وبا کے دنوں کی عید


عید ایک خوف کے عالم میں گزرے گی۔ یہ تو معلوم تھا لاک ڈاؤن کے عملاً خاتمے کے بعد کورونا کی وبا نے جو کروٹ لی ہے، تہوار کے دن کے جو چند معمولات کے بارے میں منصوبہ بندی کی تھی وہ کھٹائی میں پڑتے دکھ رہے تھے۔ لیکن پی آئی اے کے طیارے کے حادثے نے سوگ کا اضافہ بھی کر دیا ہے بلکہ اس سوگ نے تو کورونا کی وبا کا خوف بھی بھلا دیا ہے۔ وقت کی بات ہے ایک سانحے کے دکھ کو کم کر نے کے لئے ایک نئے حادثے کا سہارا ہوا ہے۔

شاعر اس پر بہتر مضمون باندھ سکتا ہے۔ لیکن طیارے کے سانحے پر قابل اجمیری کا رسوائے زمانہ شعر اگر برمحل نہیں بھی ہے تو کچھ مناسبت ضرور رکھتا ہے ؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا یہ پاکستان کا مقدر ہی کیوں ہے کہ ہر چند سال بعد ایک خوفناک سانحہ گزرتا ہے، کبھی قومی اور کبھی نجی فضائی کمپنی کا طیارہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر حادثے کے بعد تحقیقات کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ غفلت کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا اور لواحقین کے لئے مالی مداوے کے اعلانات ہوتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں چند روز شوروغوغا رہتا ہے اور اس کے بعد آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، نہ مکمل انکوائری رپورٹ منظر عام پر آتی ہے اور نہ ہی غفلت کے مرتکبین کی نشاندہی ہو پاتی ہے۔ یہ ایک اور حادثے کی پرورش کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان کا پورے کا پورا نظام عدل و انصاف، سزا و جزا کے بنیادی اصولوں سے ماورا ہے۔ طاقت اصول ہے اور طاقت کو چیلنج کرنا جرم۔ سوال اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیر یہ تو الگ سے ایک مسئلہ ہے پاکستان میں فضائی حادثوں پر تحقیقات طویل اور ناقص کیوں ہوتی ہیں؟

جب کراچی میں حادثے کے بعد پی پی آئی کے چیف آپریٹنگ افسر ائر مارشل ارشد ملک سے یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے زور دے کر کہا کہ شفاف تحقیقات ہوں گی اور تحقیقات کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس حادثے پر فضول تبصروں سے گریز کر کے لواحقین کی دل جوئی کرنا چاہیے۔ اب ذرا پچھلے حادثے کے بعد کے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے اعلیٰ اہلکاروں کے بیانات نکال لیں اور ان کے اور ائر مارشل صاحب کے بیان میں فرق نکال کر دکھا دیں۔

یہ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ پی آئی اے اسلام آباد بیجنگ ٹوکیو فلائٹ لینے کا مطلب ہوتا تھا کہ واپسی کی فلائٹ کے لئے اپنے کمبل ساتھ لے کر جائیں کیونکہ چودہ سے سولہ گھنٹے لیٹ ہونا معمول کی بات تھی اب یہ فلائٹ چلے تو کچھ عرصہ بعد پھر اسی روٹین پر آ جاتی ہے۔ اس پرواز سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں بیجنگ سے اس فلائٹ کا وقت شام پانچ بجے ہوتا تھا یہ مسافروں کو ٹوکیو چھوڑ کر آتی تھی۔ عموماً یہ فلائٹ دس بجے کے بعد آتی اور روانگی میں مزید تین چار گھنٹے صرف ہو جاتے۔

ایک بار سے زیادہ مرتبہ یہ بھی ہوا کہ فلائٹ بیس گھنٹے بھی لیٹ ہوئی لیکن قومی ائر لائن نے اپنے مسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرانے کی زحمت نہ کی۔ بیجنگ کیپٹل ائر پورٹ رات کو گیارہ بجے بند ہو جاتا ہے اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گیارہ بجے کے بعد پورا ائر پورٹ پی آئی اے مسافروں کے قبضے میں ہوتا تھا تمام ریسٹورنٹ کیفے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ پی آئی اے کا عملہ مسافروں کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے شام کو ہی غائب ہو جاتا تھا۔

سوچ سکتے ہیں کہ اگر آپ ضعیف ہیں یا فیملی اور بچے آپ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو آپ پر ٹھنڈے سوراخوں والے ہوا دار بنچوں پر رات گزارتے ہوئے کیا بیتی ہو گی۔ اسی پرواز کا ایک واقعہ ہے سہ پہر تین بجے بیجنگ ائر پورٹ پہنچے کیونکہ پی آئی اے اپنے بورڈنگ کا ؤنٹر وقت پر کھولنے اور بند کرنے کی پابند ہے ہم ذہنی طور پر چار پانچ گھنٹے کی تاخیر کے لئے تیار تھے لیکن ٹوکیو میں نجانے پی آئی اے کے جہاز پر کیا بیتی کہ سات گھنٹے لیٹ آیا۔

اس پرواز میں فیصل آباد سے ایک تاجر بھی تھے ان کا چند ایک بار چین ملائشیا وغیرہ آنا جانا ہوا تھا۔ ابھی پی آئی اے سے ڈسے نہیں گئے تھے اور جذبہ حب الوطنی بھی خیر سے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ جب جہاز آنے میں تاخیر ہوئی تو مسافر پریشان ہوئے لیکن یہ حاجی صاحب سب کو دلاسا دیتے کہ کوئی بات نہیں دنیا بھر کے جہاز لیٹ ہوتے ہیں یہ معمول کی بات ہے حالانکہ یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔ پرواز آئی مسافر سوار ہوئے جہاز کے ٹیک کرنے کا اعلان ہوا۔

لیکن جہاز نہ چلا تکنیکی خرابی کا بتایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ پرواز میں مزید چند گھنٹے تاخیر متوقع ہے۔ اس لئے کھانا پہلے دیا جا رہا ہے۔ حاجی صاحب پھر مسافروں کو تسلی دینا شروع ہوئے اور پی آئی اے کی دو چھٹانک چاول کی شان میں وہ قلابے ملا ئے کہ گھنٹہ گھر بھی پناہ مانگے۔ کھانے کے بعد مسافروں کو جہاز سے اتار دیا گیا کہ تکنیکی خرابی دور ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ حاجی صاحب خود کو پی آئی اے کا منیجر سمجھ رہے تھے اور مسافروں کو تسلی دینا اور اپنے چٹکلوں سے محظوظ کرنا اپنا فرض سمجھ رہے تھے۔

مسافر تنگ ہونا بھی شروع ہوئے لیکن برداشت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور ائر پورٹ پر حاجی صاحب کے علاوہ کوئی تفریح بھی میسر نہ تھی۔ خدا خدا کر کے پرواز چلی پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے بعد پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ پتہ چلا کہ اسلام آباد کا موسم خراب ہے کچھ وقت فضا میں رہنا پڑے گا۔ مسافر جاگ چکے تھے۔ حاجی صاحب بھی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے، برسات کا موسم تھا اور جلد بہتری کے امکانات نہیں تھے۔ پرواز کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔

صبح دس بجے لاہور پہنچے تو ہمارے فضائی میزبانوں نے کوشش کی کہ تمام مسافر یہیں اتر جائیں اور بذریعہ سڑک اسلام آباد چلے جائیں۔ مسافروں کا مطالبہ تھا کہ جہاز اسلام آباد لے کر چلیں۔ اب حاجی صاحب خاموشی سے سب منظر دیکھ رہے تھے۔ مسافروں کو زبردستی اتارنے کے لئے کولنگ سسٹم بند کر دیا گیا۔ اس پر ایک الگ سے توتکار ہوئی۔ حاجی صاحب کا جذبہ حب الوطنی غائب ہو چکا تھا اور ان کی آنکھوں میں قہر نازل ہونا شروع ہو گیا۔

جب یہ پتہ چلا کہ پائلٹ کا تو گھر لاہور میں ہے اور وہ اپنے گھر روانہ ہو گیا ہے اور یہ جہاز اس وقت اسلام آباد جائے گا جب نیا پائلٹ آئے گا تو حاجی صاحب پھٹ پڑے پی آئی اے اور اس کی مہمان نوازی کی شان میں گھنٹہ گھر کی قصیدہ گوئی شروع کی۔ ذخیرہ الفاظ ختم ہوا تو بھاٹی گیٹ کے محاورے کا بھی استعمال کیا منہ سے جھاگ بہنے لگی۔ اتنے میں نظر روتی ہوئی فضائی میزبانوں پر پڑی تو جھاگ کی طرح اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے بولے اج تو بعد اساں چین ای نہیں جانا ”آج کے بعد میں چین ہی نہیں جاؤں گا“ ۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments