لاشوں سے لقمے اٹھانے والے گدھ


یہ جملہ نہیں ایک طمانچہ ہے، جو ایک سیاسی رہنما نے بڑی بے رحمی سے نام لے کر ملک کے نامور ترین صحافی کو مارا ہے۔ نہ تو نام ضروری ہیں اور نہ ہی اس بحث کی اہمیت کہ کیا اپنایا گیا لب و لہجہ شائستگی اور تہذیب سے باہر تھا یا فرد کے حق آزادی اظہار رائے کے اندر۔ اصل اہمیت اس مسئلے کی ہے جس کی طرف جانے انجانے میں اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہے قومی حادثوں اور ناگہانی آفات کے دوران ہمارے میڈیا کا کردار۔

کراچی طیارہ حادثے کے بعد کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام نکال کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو ہوا بازی کے تکنیکی مسائل پر آگاہی سے لے کر ذمہ داروں کا تعین کرنے، پچھلے حادثات پر تاریخی حقائق، انکوائری بورڈ کی تشکیل، مرنے والوں کو خراج تحسین سے لے کر امداد کی رقم تک ہر موضوع پر دقیق اور پرمغز تبصرے ملیں گے لیکن مجال ہے کہ اس سب کے درمیان میڈیا کے اپنے کردار پر کچھ کہا گیا ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو قلم، کیمرے اور زبان سے دوسرے کے بخیے ادھیڑنے والے اور والیاں اتنے تو حقیقت شناس ہیں کہ خود پر تنقید نہیں کرنی، اپنے گریبان میں تو بالکل بھی نہیں جھانکنا۔ سوال کرنا اس وقت تک آسان ہوتا ہے جب تک دوسرا کٹہرے میں کھڑا ہو۔ خود پر انگلی اٹھے تو آزادی غصب ہونے کا شور مچا کر چکنی مچھلی کی طرح پھسل کر نکلنے میں ہی عافیت ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کہرام بپا ہو، ہر آنکھ اشک بار ہو، لوگ اپنوں کے زندہ یا نہ زندہ ہونے کے حوالے سے بیم و رجا کے درمیان بھٹک رہے ہوں، مرنے والوں کی شناخت ایک کربناک انسانی المیہ بن جائے، لوگ مرنے والوں کی نعشیں ڈھونڈنے کے لئے دھکے کھا رہے ہوں، تو اس ابتلا و اذیت کے وقت میں چند بے حس لوگ ا پنی ریٹنگ اور بریکنگ کے چکر میں مائیک، کیمرے اور دراز زبانیں باہر نکال کر ہمارے مرنے والوں جوانوں، بچوں اور بوڑھوں کی لاشوں پر گدھوں کی طرح جھپٹ پڑیں۔ ۔ ۔

ذرا گوگل کیجیے دو تصویریں۔ ایک جنوبی سوڈان والی وہ بدنام زمانہ تصویر جہاں ایک گدھ بھوک سے لاغر بچے کی موت کا انتظار کر رہا ہے اور جھپٹنے کو تیار بیٹھا ہے اور دوسری وہ تصویر جہاں کراچی طیارہ حادثے میں جائے حادثہ کے قریب قطار اندر قطار کیمرے لگائے ہوئے لوگ جو مرنے والوں کی جھلک دکھانے کو بے قرار ہیں کہ کس طرح وہ آن واحد میں راکھ اور ملبے کا حصہ بن گئے۔

اتنا ہی نہیں، بے حسی کے یہ مناظر صرف جائے حادثہ تک محدود نہیں، اپنے گھر میں ٹھنڈی مشین میں ٹھٹھرتے ہوئے انگریزی کے نامور ترین صحافی ٹویٹر پر طنز کے نشتر لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ پی آئی والے، لاجواب سروس والے باکمال لوگ ہیں، بس کبھی کبھی مسافر مار دیتے ہیں۔ ایک اور پڑھے لکھے، لبرل، سیکولر، آزاد خیال، روشن خیال اور پتہ نہیں کیا کیا پروفیسر صاحب اپنی کالی زبان سے مرنے والوں کو اپنی دانست میں ایلیٹ کلاس کا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہیں مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں کیوں کہ ان کے گھر والے سوگ منا رہے ہیں، یہ کافی ہے۔ یہ پڑھنے پر عرب والوں کا وہ پرانا طریقہ یاد آ گیا جب انہیں کسی کو بد دعا دینی ہوتی تو اس خطے کے لوگوں کی طرح ماں بہن کی گالیاں نہیں دیتے تھے بس اتنا کہتے تھے جا تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے۔

رہی سہی کسر ہندوستان والوں نے مرنے والوں کا مذاق اڑا کر پوری کر دی، کبھی حوروں کے طعنے اور کبھی کیا لیکن ان سے کیا گلا کہ نفرت کے جو بیج ان کے دلوں میں بو دیے گئے ہیں اس کی فصل بھی خود ہی جلد یا بدیر کاٹ لیں گے۔

وہ بہشتی بریگیڈ جو ماڈل کے مرنے پر اس کی تصویریں شیئر کر کے اس کے جنتی، دوزخی ہونے پر تبصرے کرتا رہا، اپنا اجر خود پائے گا۔ وہ ماڈل بچاری رمضان کے آخری جمعے پر مر کر آپ جیسوں کے انجام پر سوالیہ نشان لگا گئی ہے۔

نہ جانے یہ ریٹنگ اور بریکنگ کی دوڑ ہمارے میڈیا کو مزید کتنا گرائے گی۔ مسافروں کی غیر مصدقہ فہرست ہو، پائلٹ کی آخری ریکارڈنگ ہو یا ماڈل کے مرنے یا بچنے کی متضاد خبریں، کوئی حد روا نہیں رکھی گئی۔ یہ گدھ تو اتنے بے حس نکلے کہ خبر کی تلاش میں اپنے پیٹی بھائی ایک نیوز ڈائریکٹر کو بھی نہ چھوڑا اور مسلسل اس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر متضاد خبریں پھیلاتے رہے۔ اب ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا تانتا بندھا ہوا ہے لیکن جب فرصت ملے تو اس بات پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ کس طرح میڈیا والوں نے انصار نقوی صاحب کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر کے ہیجان بپا کیے رکھا۔

کراچی حادثے نے پہلے کی طرح ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ ہمارا میڈیا، سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں سے لیس، احساس اور جذبات سے عاری وہ مشین ہے جس کو صرف اور صرف ریٹنگ سے غرض ہے۔

یہ وہ گدھ ہے جو ضرورت پڑنے پر اپنی ریٹنگ کے چند ہندسوں کے لیے آپ کی اور ہماری لاشوں کے نوالے تک نوچ کھائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments