز کے سب ہی مسافر خوش تھے۔ کئی مسافر اپنے گھر والوں کو بتا رہے تھے کہ بس تھوڑی دیر میں کراچی پہچنے والے ہیں۔

کئی ایک تو فون پر اپنے پیاروں سے عید منانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا کچھ بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ غلط ہوا ہو۔ کراچی پہنچ کر کپتان نے لیڈنگ کا اعلان کیا۔ مگر وہ لیڈنگ نہ ہوسکی۔

کراچی

اس کے بعد جہاز دوبارہ فضا میں بلند ہوا۔ اس وقت کچھ جھٹکے لگے، جہاز دس منٹ تک فضا ہی میں رہا۔ اس دوران ہی جہاز کے اندر بھی خوف پھیل گیا تھا۔ لوگ اونچی آواز سے کلمے پڑھنے لگ گئے تھے، دعائیں کررہے تھے، معافیاں مانگ رہے تھے۔

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ میں بھی دعائیں کررہا تھا اس دوران دوبارہ پائیلٹ کی صدا گونجی۔ وہ اعلان کر رہے تھے کہ میں دوبارہ لیڈنگ کی کوشش کررہا ہوں جس کے بعد وہ دعاوں کی آوازیں زیادہ تیز ہوگئی تھیں۔ اس کے فوراً بعد ہی ایسے لگا کہ جہاز بہت تیزی سے زمین کی طرف جارہا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔ جب ہوش آیا تو اس وقت میں سیٹ بیلٹ کے ساتھ جہاز ہی میں تھا۔ مجھے زخمیوں کے کراہنے اور چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھی۔ ہر طرف دھواں اور آگ تھی۔ چند لمحے تک تو سمجھ میں نہیں آیا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔ مگر چند ہی لمحوں میں میرے حواس نے پوری طرح کام کرنا شروع ک ردیا۔ جہاز کے اندر میں کسی بھی مسافر کو نہیں دیکھ سکتا تھا صرف دھواں ہی نظر آرہا تھا۔

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ اس دوران مجھے ایک روشنی نظر آئی۔ میں نے اپنا سیٹ بیلٹ اتارا۔ روشنی مجھ سے کوئی دس فٹ کی دوری پر تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اپنی جان بچانے کے لیے مجھے اس روشنی تک پہچنا ہوگا۔ وہاں تک پہچنے کا طریقہ صرف چھلانگ ہی تھا اور میرے پاس وقت بہت کم تھا۔ آگ اور دھواں بڑھ رہا تھا۔ اپنی پوری ہمت کو یکجا کیا اور پورا زور لگا کر چھلانگ لگا کر اس روشنی تک پہنچ گیا۔

کراچی

وہاں پر پہنچ کر میں تقریباً ہوش کھو بیٹھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ مجھے فی الفور کسی ایمبولینس میں ڈالا گیا تھا اور پھر جب میں ہسپتال پہنچا تو جسم میں معمولی سی تکلیف کے علاوہ مجھے کوئی اور تکلیف نہیں تھی۔ اب میں عید اپنے گھر میں کروں گا۔ مگر رہ رہ کر مجھے ان اپنے جہاز کے مسافروں کی یاد آرہی ہے جو اس حادثے میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

ظفر محسود کے ساتھ کیا ہوا؟

ظفر محسود بینک آف پنجاب کے صدر ہیں۔ حادثے کے ایک روز بعد ان کے بازو کا آپریشن ہوا۔ ان کے بھائی علی محسود نے بتایا کہ انھیں ڈاکٹروں نے آئندہ چند دن تک بات کرنے سے منع کیا ہے اور ساتھ میں تمام لواحقیقن کو ہدایت کی ہے کہ ان سے اس حادثہ سے متعلق کوئی بھی بات نہ کی جائے کہ اس سے مریض پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

علی محسود کا کہنا تھا کہ انھیں ان کے بھائی نے حادثہ کے متعلق بتایا ہے۔

علی محسود کا کہنا تھا کہ جب جہاز گرا تو اس وقت ظفر محسود کو صرف اتنا یاد ہے کہ انھیں کسی چیز کا دھکا لگا اور وہ جہاز سے باہر دور جا گرے۔ غالباً کسی کار کی چھت پر جا گرے تھے۔ پھر وہ بے ہوش ہوگئے لیکن وہاں پر لوگوں نے انھیں اٹھایا اور فی الفور امداد کی اور ہسپتال پہنچایا گیا۔

علی محسود کا کہنا تھا کہ اصل ہیرؤ وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر طیارے حادثے والے مقام پر قریب پہنچے، جنھوں نے وقت ضائع کیے بغیر ظفر محسود کی مدد کی اور خطرے کے مقام سے دور لے گے تھے۔ ہم ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp