میک اپ اور پردہ، نسوانیت کے متضاد یا لازم جزو؟ قسط نمبر 11


اس گھر میں نازیہ بھابھی کی اگر بنتی تھی تو بڑی نند زیبا باجی سے بنتی تھی۔ ان دونوں کی سوچ پسند ناپسند سب ایک جیسا تھا دونوں مل کر بیٹھتیں تو گمراہ نئی نسل، کام چور بہوئیں اور بد کردار تقریریں جھاڑنے والی عورتوں پہ بلا تکان گھنٹوں تبادلۂ خیال کر لیتی تھیں۔

ان دونوں کو ہی نئی دلہنوں کا شوہر سے بات کرنا دن میں اپنے کمرے میں رہنا، شوہر کے ساتھ اکیلے باہر جانا گناہ جیسا معیوب لگتا اور فی الحال ان کے اس نظریے کی زد پہ بسمہ تھی۔ شکر یہ ہوا کہ باسط خود بھی زیادہ گھومنے پھرنے کا شوقین نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے گھر کی خواتین کو باہر لے کر جانا پسند نہیں دوست دیکھتے ہیں اچھا نہیں لگتا۔ اسی کے کہنے پہ بسمہ نے نقاب کے ساتھ حجاب کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ مگر ایک بات جو بسمہ نے بہت عجیب نوٹ کی وہ یہ کہ باہر بازار وغیرہ میں گھومتے ہوئے باسط کی توجہ خریداری اور بسمہ کی باتوں سے زیادہ اردگرد کھڑی عورتوں پہ ہوتی اور پھر وہ ان کے آگے بڑھتے ہی ان کی ڈریسنگ، فگر اور بے پردگی پہ کافی کھلے الفاظ میں تنقید کرتا تھا۔

اس کا کہنا ہوتا تھا کہ یہ خواتین خود کو دکھانے ہی تو نکلی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کی عورتوں خاص طور پہ بسمہ کے بارے میں کوئی غلط سوچے۔ بسمہ کو حیرت ہوتی کہ کسی کی سوچ پہ کیسے پابندی لگائی جاسکتی تھی اسکول سے لے کر اب تک کم از کم یہ چیز اس نے سمجھ ہی لی تھی کہ لوگ اچھا یا برا کسی معیار کی بنیاد پہ نہیں اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پہ بناتے ہیں۔ مثال اس کے سامنے ہی تھیں ناں، جس قسم کی خواتین کو نازیہ بھابھی برا سمجھتی تھیں فائزہ ان کی تعریفیں کرتی تھی۔

جیسی بہوئیں دادی کو ناپسند تھیں امی ان کی تعریفیں کرتی تھیں۔ حد تو یہ تھی کہ گھر کے ہر بندے کا ایک ہی فرقہ ہونے کے باوجود کچھ باتوں کے بارے میں الگ الگ عقیدہ اور نظریہ تھا اور اسی نظریے کی بنیاد پہ سب نے اپنے اپنے پسندیدگی کے معیار بنائے ہوئے تھے۔ رافیعہ بھابھی کے مطابق سچا پاکستانی ہونا ہی اصل اور سچے مسلمان کی نشانی تھی اور زیبا باجی کے مطابق ہم امت مسلمہ کے طور پہ ایک بڑے خطے کا حصہ ہیں اور پاکستان کو الگ کوئی ریاست سمجھنا امت سے بغاوت ہے۔

مزے کی بات یہ کہ کئی بار دونوں کی جذباتی تقاریر سننے کے باوجود بسمہ نے کبھی کوئی ایک عادت بھی دونوں میں ایسی نوٹ نہیں کی جس سے پاکستان یا امت مسلمہ کا بھلا ہوتا ہو۔ یہ سوچتے ہوئے بسمہ خود بھی سوچتی کہ وہ خود ہی آخر بحیثیت مسلمان یا پاکستانی کے کیا کر رہی ہے۔ اور پھر سوچ کے ہی رہ جاتی کہ وہ کر ہی کیا سکتی ہے۔ اپنی سسرال کے جھمیلوں سے نکلے تو کسی فلاحی کام کا سوچے۔ فائزہ نے ایک دفعہ اسے کہا بھی اس نے نفیس آنٹی کے ساتھ مل کر ایک کچی بستی میں تھوڑے بچوں کو مفت تعلیم دینی شروع کی تھی۔

اسے اندازہ تھا کہ وہ خود بھی ذہنی طور پہ تیار نہیں مگر اپنے فیصلے پہ تصدیق کی مہر لگوانے کے لیے اس نے باسط سے بھی پوچھ لیا۔ پہلے تو فائزہ کا نام سن کر ہی اس کا منہ تھوڑا بن گیا۔ بسمہ کو واقعی سمجھ نہیں آتا تھا کہ لوگ فائزہ اور نفیس آنٹی سے کیوں چڑتے ہیں جبکہ اس نے ہمیشہ انہیں سب کا مددگار ہی پایا تھا۔ وہ دونوں کسی کی بھی مدد کرنے کے لیے اپنی تمام توانائی صرف کر دیتی تھیں۔

پہلے تو وہ خاموشی سے ٹی وہ دیکھتا رہا مگر جب بسمہ سوالیہ انداز میں اسے دیکھتی رہی تو تھوڑا چڑ کے بولا

”یار یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ عزت دار گھرانے کی بہو ہو کر تم اب گلی محلوں میں گندے سندے بچوں کے پیچھے خوار ہوگی؟“

”اصل میں فائزہ اتنی اچھی دوست ہے میں خود سے اسے منع کرتی اچھا نہیں لگتا مگر اب یہ کہنا آسان ہوگا نا کہ آپ کو پسند نہیں۔“

”یار تم عورتوں کا اپنا دماغ نہیں ہوتا کیا؟ ہر اچھے برے کا ملبہ شوہر پہ ڈال دیتی ہو ’انہیں نہیں پسند‘ پھر کہا جاتا ہے کہ ہمیں برابر نہیں سمجھتے“

”باسط میں نے یہ کب کہا“ منع تو بسمہ بھی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے خیال ان بچوں کے بارے میں ایسے نہیں تھے جس طرح باسط نے کہا وہ بس روز گھر سے کام چھوڑ کے نکلنے میں ہچکچا رہی تھی۔

شروع کے دنوں میں بسمہ کو باسط جتنا خیال رکھنے والا، رومینٹک اور مددگار طبیعت کا لگا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہوتا جا رہا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ بڑے بھیا کی طرح ہی اسے بحث بالکل پسند نہیں تھی۔ کسی بھی چھوٹی سی بات پہ ناراض ہو کر اچھا خاصا طوفان کھڑا کردیتا تھا۔ کھانے میں چند ہی چیزیں پسند تھیں اور ان میں بھی اس کا معیار بہت انوکھا تھا کوئی بھی پکائے اسے کوئی نہ کوئی کمی مل ہی جاتی تھی اور یہ صرف اس کا نہیں سسر سمیت گھر کے تمام مردوں کا مسئلہ تھا۔

بس فرق یہ تھا کہ بسمہ ان دونوں بھاوجوں سے بہتر ہی پکاتی تھی مگر باسط کے علاوہ باقی دونوں بھائی اپنی اپنی بیگمات کے کھانے خاموشی سے کھا لیتے تھے۔ لیکن اس بات کی کسر ان کے بیٹے پوری کردیتے تھے۔ بڑے بھائی عبدالصمد کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھے بڑا نویں میں تھا بیٹی دوسرے نمبر پہ ساتویں کلاس میں اور دوسرا بیٹا پانچویں میں۔ دوسرے نمبر کے بھائی عبدالرافع کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ان کا بیٹا بھی اولاد میں سب سے بڑا تھا مگر صمد بھائی کا چھوٹا والا اور یہ دونوں تقریباً ہم عمر تھے اس لیے ایک ہی کلاس میں تھے۔

بیٹی دوسری کلاس میں تھی۔ ان تینوں لڑکوں کی فرمائشیں پوری کرنا جان جوکھم کا کام تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہی بچے بسمہ سے ناصرف بہت جلدی اٹیچ ہو گئے تھے بلکہ اس سے ضد بھی کم ہی کرتے تھے۔ سب عموماً شام میں اپنی کتابیں لا کر بسمہ کے پاس ہی کام کرتے تھے سوائے سب سے بڑے فہد کے۔ اس کا رویہ بسمہ کو عجیب ہی لگتا تھا جیسے وہ بسمہ کو چاچی کی بجائے صرف لڑکی سمجھتا ہو۔ عموماً اس سے کتراتا تھا مگر کئی بار بسمہ نے اسے اپنی طرف عجیب طریقے سے گھورتے ہوئے پایا۔

بسمہ کو بھی احساس تھا کہ اس سے بسمہ کی عمر کا کوئی زیادہ فرق بھی نہیں وہ خود بھی اس سے بے تکلف ہوتے میں جھجک محسوس کرتی تھی۔ ایک دم کسی اتنے بڑے لڑکے کو باسط کے رشتے کے حوالے سے محرم کے طور پہ برتنا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ بسمہ اگر اس کی موجودگی میں غیر ارادی طور پہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتی یا وہ بسمہ کے اپنے کمرے میں آتے ہی شارٹس بدل کے جینز پہن لیتا تو کوئی نہ کوئی ٹوک دیتا کہ چاچی بھتیجے کے رشتے میں یہ تکلف نہیں ہوتے۔

یہ سب وہ احساسات تھے جو بسمہ صرف محسوس کر سکتی تھی کسی سے تذکرہ نہیں کر سکتی تھی باسط سے بھی نہیں۔ شادی سے پہلے تک جو اس کا خیال تھا کہ شاید باسط کی صورت میں اسے ایک دوست مل جائے وہ آہستہ آہستہ غلط ثابت ہوتا جا رہا تھا۔ شروع شروع کا رومان آہستہ آہستہ صرف جسمانی تعلق تک محدود ہوتا جا رہا تھا اور وہ بھی باسط کی مرضی اور شرائط پہ۔ بسمہ تھکی ہوئی ہو نیند پوری نہ ہوئی ہو طبیعت خراب ہو اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔

ساتھ ہی وہ اپنا دن بھر کا غصہ کام کی پریشانی سب اسی وقت بسمہ پہ اتار دیتا یہ خیال کیے بغیر کہ بسمہ کو تکلیف ہوگی۔ وہ اپنی غرض پوری کر کے سو جاتا اور بسمہ پوری رات خوف سے جاگتی رہتی اور تکلیف سے سسکتی رہتی۔ اس کے وہ تمام رومانوی تصورات جو اس رشتے سے جڑے تھے ایک ایک کر کے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ ورنہ منگنی سے شادی کے درمیانی عرصے میں وہ کافی مطمئن ہوگئی تھی کہ باسط اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھے گا اور زبردستی نہیں کرے گا۔

پہلی بار یہ تب ہوا جب آفس میں باسط کی باس سے کسی بات پہ منہ ماری ہوئی، آفس سے بھی جھنجھلایا ہوا آیا تھا، پہلے تو کھانے پہ بہت چیخا چلایا کہ تم لوگ گھر میں پورا دن پڑے پڑے کرتی ہی کیا ہو جب ایک کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔ چیخ چلا کر آدھا کھانا چھوڑ کر ہی اوپر چلا گیا۔ بسمہ کام نپٹا کر اوپر پہنچی تو کمرے میں سگریٹ کا دھواں بھرا ہوا تھا۔ باسط کی سانسیں تیز تھیں اور خلاؤں میں کہیں گھور رہا تھا۔

”سمجھتا کیا ہے خود کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ باسط نے اسی طرح خلا میں گھورتے گھورتے ایک دم کہا اور کافی بے ہودہ گالی دی ”باس ہے تو سمجھتا ہے ہم اس کے باپ کے نوکر ہیں۔ مفت میں پیسے نہیں دیتا گدھوں کی طرح کام کراتا ہے“

بسمہ نے پہلی بار باسط کے یہ تیور دیکھے تھے وہ ڈر بھی گئی اور پریشان بھی ہوئی۔
”کیا ہوا باسط آفس میں کچھ ہوا کیا؟“

”ہوا بھی ہے تو تم کیا کر لو گی؟ تم عورتوں کو مفت کی روٹیاں توڑنے کو ملتی ہیں بے عزت تو ہم ہوتے ہیں دو دو ٹکوں کی نوکری کے لیے، نکل کر کمانا پڑے تو عقل ٹھکانے آ جائے تم لوگوں کی، دو وقت کا کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔“ بسمہ ہکا بکا باسط کو دیکھ رہی تھی کہ اس سب میں اس کا کیا قصور ہے۔

بسمہ خاموشی سے دوسری طرف کروٹ لے کر سونے لیٹ گئی اسے پتا ہوتا کہ مسئلہ کیا ہے تو وہ اسے پرسکون کرنے کے لیے کچھ بولتی بھی مگر باسط کے تیوروں سے لگ رہا تھا وہ کچھ بتائے گا ہی نہیں۔ بسمہ کے اس طرح خاموشی سے لیٹنے پہ وہ اور غصے میں آ گیا اس کا بازو کھینچ کر سیدھا کیا

”میں گدھا ہوں جو بکواس کیے جا رہا ہوں مہارانی کو اپنے آرام کی پڑی ہے“

یہ آخری جملہ تھا جو باسط نے ادا کیا تھا۔ پھر صرف بسمہ کی سسکیاں گونجتی رہیں۔ اس رات بسمہ اتنی ڈر گئی اسے لگ رہا تھا وہ سو گئی تو گل بانو کی طرح مر جائے گی۔ فجر کی اذان پہ وہ اٹھی تو اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ اچھے خاصے ٹھنڈے موسم میں وہ ٹھنڈے پانی سے ہی نہا لی وضو کر کے مصلا بچھایا مگر کھڑے ہو کر یاد ہی نہیں آیا کیا پڑھنا ہے وہ قیام سے ہی سجدے میں چلی گئی اور پتا نہیں کتنی دیر سجدے میں سر رکھے روتی رہی۔

اور پھر یہ سب تقریباً روز کا معمول بن گیا۔ شروع شروع میں بہت تکلیف ہوتی تھی رونا بھی آتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ بے حس لاش ہوگئی۔ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کی حالت سہمی ہوئی چڑیا جیسی ہوگئی تھی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ رنگت کی گلابیاں زردی میں بدل گئیں۔ شادی کو کوئی چھ یا سات مہینے گزر گئے تھے ایک دن فائزہ کی کال آئی تو اس نے بتایا کہ وہ لوگ سب شفٹ ہو رہے ہیں آسٹریلیا۔ نفیس آنٹی نے اسکالر شپ اپلائی کی تھی پی ایچ ڈی کے لیے وہ منظور ہوگئی تھی۔

فائزہ کے والد ظفر انکل تو ان لوگوں کے میٹرک کرنے کے دوران ہی آسٹریلیا گئے تھے جہاں ان کی جاب ہوگئی تھی۔ تو اب پوری فیملی کا وہاں جانا آسان تھا۔ فائزہ کے لیے بہت خوشی کی بات تھی مگر بسمہ اس خبر سے اور ٹوٹ گئی۔ صرف فائزہ ہی تھی جس سے وہ اپنے دل کی بات کر سکتی تھی۔ اس سے بات کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا مگر ایک ڈھارس تو تھی ناں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےمیاں بیوی کی بات چیت بھی معیوب، دیور بھابھی کا فحش مذاق بھی جائز؟” اپنے حق میں بولنا نہ آئے تو ہر کوئی بے عزتی کرتا ہے“ قسط نمبر 12

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments