افغان طالبان کا عید پر حکومت کے ساتھ تین روزہ جنگ بندی کا اعلان


طالبان

افغانستان میں طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ تین دنوں کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے جو اتوار کو مسلمانوں کے تہوار عید الفطر کے موقع پر نافذ العمل ہو گا۔

یہ جنگ بندی حالیہ ہفتوں میں سخت گیر اسلام پسند گروہ کی جانب سے سرکاری فوجیوں کے خلاف حملوں میں اضافے کے بعد سامنے آئی ہے۔

صدر اشرف غنی نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ان افغان افواج جنگ بندی کی شرائط کا احترام کریں گی۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں ’مجاہدین عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے‘

انڈیا اور افغانستان کے تعلقات میں طالبان کے کردار کے حوالے سے ایک نیا موڑ؟

کیا امریکہ افغانستان میں طالبان کو دوبارہ واپس لا رہا ہے؟

تین روزہ جنگ بندی کے اعلان نے ملک میں جاری تشدد کی لہر میں طویل مدتی کمی کے لیے امید کا راستہ کھول دیا ہے۔

تاہم اس سے قبل سنہ 2018 میں اسی تہوار کے موقع پر کیے جانے والے جنگ بندی معاہدے میں توسیع نہیں کی گئی تھی۔

https://twitter.com/ashrafghani/status/1264272518166298627?s=20

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سنیچر کے روز کہا: ‘کہیں بھی دشمن کے خلاف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کریں۔ اگر دشمن کی جانب سے آپ کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اپنا دفاع کریں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا اعلان مکمل طور پر صرف عید الفطر کے لیے کیا گیا ہے جو کہ رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام کا اعلان بھی ہے۔

اس کے فوراً بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ٹوئٹر پر لکھا: ‘میں جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں نے (فوج) کو ہدایت کی ہے کہ وہ تین دنوں تک جاری رہنے والی جنگ بندی کی تعمیل کریں اور صرف حملے کی صورت میں دفاع کیا جائے۔‘

کیا مختصر دورانیے کی جنگ بندی کچھ امید پیدا کرتی ہے؟


سکندر کرمانی، بی بی سی نمائندہ برائے افغانستان

جنگ کی ابتدا کے بعد سے یہ صرف تیسرا موقع ہے جب طالبان نے عارضی طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔

پہلی بار سنہ 2018 میں عید کے موقع پر ہی یہ اعلان ہوا تھا اور یہ امن عمل کو بہتر بنانے کا ایک اہم موقع تھا۔

طالبان جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے گلے مل کر ایک ساتھ سیلفیاں لی تھیں۔ اس بار ایسا تو نہیں ہو گا کیونکہ طالبان نے اپنے لوگوں کو سرکاری خطے میں داخل ہونے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔

رواں سال کے اوائل میں اس گروہ نے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے ایک مقررہ وقت طے کیا جا سکے۔ اس کے بعد اگرچہ طالبان نے بین الاقوامی فوجیوں کے خلاف حملے بند کر رکھے ہیں تاہم افغان سکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز مارچ میں ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے میں تنازعے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی اور تشدد میں اضافہ نظر آیا ہے۔

تشدد میں اس مختصر وقفے سے ان مذاکرات کو آخر شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور افغان شہریوں میں ایک مبہم سہی، امید جگا سکتی ہے کہ اس تنازع کا خاتمہ بالآخر ممکن ہے۔

طالبان

بڑی تصویر کیا ہے؟

فروری میں طالبان اور امریکہ کے مابین فوجیوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کے بعد افغانوں اور بین الاقوامی مبصرین نے دونوں فریقوں کے مابین تشدد میں کمی کی توقع کی تھی۔

لیکن مزید بات چیت ایک قیدی کے تبادلے پر تعطل کا شکار ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں حالیہ ہفتوں میں سرکاری افواج پر حملے بڑھ گئے ہیں۔

رواں ماہ کے شروع میں دارالحکومت کابل میں زچگی کے وارڈ پر حملے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ اگرچہ طالبان نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا لیکن اس نے صدر غنی کو طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروہوں کے خلاف بھی جارحانہ کاروائیوں کو دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب دی۔

انھوں نے عسکریت پسندوں پر تشدد میں کمی کے لیے بار بار کی جانے والی اپیل کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا۔

گذشتہ ماہ طالبان نے رمضان المبارک کے پورے مہینے کے لیے افغانستان بھر میں جنگ بندی کی حکومتی کال کو مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ‘عقلی نہیں’ ہے اور انھوں نے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ کر دیا۔

رواں ماہ کے شروع میں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبد اللہ نے اقتدار میں اشتراک کے معاہدے پر دستخط کیے جس سے کئی مہینوں سے جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ ہوا۔

طالبان

امریکہ-طالبان معاہدے میں کیا ہے؟

امریکہ اور طالبان کے ذریعہ طے پانے والے اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں امن قائم کرنا ہے جس کے تحت اس 18 سالہ جنگ کا اختتام ہو سکے گا جو امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج نے اسلام پسند گروپ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے شروع کی تھی۔

اس معاہدے کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا مئی کے اخیر تک پانچ ہزار امریکی فوجیوں کے افغانستان سے نکلنے اور مستقبل قریب میں طالبان کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے کی بات کہی ہے۔

طالبان کی جانب سے اس معاہدے کی حمایت کی صورت میں امریکی اور نیٹو کے فوجی 14 مہینوں کے اندر ملک سے انخلا کریں گے۔

امریکہ نے طالبان کے خلاف پابندیاں ختم کرنے اور اس گروپ کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ علیحدہ پابندیاں ختم کرنے کے لیے بھی کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس کے بدلے میں طالبان نے کہا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں القاعدہ یا کسی اور شدت پسند گروہ کی سرگرمی کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان

لیکن امریکی حکام نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے پہلے قدم کے طور پر قیدی کے تبادلے پر بھی رضامندی کا اظہار کیا ہے جو ابھی تک تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔ افغان حکومت کو ان مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

دونوں فریقوں نے اپریل کے اوائل میں تاریخ ساز طور پر پہلی بار آمنے سامنے بات چیت کی تھی، لیکن طالبان نے اس مذاکرات سے واک آؤٹ کیا۔

افغان حکومت کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے مطالبے بلاجواز ہیں۔ انتظامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ طالبان ایسے 15 کمانڈروں کی رہائی کے خواہاں ہیں جو بڑے حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

لیکن طالبان کے ترجمان نے حکومت پر ‘کسی نہ کسی بہانے’ سے رہائی میں تاخیر کا الزام عائد کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp