کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا


جتنے منہ ہیں، اگر گنے جاسکیں تو اتنی ہی باتیں۔ سوشل میڈیا کی والز پر وہ بھی طیارہ گرنے کے اسباب پر تکنیکی آراء دے رہے ہیں جنہوں نے کبھی جہاز چھو کر نہیں دیکھا۔ پائلٹ کی غلطی تھی، اڑان کی اجازت دینے سے قبل، سینتالیس ہزار ایک سو آٹھ گھنٹے پرواز کر چکنے والے طیارے کی مناسب پڑتال نہیں کی گئی، پرندے وجہ بنے یا کوئی دیگر معاملہ تھا، ان سب امور پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور تادیب کی کارروائیاں بھی مگر ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔

اس کا ذکر کریں تو اسباب و علل اور سائنس و منطق کے رسیا مذاق اڑایا کرتے ہیں مگر ان کی اس حرکت سے نصیب کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی صاحب۔ جناب علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ”سب معا ملے تقدیر کے آگے سرنگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے۔“

جہاز کو جب مشکل درپیش آئی تو اندر موجود عملے نے یقیناً بھرپور تدبیر کی ہوگی۔ اپنی اور اپنی ذمہ داری کے دائرے میں آنے والی جانوں کو محفوظ رکھنے کو پائلٹ کیا کیا مہارت بروئے کار نہ لائے ہوں گے مگر سب تدبیریں تقدیر کے آگے الٹی پڑ گئیں۔ یہ بھی تقدیر ہی تو ہے کہ اٹھانوے لوگوں میں سے ظفر مسعود اور محمد زبیر کی زندگی کی ڈور نہ ٹوٹ پائی۔ آپ اندازہ تو کیجئے کہ جس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی شناخت تک ممکن نہیں رہی، اسی میں دو لوگ بالکل محفوظ رہتے ہیں۔

ساٹھ ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے موٹر سائیکل سے کوئی گرے تو اس سے زیادہ چوٹیں آتی ہیں جتنی کریش ہونے والے جہاز کے مسافر ظفر مسعود کو آئیں۔ واضح ہو کہ گوگل کہتا ہے لینڈ کرتے ہوئے ائر بس 320 کی رفتار اڑھائی سے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس رفتار سے اک اڑن کھٹولا زمین سے ٹکرائے اور فقط دو لوگ ہوش و حواس میں سٹریچر پر لیٹے مسکراتے ہوں تو سبحان تیری قدرت کا جملہ زباں پہ جاری ہوتا ہے کہ نہیں۔

دیکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ کہیں کوئی تختی ضرور محفوظ ہے کہ جس پر ہر ایک کا وقت لکھا ہے، آنے کا بھی اور جانے کا بھی۔ کوئی ہے جس نے کچھ اختیار انسان کو سونپ کے باقی بڑے بڑے معاملات لکھ رکھے ہیں، رزق، جان و مال کے معاملات۔

ارادے ٹوٹتے ہیں تو اس کی پہچان ہوتی۔ جاتے رمضان کا آخری جمعہ تھا، ارادے سبھی کے اذہان میں ہوں گے کہ پونے تین بجے کراچی ائر پورٹ پر اتریں گے تو فلاں لینے آیا ہوگا، فلاں فلاں کے ساتھ افطار ہوگا، عید پر ملاقاتیں رہیں گی مگر۔ ۔ ۔ فارس کے باسی کہا کرتے ہیں ”تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ“ انسان ارادے تو باندھتا ہے مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان ارادوں پر تقدیر مسکرا رہی ہوتی ہے۔ سامنے رن وے نظر آتا ہے مگر سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار وہاں تک پہنچا نہیں پاتی۔ قائم چاند پوری نے کہا تھا

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

سینئر صحافی ہیں جناب فیاض ولانہ۔ ایک زمانے میں جب میں اسلام آباد میں ایک قومی روزنامے کا رپورٹر تھا تو یہ وہاں ڈپٹی ایڈیٹر رپورٹنگ تھے۔ اب کینیڈا کی باسی ہو گئے۔ انہوں نے لندن کے ایک پائلٹ ہارون ملک کی تحریر شیئر کی ہے۔ ولانہ صاحب اچھے وقتوں کے صحافی ہیں جب نہ ریٹنگ کی دوڑ تھی اور نہ بریکنگ کا چکر، سو وہ کچھ غیر مصدقہ شیئر نہیں کر سکتے۔ اس تحریر کا ایک ٹکڑا یہاں نقل کرتا ہوں۔ دیکھئے یہ قائم چاند پوری والے اوپر مذکور شعر کی تفسیر نہیں تو اور کیا ہے۔

”۔ ۔ ۔ اچھا طیارے کے دونوں انجن فیل ہو گئے، لینڈنگ گیئر مکمل نہیں کھل رہا تھا اسی لیے پائلٹ نے طیارے کو چکر لگوانے کا فیصلہ کیا۔ لوگ مجھ ناچیز پر ہنسیں گے لیکن یہ ایک نہایت ہی جلدبازی کا فیصلہ تھا۔ میں اس کو بے وقوفانہ فیصلہ نہیں کہتا کہ پائلٹ کی کوشش رہی ہوگی کہ لینڈنگ گیئر مکمل کھل جائے تا کہ سیف لینڈنگ ممکن ہو سکے۔

گلائیڈنگ کا حساب کتاب کیا ہے؟ تھرسٹ کے ختم ہونے کے بعد طیارے کا نیچے گرتے ہوئے آگے بڑھنے کا تناسب کیا ہے؟ یہ تناسب 10 : 1 ہے یعنی بالفرض اگر طیارہ چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس کے دونوں انجن فیل ہو جائیں تو طیارہ کسی وزنی پتھر کی طرح زمین پر نہیں آن گرے گا بلکہ ہر ایک میل نیچے آنے تک طیارہ دس میل آگے کا فاصلہ طے کرچکا ہوگا۔ اب چھتیس ہزار فٹ تقریباً 7 میل بنتے ہیں تو اس صورت میں طیارہ 70 میل تک آگے فاصلہ طے کر کے کسی قریبی ائر پورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کر سکتا ہے۔

مذکورہ (بدقسمت) طیارہ ائر پورٹ کے قریب پہنچ چکا تھا جس کی بلندی ایک ہزار فٹ سے لے کر دو ہزار فٹ تک عموماً ہوتی ہے۔ دو ہزار فٹ بلندی ہونے کی صورت میں طیارہ زمین سے 0.3787 میل اونچائی پر تھا۔ گویا اس کی گلائیڈنگ 3.787 میل یعنی چار میل کے قریب کم از کم بنتی ہے۔ جبکہ ہزار فیٹ کی بلندی کی صورت میں طیارہ 1.8935 میل یعنی دو میل کے لگ بھگ فاصلہ زمین کو چھونے سے قبل طے کر سکتا تھا۔

یاد رہے یہ ایک عمومی فارمولا ہے جو بعض حالات میں ایک آدھ فیصد کم یا چند فیصد زیادہ بھی ممکن ہے، ایکسیپشنز آر آلویز دیئر۔

جی جناب دونوں انجن فیل ہیں، وقت کم ہے مزید ہائیٹ آپ لے نہیں سکتے تو طیارے کو ٹرن اراؤنڈ کروانا ایک مہلک اور غلط فیصلہ ہے۔ آپ کو چاہیے کہ ائر پورٹ کے رن وے پر بیلی لینڈنگ کروانے کا مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ لیں۔ یہ ایک مشکل لیکن آخری حل ہے۔ یہ اتنا زیادہ خطرناک نہیں جتنا سننے میں لگتا ہے۔ ممکن ہے رگڑ کی وجہ سے طیارے میں آگ لگ جائے لیکن ائر پورٹس پر فائر بریگیڈ کا عملہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ تمام مسافر بشمول عملہ بچ جاتے یا شاید چند افراد اپنی جان سے جاتے لیکن یہی آخری حل تھا۔ ”

بہرحال یہ میدان سے دور بیٹھے سپاہی کا تجزیہ ہے۔ جو میدان میں مخالف ہواؤں کا سامنا کر رہا ہوتا ہے، اصل حالات تو اسی کو پتہ ہوتے ہیں، اور کون سپاہی ہوگا جو دانستہ غلطی کا ارتکاب کر کے اپنی جان دینے کے اسباب پیدا کرے۔ اللہ پاک مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments