کورونا وائرس: مودی حکومت کیا اس بارے میں صورتحال کا جائزہ لینے میں غلطی کر گئی
انڈیا میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری 2020 کو جنوبی ریاست کیرلہ میں سامنے آیا تھا۔
اس کے 52 دن بعد 24 مارچ کو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے محض چار گھنٹے کے نوٹس پر پورے انڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تھا۔
اسی دن یعنی 24 مارچ تک پورے انڈیا میں کورونا وائرس کے کل 564 پوزیٹو کیسز سامنے آچکے تھے اور اس وقت کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 10 بتائی گئی۔ یعنی کل 77۔1 فی صد اموات۔
اب بات کرتے ہیں مئی کے تیسرے ہفتے کی۔ انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 108،923 ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 45،299 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی اس وقت تعداد 3،435 ہے یعنی کل 17۔3 فی صد۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کو اتنے سخت لاک ڈاؤن کی واقعی ضرورت تھی؟
دوسری جانب ایک حقیقت یہ ہے جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔ وہ ہے بے روزگاری۔ غربت کی کھائی میں واپس دوبارہ جانے کا، اپنوں سے دور رہنے کا۔ اور انڈیا جیسے ملک میں غریب مزدوروں کی بد حالی۔ جو مزدور لاک ڈاؤن کے دوران بھوکے پیاسے پیدل اپنے گھروں کو نکلے اور راستے میں حادثات کا شکار ہوئے۔
ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے اب تک 12 کروڑ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔
ان میں سے بیشتر غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں یا پھر کمی مدتی کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین ہیں۔
اتنی ہی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو بے روزگار تو نہیں ہوئے لیکن جو بغیر تنخواہ کے گھر پر بیٹھے ہیں اور پھر سے دفاتر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جب دفاتر بند تھے انہیں تنخواہیں نہیں ملیں۔
ملک کی معیشت کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے اندر حکومت کو 20 لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کرنا پڑا ہے۔
معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دوں کہ یہ رقم ملک کی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 10 فی صد حصہ ہے۔
لاک ڈاؤن کیوں؟
کوئیڈ 19 ایک ایسی بیماری ہے جس سے نمٹنے میں پوری دنیا مصروف ہے۔
چین کے ووہان شہر سے شروع ہونے والی اس وبا نے دنیا کے ترقی پسند ممالک اور غریب ممالک سب کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی ہے۔
سپین ہو یا اٹلی، امریکہ ہو یا برطانیہ، جاپان یا جنوبی کوریا، کنیڈا یا برازیل، ہر ملک میں اس وائرس نے اپنا سر اٹھایا اور لوگوں کی جانیں لی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلو ایچ او کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کے کل کیسز 47 لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں جن میں سے تین لاکھ سے زیادہ کی اموات ہوچکی ہیں۔
دنیا کے بعض ممالک نے اس پر قابو پانے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تو بعض نے جزوی لاک ڈاؤن کا۔ یعنی جن علاقوں میں کم یا نہ ہونے کے برابر کیسز سامنے آئے وہاں لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں کیا۔
خامیاں کہاں رہیں؟
دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ڈیلوپمنٹ اکنومکس کی پروفیسر جیوتی گھوش کے مطابق انڈین حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے میں تاخیر کی اور ایک ‘جمہوری ملک ہوتے ہوئے اپنے کروڑوں غریب مزدوروں کے بارے میں بے حد کم سوچا۔’
ان کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک نے لاک ڈاؤن کا انڈیا سے بہتر طریقے سے نفاذ کیا۔ مزدوروں کو اپنے گھر لوٹنے کا مناسب وقت دیا، ان کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی۔ اس کے برعکس انڈیا میں غریب مزدوروں کو 45 روز تک پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم رکھا اور جو جہاں تھا وہ وہیں پھنسا رہا۔ بیشتر بھوکے پیاسے۔ پھر اس کے بعد میڈیا کے دباؤ میں آکر خصوصی ٹرین سروس شروع کی لیکن کرائے اتنے مہنگے کہ متوسط طبقہ بھی ان کا نہ خرید سکے۔‘
حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے فوراً نفاذ کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا کیونکہ اس کے پھیلنے کی شرح جسے ‘آر او’ کہتے ہیں، اسے قابو کرنا تھا اور دنیا کے دیگر ممالک کے تجربے اور ڈبلو ایچ او کی ہدایات کے مطابق قرنطینہ اس کا واحد علاج لگ رہا تھا۔
عالمی سطح پر اسے ‘فلیٹ دا کرو’ کہا جارہا ہے اور اس عمل سے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ، آکسیجن وینٹیلیٹرز، پی پی ای کٹس کا اتنظام کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔
ہوسکتا ہے حکومت کو یہ بھی امید ہو کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ہی اس وائرس کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہوجائے۔
وہ چيز جس نے امید قائم رکھی
اس دوران دو اہم چيزیں سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ کسی ملک میں کورونا سے متاثر افراد کی تعداد دوگنی ہونے میں کتنا وقت لگ رہا ہے۔ اسے ڈبلنگ ریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور انڈیا میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد اس میں کافی بہتری دیکھی گئی ہے۔
اور دوسرا ہے ’آر ناٹ‘ یعنی کہ ایک مریض سے کتنے لوگوں کو وائرس لگ سکتا ہے۔ اگر اس کی شرح 1 فی صد سے کم رہتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انفیکشن کے کیسز کم ہو رہے ہیں جبکہ انڈیا میں یہ شرح ایک سے ڈھائی فی صد کے درمیان رہی۔
لاک ڈاؤن کی وجہ ہونے والی پریشانیوں کا اعتراف خود حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اشونی اپادھیے بھی کرتے ہیں لیکن ان کا موقف تھوڑ الگ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بات صحیح نہیں ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے وقت غریب مزدوروں کے بارے میں نہیں سوچا۔ حکومت اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھی۔ لیکن یہ حالات بالکل نئے تھے جس سے نمٹنے کے لیے انڈیا کے پاس ماضی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نہ کسی اہلکار کے پاس اور نہ ہی کسی لیڈر کے پاس۔ آخر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کے دوران بھی ٹرینیں بند نہیں کرنی پڑی تھی۔ کوشش پوری کی گئی۔ ہم یہ چاہیے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہیں ہوئی، خاص طور سے مزدوروں کو۔ لیکن ان حالت نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارے بھائی بہن پیدل بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کا جذبہ کتنا عظیم ہے اور ہنر کی کمی نہیں ہے۔‘
بغیر علامات والے کیسز نے مشکل میں اضافہ کیا
امریکہ میں جانز ہاپکنز یونیورسی کے پروفیسر سٹیو ہینکے کا اشارہ ان کورونا پوزیٹیو کیسز کی جانب ہے جن میں بخار، کھانسی اور سانس پھولنے جیسی علامات نہیں ہوتی ہیں۔
ایسے کیسز کی اگر بات کریں تو اب تک کورونا وائرس کے جتنے بھی متاثرین سامنے آئے ہیں ان میں 60 فی صد ایسے مریض ہیں جن میں کورونا کی علامات تھی ہی نہیں۔
پروفیسر سٹیو ہینکے کہتے ہیں ’کورونا وائرس کی مشکل یہ ہے کہ بغیر علامات والا مریض بھی دوسروں کو یہ وائرس لگا سکتا ہے تو اس سے نمٹنے کا سب سے بہتر طریقہ ٹیسٹنگ ہے۔ وائرس کا پتا لگانے کے لیے سنگاپور نے ایسا ہی کیا۔ پریشانی کی بات یہ ہے انڈیا کے پاس اتنے ذرائع نہیں ہیں وہ ایسا کرپاتا۔‘
ادھر ڈبلو ایچ او نے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن ایک حل بتایا لیکن ساتھ یہ بھی بتایا کہ وائرس کن دو صورتحال میں سب سے زیادہ پھیلتا ہے۔
کوئیڈ 19 سے نمٹنے کے لیے ڈبلو ایچ او کے خصوصی ایلچی ڈیوڈ نابارو کے مطابق ’سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کمیونٹی سپریڈ کا اور اس کے بعد کلسٹر سپریڈ کا۔ انڈیا میں کمیونٹی سپریڈ کے کیسز دیکھنے کو نہیں ملے ہیں لیکن ممبئی اور دلی جیسے علاقوں میں کلسٹر یعنی ایک علاقے میں وائرس کے پھیلاؤ کے زیادہ متاثرین سامنے آئے ہیں۔‘