عید الفطر: اس بار ’پریم چند کا حامد‘ کیوں عیدگاہ نہیں جائے گا؟


انڈیا

اس بار حامد عیدگاہ نہیں جائے گا، نہ ہی اپنے کسی چاہنے والے کے لیے کوئی تحفہ خریدے گا، جیسے کہ پریم چند کی کتاب عید گاہ میں اس نے دادی کے لیے چمٹا خریدا تھا۔

حامد کے پاس تو غربت کی وجہ سے نئے کپڑے نہیں تھے لیکن اس بار حامد جیسے لاکھوں مسلمان بچوں نے ’اس عید نئے کپڑے نہیں‘ اور ’پیسوں کو ضرورت مندوں کو زکوۃ‘ کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

رمضان اور عید کو ’قانونی دائروں میں رہ کر منانے‘، ’ذمہ دار شہری ہونے کا فرض نبھانے‘، سوشل ڈسٹینسنگ، لاک ڈاون وغیرہ کے پیش نظر ماہ مبارک کے دوران پڑھی جانے والی خصوصی ’نمازوں کو گھر پر ادا کرنے‘، افطار کی دعوتوں سے بچنے اور عالمی وبا کے دوران ’انسانیت کی حفاظت کے ذمہ داری نبھانے‘ جیسی باتیں تقریباً ایک ماہ پہلے روزوں کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔

انڈیا میں ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی ذاتی پیغامات، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر یہ بات ہونے لگی کہ اس بار عید کی خریداری نہ کر کے کسی ضرورت مند خاندان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا انتظام کیا جائے، کسی بچے کی سکول فیس ادا کی جائے، کسی کے گھر کا کرایہ بھرا جائے اور رمضان کے صحیح معنی کو نبھایا جائے۔

سرکردہ صحافی رامشرن جوشی ان باتوں کو مسلم معاشرے میں ’نئی صبح کی شروعات‘ کے طور پر دیکھتے ہیں تو سیاسی تجزیہ کار بھارت بھوشن کا خیال ہے کہ یہ ’مسلم معاشرے میں ہونے والی تبدیلی کے عمل کا حصہ ہے جس کی شروعات شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں سے ہوئی تھی۔‘

یہیں انسانی حقوق کے کارکن سلطان خان کے مطابق اسے برادری میں ابھرنے والی نئی قیادت کی چھاپ کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو نئی سوچ کو ایک نئی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

رمضان شروع ہونے تک کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر ہونے والی تباہی کا اندازہ ہو گیا تھا اور کئی وفاقی وزرا، کئی ریاستی حکومتوں اور میڈیا کے ایک حصے نے تبلیغی جماعت کے کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کر دیا تھا۔

چوبیس مارچ کو اچانک ہونے والے لاک ڈاون کے اعلان اور اس کے بعد سڑکوں پر اپنے گھروں کی اور جانے کی کوشش کرتے مزدوروں کے سیلاب کے درمیان دلی میں مقیم تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی پوری ذمہ داری تبلیغی جماعت کے سر ڈالی جانے لگی۔

کچھ عناصر نے اسے ’مسلم جان بوجھ کر کورونا پھیلا رہے ہیں‘ جیسا موڑ دینے کی بھی پوری کوشش کی۔

انڈیا

مصنفہ رخشندہ جلیل کہتی ہیں کہ مسلم معاشرے کا سب سے بڑا طبقہ، جس میں پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہے، اس طرح کے الزامات سے بےحد صدمے میں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ برادری کے کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ عید کی خریداری اس لیے بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بازاروں میں بھیڑ لگے گی اور وائرس کے پھیلاوؤکی ذمہ داری پھر سے ان پر تھوپی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر پیغامات

کئی واٹس ایپ گروپس میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خریداری اور عیدی دینے کی رسم پر قابو رکھیں ورنہ ’سوشل ڈسٹینسنگ عید کی شاپنگ کی نذر ہو جائے گی‘۔ اس کے علاوہ ’مسلم خواتین کو نہیں ملک کی فکر، چاہتی ہیں کورونا پھیلانا‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ ٹی وی چینل تیار بیٹھے ہیں۔

اسی طرح بعض پیغامات میں تو ٹی وی اینکرز کے ناموں کے ساتھ بتایا گیا ہے کون سا اینکر اس معاملے پر کون سی ہیڈ لائن چلا سکتا ہے۔

دلی کے بھجن پورا علاقے میں رہنے والے ای جی ملک کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک پیغام کہیں سے فارورڈ ہو کر آیا تھا: ’یوں بھی فسادات اور موجودہ حالات کے دوران ان میں جوش وخروش سے تہوار منانے کی خواہش نہیں ہے۔‘

شیشے کا کاروبار کرنے والے ای جی ملک نے اپنے بیٹے کو بھی عید کی شاپنگ نہ کرنے کی تاکید کی ہے اور ارادہ ہے کہ اس سے بچنے والے پانچ ہزار روپے وہ علی گڑھ میں اپنے گاؤں جا کر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں گے۔

مسلم معاشرے اور سیاست کو قریب سے دیکھنے والے مصنف رشید کدوائی کہتے ہیں کہ ’نو ٹو عید شاپنگ‘ جیسی مہم تو بابری مسجد گرائے جانے کے بعد بھی نہیں چلی تھی اور جامع مسجد کے احمد بخاری اور چند دیگر مذہبی رہنماوں نے جب بابری مسجد اور عید کو جوڑنے کی کوشش کی تھی تو جانے مانے عالم علی میاں نے اس سے صاف انکار کر دیا تھا۔

انڈیا

ذمہ داریوں کا مہینہ

رشید کدوائی کہتے ہیں رمضان ’ذمہ داریوں کا مہینہ ہے‘ جس کے دوران تمام صحت مند مسلمانوں سے روزہ رکھنے، خاص عبادت کرنے اور اس کے ذریعے اپنی کردار کو بہتر بنانے کا حکم ہے اور اسی حکم کو اللہ کی رضا کے مطابق پورا کر لینے کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس میں نئے کپڑے بنوانے یا سویّاں کھانے کی کوئی قید نہیں، یہ سب صرف رسمیں ہیں۔

لیکن اس بار نوٹوعید_شاپنگ کے بارے میں جو اپیلیں جاری ہو رہی ہیں ان میں رمضان میں کسی کی مدد کرنے اور اور ماہ مبارک کو اس کے صحیح معنی میں منانے کی بات ہو رہی ہے۔

رمضان شروع ہونے سے لگ بھگ ایک ہفتہ پہلے اسلام کے الگ الگ فرقوں: شعیہ، سنی، اہل حدیث وغیرہ سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے مشترکہ طور پر ایک تفصیلی اپیل جاری کی جس میں معاشرے اور ملک کی طرف ذمہ داریوں کی بات کی گئی تھی۔

اپیل میں کہا گیا کہ مسلمان سحری اور افطار گھر پر ہی کھائیں، نماز کے لیے مسجد نہ جائیں، بنا ضرورت باہر نہ نکلیں، نہ ہی کسی طرح کی دعوتوں کا انتظام کریں اور رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔

انڈیا

اس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان خلیل الرحمان سجاد نومانی کی طرف سے ایک ویڈیو اپیل جاری کی گئی جسے آئی آئی ٹی اور انجینئیرنگ سے منسلک کچھ افراد نے ایک مختصر فلم کی شکل دے دی ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد ’قوم میں بیداری پیدا کرنا اور دوسرے مذاہب میں اسلام کی بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔‘

تبدیلی کی آواز

بھارت بھوشن کے مطابق علماوں کے نظریے میں آئی تبدیلی کے پیچھے قیادت میں آئی تبدیلی ہے۔ “جو شہریت کے نئے قانون کے خلاف مہم کے وقت پرانی قیادت کے ہاتھوں سے نکل کر نئے ابھرنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔‘

اور پرانی قیادت شاید اس وجہ سے بدلنے کے لیے مجبور ہو گئی ہے۔

بھارت بھوشن کہتے ہیں کہ شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں، جنہیں وہ ’مسلم سیاست کا سیکیولرائزنگ لمحہ‘ کہتے ہیں، شامل نوجوانوں نے روایتی مذہبی رہنماوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے تھوپے گئے لیڈروں کو پاس تک نہیں بھٹکنے دیا۔ حالانکہ ایسا کرنے سے کوئی ایک چہرہ لیڈر بن کر سامنے نہیں آیا لیکن اسے قیادت کے جمہوری ہونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

تاہم لکھنو کے مشہور مذہبی ادارے فرنگی محل سے منسلک نعیم الرحمان صدیقی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چیزوں کو اس طرح ’سیاہ اور سفید‘ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

نعیم الرحمان صدیقی کہتے ہیں: ’علما بھی ان حالات سے بےخبر نہیں کہ شراب کی دکانوں پر لگی بھیڑ اور وہاں نہ ہونے کے برابر سوشل ڈسٹینسنگ پر کوئی میڈیا یا حکام ہنگامہ کھڑا نہیں کرتے، لیکن بات جب مسلمانوں کی آتی ہے تو ہر طرف سے سوال کھڑے ہونے لگتے ہیں۔‘

انڈیا

رخشندہ جلیل مسلمانوں میں پیدا ہونے والی اس بیداری کو اہم سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس میں مزید کام کی ضرورت ہے کیونکہ تمام کوششوں کے بعد بھی علی گڑھ کے جمال پورا بازار میں عید کی خریداری کرنے والوں کا رش لگ گیا تھا۔

لاک ڈاون کے اعلان کے بعد مسلمان رہنماوں نے نماز جمعہ کو باجماعت ادا نہ کرنے اور مسجدوں میں نہ جانے کی جو اپیل کی تھی اسے بھی کئی لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ دلی کے قریب واقع نوئیڈا میں چھت پر باجماعت نماز ادا کرنے پر پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔

لمحہ فکریہ

حالانکہ برادری کے ایک حصے میں یہ پریشانی بھی ہے کہ لاک ڈاون کے دوران حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے اقدامات اور مسلمانوں کے اپنے فیصلے، جیسے کہ نماز کا باجماعت نہ ہونا، یا نماز جمعہ مساجد میں نہ ادا کرنا، کہیں حکومت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے نافد نہ ہو جائیں۔

نماز، روزہ اور عید سے ہٹ کر بھی اس دوران مسلمانوں کی طرف سے اقدامات سامنے آئے جن میں پونے کی ایک مسجد کو قرنطینہ مرکز بنانے کی پیشکش، کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کئی ہندوؤں کی مسلمانوں کے ہاتھوں آخری رسومات ادا ہونا اور لاک ڈاون سے پریشان لوگوں کی معاشی مدد کرنا شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم سٹوڈنٹ اسلامک آرگانائیزیشن کے جنرل سیکرٹری سید اظہرالدین لاکھوں بے گھر مزدوروں اور غریب روزہ داروں کی معاشی مدد کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو کیمبرج میں ریسرچ سکالر ممتاز نیّر کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے بہار سے لے کر مہاراشٹر تک لوگوں میں راشن کٹ بانٹے ہیں۔

بھوپال میں مقیم سماجی کارکن عاصمہ خان کہتی ہیں کہ ضرورت مندوں کی مدد کا جذبہ نوجوان مسلمانوں میں اچانک پیدا نہیں ہوا ہے اور یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے لیکن شاید پہلے نیکی کر دریا میں ڈال والی بات تھی اور اب شاید سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ باتین سامنے آ رہی ہیںَ۔

رام شرن جوشی کا خیال ہے کہ مسلمان برادری میں اٹھنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مثبت قدم، جن میں انڈین شہری ہونے کا احساس بہت گہرا ہے، کس اور جائیں گے، یہ بات آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست اور اس سے پیدا ہونے والے حالات طے کرے گی لیکن فی الحال جو ہو رہا ہے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp