اور پھر جمہوریت کفر نہ رہی۔۔۔


ہمارے دیس کا ہر شہر اپنی مثال آپ ہے۔ مگر جس جگہ آپ کا جنم ہوتا ہے بچپن اور جوانی گذرتی ہے وہ جگہ آپ چاہتے ہوئے بھی بھول نہیں سکتے اس جگہ سے پیار ایک فطری عمل ہے۔ ساندل بار کی اس بستی کا تین بار نام بدلنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہمارا یہ وسیب جہاں ماں باپ سے زیادہ بستی کے لوگ ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے۔ بزرگ برا بھلا سمجھایا کرتے تھے۔ ہماری اس بستی میں آج بھی ممتا کی آغوش جیسا نرم گرم احساس ہے جہاں سب سے پہلا سبق انسانیت ہے۔ یہاں کے رہنے والے کسی اجنبی یا بھٹکے مسافر کی مدد اور آؤ بھگت ایسے کرتے ہیں جیسے برسوں کی پہچان ہو۔ جب سارا ملک مذہبی انتہا پسندی کی یلغار میں تھا تب بھی یہاں مذہبی انتہا پسندوں نے زور نہیں پکڑا کہ یہاں کے رہنے والے دوست دشمن سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اصلاح کے نام پر شر پھیلانے والوں کو ہمیشہ بے نقاب کیا ہے۔

ہماری یہ بستی علامہ تاج الدین خالقی فاضل دہلی جیسے روشن خیال کی فکر اور محبت سے لبریز ہے۔ یہ بستی مولانا حکیم محمد حنیف امرتسری جیسے صاحب علم کی بصیرت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ یہ مٹی رواداری کے مظہر چوہدری شیر محمد مانگٹ جیسے نابغہ روزگار کا مسکن ہے۔ یہ بستی اور بستی کا میلاد چوک جس میں ہونے والے ہر مکتبہ فکر کے پراگرامز کی یاد آج بھی یاد کرنے والوں کو شفا کا کام دیتی ہے۔ یادیں اپنوں سے ملواتی ہیں بعینہ ہی جیسے حقہ دھوئیں سے ملواتا ہے. ایسے ہی یادیں ماضی سے ملواتی ہیں۔ ہم ماضی کو زندہ رکھ سکتے ہیں لیکن ماضی ہمیں زندہ نہیں رکھ سکتا مگر ماضی سے اخذ کردہ شعور سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ آئیے چند ایک یادیں تھوڑا عرصہ پہلے چناؤ  کے دنوں کی ہیں، راقم الحروف کی اس بستی سے ہیں۔

چند دن گزرے ہم ایک گاﺅں میں شہید کے گھر اس کی شہادت کی خبر لے کر گئے۔ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک گھر تک پہنچے ہم میں سے ایک ساتھی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے جو شخص آیا اس نے ہمیں دیکھتے ہی واپسی گھر کا رخ کیا اور ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ کمرہ چھوٹا تھا اس میں زیادہ لوگ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ ہم کھڑے رہے جب گھر والوں کو بتایا کہ آپ کا بیٹا شہادت کے اعلی درجے پر فائز ہو گیا ہے اللہ واحدہ لا شریک نے اپنے پاس بلا لیا ہے وہ کئی ہندو سورماﺅں کو جہنم واصل کر کے خود جنت کا وارث ہو گیا ہے۔

ساتھیو۔۔۔ یہ سننا تھا کہ شہید کا باپ خوشی سے جھوم اٹھا اور گاﺅں کے بہت سارے لوگوں کو اکھٹا کر لیا۔ اندر جا کربتایا تو شہید کی والدہ نے کہا میرے شہید کی خبر لے کر آئے ہیں۔ آپ خالی ہاتھ کیوں آئے ہیں۔ جلدی سے مٹھائی کا انتظام کیا جائے۔ اس ماں نے اپنے ہاتھ سے ہمیں مٹھائی کھلائی اور کہا گاﺅں میں میرا سر فخر سے اونچا ہو گیا ہے۔ میرے بیٹے نے آج ہندو کافروں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے معززساتھیو۔۔۔۔ یہ جہاد کی برکت ہے اسی برکت سے معرکے ہوتے ہیں

قوموں کی تاریخ لکھی جاتی ہے اور وہی قومیں سر اٹھا کر جیتی ہیں جو جہاد کرتی ہیں۔ اس جہاد سے روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا۔ اس جہاد سے امریکا ذلیل و رسوا ہو گا۔ اس جہاد سے اسرائیل دنیا سے مٹے گا اور اس جہاد سے انڈیا بکھرتے دیکھا جائے گا۔ الحمداللہ یہ جہاد ہے جس سے کفار کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ ہاں یہ جہاد ہی ہے جس کی بدولت امیر محترم جناب حافظ سعید رہا ہو گئے ہیں اور حکمران دنیا بھر میں رسوا۔ ہم خدمت خلق کرنے آئے ہیں ہمارا اس شہر سے رشتہ جہاد ہے۔ آج آپ کے سامنے یہی جماعت ہے جو ہمیں حقیقی جمہوریت تک لے کے جائے گی (ملی مسلم لیگ)

یہ باتیں جمعہ کے اجتماع میں کی جا رہی ہیں۔ اور خطاب کرنے والے کا نام امیر محترم کمانڈر نصر جاوید ہے جو جماعت کے مرکزی رہنما ہیں۔ خطبہ جمعہ کے اس پروگرام کے لئے اچھی خاصی تشہیر کی گئی تھی۔ سب سے پہلے جگہ جگہ دیواروں پہ اشتہارات چسپاں کئے گئے تھے۔ پھر بڑے بڑے بینرز شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر لگائے گئے تھے۔ اس کے بعد یہودیوں کی ایجاد کردہ سوشل میڈیا پہ دھڑا دھڑ پیغام دیئے گئے تھے۔ جمعہ کے اس اجتماع میں شہر اور اس کے مضافات سے اچھی خاصی تعداد نہر والے پارک میں موجود تھی۔ یہ علاقہ جسے شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین کہا جاتا ہے ننکانہ صاحب اور شیخوپورہ اضلاع کے سنگم میں واقع ہے۔ آج کے اس جہادی پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ ڈائس پر جو بڑا سا بینر آویزاں کیا گیا تھا وہ بجائے جہادی پیغام کے ملی مسلم لیگ کے نام سے تھا۔ شہیدوں اور غازیوں کی یہ سرزمین جہاں آج نصر جاوید خطاب کر رہے تھے یہاں قاضی حسین احمد بھی اپنا آخری خطاب کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ حمید گل کو جنہیں راقم ا لحروف پیار سے مولوی حمید گل کہتا ہے یہی گلہ رہتا کہ ان کی تقریر سننے کے لئے کبھی بھی ساٹھ سے زیادہ لوگ نہیں ہوتے ہیں۔

امیر محترم جناب حافظ سعید تو بار بار جبکہ حزب ا لمجاہدین کے امیر سید صلاح الدین اور میجر مست گل بھی اپنی خطابت کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ آج اسی شہر میں نصر جاوید بھی جہاد سے پوری دنیا کو فتح کرنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ راقم الحروف کی محترم نصر جاوید سے اس وقت کی یاد اللہ ہے جب وہ معسکر طیبہ اسد آباد صوبہ کنڑ افغانستان کے امیر تھے۔ بارویں جماعت کے طالبعلم اور ایک دن بہن اور والدہ کو روتا چھوڑ کر پہاڑوں کے اس پار افغانستان میں تھے جہاں پاکستان بلکہ کئی عرب ممالک کے جہادی موجود تھے۔ لشکر طیبہ کے اس جہادی مرکز کے امیر نصر جاوید تھے اس وقت نام مرکز الادعوة الارشاد پاکستان اور مرکزی دفتر چیمبرلین روڈ لاہور تھا۔ جماعت الدعوة تو بہت بعد کی اختراع ہے۔ راقم الحروف حافظ محمد یعقوب کی معیت میں یسین رحمانی کے ساتھ جہاد کے اس فریضے کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلا کیونکہ گھر کا ماحول ہی ایسا تھا سب سے زیادہ کانوں میں سنی جانے والی بات دعوت جہاد اور تبلیغ تھا۔

معسکر طیبہ جہاں اکیس روز سے زائد کی جہادی تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے بعد ایک دورہ خاصہ کروایا جاتا تھا۔ جس کا دورانیہ تین سے چار ماہ کا ہوتا تھا۔ وہ گوریلا ٹریننگ کا کورس تھا۔ اس معسکر کو اقصیٰ کہا جاتا اور کمانڈر محترم شبیر شاہ تھے۔ دورہ عامہ میں ہر طرح کے اسلحے کو کھولنے بند کرنے اور چلانے کی تربیت دی جاتی اور جس بات پہ زور دیا جاتا وہ یہ کہ جہاد کو جاری رکھا جائے۔ اور ساتھ ساتھ جہاد کی فضیلت اور جاری رکھنے کا درس دیا جاتا۔

ہمارا معسکر میں دوسرا دن تھا کہ رات گوجرانوالہ سے آئے جہادی مولوی نے ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تو بچے کی حالت بگڑ گئی۔ فجر کی نماز کے بعد دونوں کو زنجیر سے باندھ کر پیش کیا گیا تو امیر محترم کی جانب سے انہیں درے مارنے کی سزا کا حکم صادر کیا گیا اور خدا سے توبہ کی گئی کہ معسکر پہ اس کا عذاب نازل نہیں ہوا۔ یاد رہے معسکر طیبہ وہی جگہ ہے جہاں شیخ جمیل الرحمن سلفی کمانڈر کو حزب المجاہدین کے کمانڈر حکمت یا ر نے سوئے عدم روانہ کر دیا تھا کہ ان کا آپس میں مسلکی اختلاف تھا۔

مغرب کی نماز کے بعد روزانہ کی بنیاد پر ایک تفصیلی نشست میں یہ حلف لیا جاتا کہ گھر جا کے سب سے پہلا کام کیا جائے گا وہ گھر میں موجود ٹیلی ویژن کو توڑنا ہو گا۔ یہ کفر ہے تصویر نہیں بنوائی جائے گی یہ بھی حرام ہے۔ جمہوری نظام کفر ہے اس کے متعلق بھی اپنے گھر اور حلقہ احباب میں تبلیغ کی جائے گی۔ ایک عرصہ تک مرکز کے ماہنامہ مجلة الدعوة میں ٹیلی ویژن توڑنے کی تصویریں چھاپی جاتی تھیں۔

غریب کی بیماری کی طرح بڑھتی ہوئی آبادی والے ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں تعمیری کام نہ ہونے کے برابر جبکہ تخریبی کام بہت زیادہ ہوا ہے۔ مرکز الدعوة و لاارشاد سے جماعت الادعوة کا دورانیہ تین عشروں پر محیط ہے۔ آئیے اس ادوار کے اوراق الٹ پلٹ کے دیکھتے ہیں۔ جہاد۔۔۔ جماعت الدعوة کی بنیاد ہے۔ جماعت الدعوة کی اٹھان میں دو شخصیات کا کلیدی کردار ہے ان میں ایک نام ذکی الرحمن لکھوی ہے۔ جنہوں نے جماعت کو عسکری تنظیمی ڈھانچہ دیا۔ دوسرے حافظ محمد سعید کے سسر اور ماموں حافظ عبداللہ جنہوں نے اسے فکری بنیاد فراہم کی۔

جماعت الادعوة کے اہم راہنما امیر حمزہ نے اپنی کتاب قافلہ دعوت و جہاد میں اس کا اجمال تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح ذکی الرحمن لکھوی نے سلفی علما کو جہاد کی طرف راغب کیا ان کی یہ کوششیں اس وقت رنگ لائیں جب پروفیسر حافظ محمد سعید ان کی دعوت و جہاد پہ آمادہ ہوئے۔  پروفیسر حافظ عبداللہ نے تائید کی اور سلفی علماء کو پیغام دیا کہ یہ جمہوری ریاست جسے ہم نے اپنا رکھا ہے۔ یہ ہمارے لئے مناسب نہیں آﺅ اس گندی سیاست کو ترک کر کے ہم سب ایک ہو جائیں۔ اپنی جماعت کے اندر امارت کا نظام قائم کریں۔ اس جماعت کو منظم کریں اور جہاد کی راہ پر لگائیں، (قافلہ دعوت و جہاد۔ صفحہ 95) اس محرک کی بنیاد پر ایک جماعت 1987 میں تشکیل دی گئی جس کا نام مرکز الدعوة الارشاد رکھا گیا مرکز سے پہلا جہادی قافلہ 10 اگست 1987 لاہور سے افغانستان کے لئے روانہ کیا گیا (99 صفحہ)

جہاد افغانستان کے بعد جب کشمیر میں جہاد شروع ہوا مرکز الدعوة الارشاد کے سپریم کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی کی کاوشوں سے 1992 میں لشکر طیبہ وجود میں لائی گئی اور لالہ ابو حفص کو اس کا امیر مقرر کیا گیا۔ جو 1993 میں مقبوضہ کشمیر میں شہید ہو گئے۔ اب کشمیر کا محاذ لکھوی نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یہ مرکز الادعوة الارشاد اور لشکر طیبہ کے لئے نقطہ عروج تھا۔ مرکز کے عسکری شعبے لشکر طیبہ کا نام اس قدر معروف ہوا کہ اصل تنظیم کے نام پر غالب آ گیا۔ اسی غالب وقت میں راقم الحروف حافظ محمد یعقوب اور یسین رحمانی کے ساتھ نوے کی دہائی کے دوسرے سال کے آخر میں معسکر طیبہ میں تھا۔ ساتھ تربیت لینے والے کئی نوجوان کشمیر کے محاذ پر جام شہادت نوش کرتے رہے۔ حافظ محمد یعقوب پہلے جبکہ یسین رحمانی دوسرے نمبر پہ گھر آئے۔ یاد رہے کہ حافظ محمد یعقوب رحلت فرما چکے ہیں جبکہ یسین رحمانی آج کل پاکستان پیپلز پارٹی سٹی صفدرآباد کے صدر ہیں۔ راقم الحروف بچوں کے لئے کام کرنے والے ایک ادارے کے ساتھ وابستہ ہے۔

بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد جب نصر جاوید راقم الحروف سے بغل گیر ہوا تو میں سوچ رہا تھا کہ ٹی وی توڑنے کی بات کرنے والے آج ٹیلی ویژن پہ کوریج نہ ملنے پر دھمکیوں پہ اتر آتے ہیں۔ تصویر نہ بنوانے کی تلقین کرنے والے آج خود ملک بھر میں بڑے بڑے سائن بورڈز پہ تصویروں کی شکل میں موجود ہیں۔ جمہوری نظام کو کفر کہنے والے آج اسی نظام سے ووٹ مانگتے پھرتے ہیں۔ سب کچھ کفر تھا تو تھوڑے ہی عرصے میں کفر نہیں رہا۔

ان سب باتوں کو زیادہ دن نہیں گزرے ہیں اب آنے والے وقت میں جہاد کے متعلق دوستوں کا کیا کچھ بدلتا ہے کچھ زیادہ تو نہیں کہا جا سکتا مگر خطبہ جمعہ کے اجتماع سے گھر واپسی پر مجھے اپنے ہمسائے منشا یاد کی اک نظم یاد آ رہی تھی۔۔ آپ بھی ملاحظہ کریں۔

جہاد۔۔۔۔۔

ہیلو کمانڈر۔۔۔۔۔ تم پر سلامتی ہو

حضور آپ پر بھی

کہاں ہو کمانڈر

سر ابھی اوپر ہوں مگر میرے آدمی نیچے جا چکے ہیں

انہیں واپس بلا لو

یہ آپ کیا فرما رہے ہیں

ہاں۔۔۔۔۔ انہیں واپس بلا لو اور خود بھی آگے مت جاﺅ

مگر حضور وہ تو اپنے ٹارگٹ کے قریب

وہ جہاں بھی ہیں انہیں فورا واپس لے آﺅ۔ انہیں مشن مکمل کرنے کا ثواب ملے گا

میں کوشش کرتا ہوں حضور۔۔۔۔ مگر ابو صالح بہت جوشیلا ہے

شہادت سے کم مرتبے پر راضی نہ ہو گا

اسے بشارت دو کہ اللہ نے ان کی شہادت قبول کر لی

ٹھیک ہے حضور مگر جہاد۔۔۔

بند کرنے کا حکم آیا ہے

کہاں سے۔۔۔۔ ؟ اوپر سے

کشف کے ذریعے؟

نہیں۔۔۔۔۔ وائر لیس پر۔

سلیم اشرف
Latest posts by سلیم اشرف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments