میرا بچپن، میرے جگنو، میری گڑیا لا دو


بچپن کا دور کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے یادگار دور ہوتا ہے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ وہ قیمتی متاع ہے جس کے کھونے کا اور دوبارہ نہ پا سکنے کا دکھ اسے ساری زندگی رہتا ہے۔ بچپن کا دور بے فکری کا دور ہوتا ہے۔ جو خوشیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس دور میں اگر دکھ بھی ملیں تو ہنس کر سہنے اور انہیں دل سے نہ لگانے کی عجیب خاصیت انسان میں موجود ہوتی ہے۔ بچپن کی اہمیت تب سمجھ آتی ہے جب ہم بچپن کی دہلیز پار کر چکے ہوتے ہیں۔ بچپن ہماری حسین یادوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ یادوں کی وہ پٹاری ہے جسے ہم تا مرگ سنبھال کر رکھتے ہیں۔ کہنے کو تو بچپن چار حروف کا مجموعہ ہے مگر یہ اپنے اندر ایک الگ ہی دنیا رکھتا ہے۔ بقول شاعر

کون کہتا ہے وقت دہراتا ہے اپنے آپ کو
گر یہ سچ ہے تو میرا بچپن تو لوٹائے کوئی

میرا بچپن بھی حسین یادوں کا ایک مجموعہ ہے۔ بچپن میں میں نے چھوٹی موٹی شرارتیں اور لڑائی جھگڑے تو بہت کیے مگر کوئی بڑا ایٹمی دھماکہ کرنے میں ناکام رہی کہ ایسی کوئی شرارت نہیں کی کہ جسے بتانا ممکن نہ ہو۔

میرا بچپن بے فکری، فراغت، آزادی، خوشی، قہقہوں اور کچھ غموں کا امتزاج رہا۔ میں والدین کی محبت کا مرکز رہی اور دکھوں سے آزاد۔ تب اپنی الگ ہی دنیا تھی میری۔ آزادی کا الگ احساس تھا۔ بچپن میں اس بات کی فکر نہیں تھی کہ ”لوگ کیا کہیں گے“ ۔ خود کو تیس مار خان سمجھتی تھی۔ بقول شاعر

ہم سا کوئی نہیں ہے دنیا میں
ہاں یہ غالب گماں تھا بچپن میں

بچپن میں مجھے بھی یہ غلط فہمی تھی کہ چاند پر ایک بڑھیا دن رات چرخا کاتتی رہتی ہے۔ اکثر گھنٹوں چاند کو تکا کرتی کہ شاید مجھے وہ بڑھیا کبھی نظر ہی آ جائے مگر ہمیشہ ناکام رہی۔

مٹی کا گلا خرید کر پیسے جمع کرنے کا بھی مجھے بہت شوق تھا۔ پہلے کوئی ہدف مقرر کر لیتی کہ پیسے جمع کر کے کرنا کیا ہے پھر چھوٹے سائز کا گلا خریدتی جسے بھرنے پر توڑ دیتی اور پیسوں سے مطلوبہ شے جو کوئی کھلونا ہی ہوتا خرید لاتی۔

بہن بھائیوں، سہیلیوں سے لڑنا جھگڑنا اور پھر فوراً صلح کر لینا میری عادت تھی۔ دل میں کدورت نہ رکھتی، ظاہر و باطن ایک سا رکھتی۔ والدین سے ضد کر کے باتیں منوانا اور پھر فخر سے سب کو بتانا کہ کیسے امی ابو نے میری بات مان لی۔ بچپن میں جہاں جب جس بات پر دل کیا ہنس لیا یا رو لیا۔ دکان پر جا کر پاکٹ منی سے پسند کی آئسکریم خریدنا اور گلی میں کھڑے ہو کر کھانا میری عادت تھی۔ تب دو روپے کی بوتل مل جاتی تو وہ بھی کبھی کبھار پی لیتی۔ گلی میں آلو چنے، دہی بھلے، چورن اور پاپڑوں والے سے چیزیں خرید کر کھانا میری عادت تھی۔

اس دور میں پتنگ بازی پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ایک روپے میں بھی چھوٹی پتنگ مل جاتی تھی تو میں بھی پتنگ خرید کر چھت پر جا کر اڑاتی، پیچا لگانے کی کوشش میں ہمیشہ میری پتنگ کٹ جاتی کہ میں اتنی ماہر پتنگ باز نہ تھی اور میری ڈور بھی سستی سی ہوتی تھی۔ پتنگ لوٹنے کی کوشش ہمیشہ کرتی پر کامیابی شاذ و نادر ہی ملتی۔ بسنت کے لیے ہم بہن بھائی پیسے جوڑ کر کچھ پتنگیں خرید لیتے اور پھر اسے خوب دھوم دھام سے مناتے۔

بسنت پر محلے کے کچھ گھر ڈیک پر سارا دن گانے لگائے رکھتے جس میں فریحہ پرویز کا بسنت کا گانا ”دل ہوا بو کاٹا“ تو بار بار لگایا جاتا۔ مجھے آج بھی یہ گانا بہت پسند ہے۔

کرکٹ اور سٹاپو میں اکثر کھیلتی۔ اس کے علاوہ گڑیا سے کھیلنا مجھے پسند تھا۔ ایک بار تو اپنی گڑیا کی شادی بھی میں نے اپنی سہیلی کے گڈے سے بہت دھوم دھام سے کی اور گڑیا کو رو دھو کر رخصت کیا۔

بچپن میں میرے گھر کے قریب میلہ لگتا تھا۔ جس کا انتظار ہمیں سارا سال رہتا۔ جیسے ہی میلہ لگنے کی خبر ملتی ہم سب بہن بھائی ابو کے ساتھ پیدل میلے کی طرف چل پڑتے جہاں سے ہم سب کھلونے خریدتے۔ میں خاص طور پر چائے کا چھوٹا سیٹ خریدتی۔ مٹی کے برتن تو ہم لازمی خریدتے۔ وہاں موت کا کنواں دیکھتے جس میں موٹر سائیکل سوار کو بے فکری سے موت کے کنویں کے اندر موٹر سائیکل چلاتا دیکھ کر عش عش کر اٹھتے، چڑیا گھر دیکھتے۔ سرکس چاہ کر بھی کبھی نہ دیکھ سکے۔ ہاں جھولے ضرور لیتے۔ واپسی پر کھانے کے لیے کتلمہ ضرور خرید کر لاتے کہ یہ صرف میلے سے ہی ملتا تھا۔ ابو کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے ہم غیر معیاری اور سستی اشیاء ہی خرید پاتے مگر پھر بھی خوشی خوشی میلے سے واپس آتے اور سب کو اپنی خریدی اشیاء دکھاتے۔

تب روز سکول جانا مجھے پسند نہ تھا۔ خاص طور پر صبح اٹھنا مجھے سخت نا پسند تھا۔ موسم گرما کی چھٹیوں کا خاص طور پر انتظار کرتی کہ تب ہم ٹرین میں بیٹھ کر ملتان نانی امی کے پاس جاتے۔ ٹرین کا سفر اور راستے میں چٹ پٹی چیزیں کھانا مجھے بہت پسند تھا۔ میں ہمیشہ لڑ جھگڑ کر کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتی کہ باہر کا نظارہ کر سکوں۔ نانی امی اور خالہ سے کہانیاں سننا پسند تھا اور میں فرمائش کر کے کچھ کہانیاں بار بار سنتی۔

جب تک وہاں رہتے نانا ابو سے پاکٹ منی بھی روز لیتے۔ ملتان جا کر آم اور فالسے کے باغوں کی سیر کرنا بھی مجھے بہت پسند تھا اور ہم سب بہن بھائی ابو کو زبردستی ساتھ لے کر اس سیر کو نکل پڑتے۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہونے سے کوئی دو ہفتے پہلے مجھے اچانک اپنا چھٹیوں کا کام کرنے کی یاد آجاتی جسے طوعا و کرہا چھٹیوں کے خاتمے سے پہلے مکمل کرتی تاکہ استانیوں کے سامنے سرخرو ہو سکوں۔ سکول فری بچپن گزارنا میرا خواب تھا جو پورا نہ ہو سکا۔

بچپن میں پہلے تو رمضان کا انتظار رہتا پھر عید کا ۔ روزے میں تب نہیں رکھتی تھی۔ رمضان میں سحری و افطاری کرنے میں سب سے پھرتیلی تھی۔ ہاں چڑی روز رکھ لیتی۔ اس دور میں عید کارڈ کے بغیر عید ادھوری ہوتی۔ میرے سکول اور گھر کے قریب طرح طرح کے خوبصورت عید کارڈ سستے داموں مل جاتے۔ تو عید کارڈ کے انتخاب اور خریداری کا مشکل مرحلہ طے کرنے کے بعد سب سہیلیوں کو مزاحیہ اشعار اور دعائیں لکھ کر بھیجتی اور بدلے میں مانگ کر ان سے عید کارڈ وصول بھی کرتی۔

عید پر امی جو بھی جوڑا لا دیتیں وہی میرے لیے دنیا کا سب سے حسین جوڑا ہوتا۔ جسے عید سے پہلے بار بار دیکھنا میری عادت تھی۔ چاند رات پر عید کے چاند کی تلاش شام سے ہی شروع کر دیتی۔ دادا ابو کہتے رہ جاتے کہ عید کا چاند پہلے لڑکے دیکھتے ہیں پر ان کی سنتا کون تھا۔ لہذا سب سے پہلے میں چاند دریافت کرتی اور سب کو دکھاتی۔ عید بھی اچھی ہی گزر جاتی ہماری۔

مطالعے کا شوق بچپن سے تھا۔ تب پاکٹ منی سے عمر و عیار، ٹارزن اور جنوں پریوں کی کہانیاں خرید کر پڑھتی۔ میرے پاس بہت سی ایسی کہانیاں جمع تھیں۔ ایک سہیلی سے کبھی کبھار ”عنبر ناگ ماریا“ اور عمران سیریز کی کوئی کہانی پڑھنے کومل جاتی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا۔ خالہ کے گھر جاتی تو وہاں سے بچوں کے پرانے ماہنامے لے آتی کہ ان کے گھر ہر ماہ بچوں کے رسالے ان کے بچوں کے لیے آتے تھے۔ سکول میں ہمیشہ اول آتی مگر وہاں جھگڑے بھی بہت ہوتے۔ ہوم ورک کرنا پسند نہ تھا تو اس کے لیے ہر بار نیا بہانہ بناتی۔

تب چوزے خرید کر پالنا مجھے بہت پسند تھا۔ گلی میں چوزوں والا آتا تو چوزے خرید لیتی اور ان کا بہت دھیان رکھتی مگر پھر بھی ان میں سے چند ایک ہی زندہ بچ پاتے باقی مر جاتے۔ مرنے والے چوزے کو باقاعدہ مروج طریقے کی نقل کرتے ہوئے دفن کرتی۔ بچنے والے چوزے بالغ ہوتے ہی دادا ابو جن کی شروع دن سے ہی ان پر نظر ہوتی کے ہاتھوں امی ابو کی ملی بھگت سے میری مرضی کے خلاف ذبح ہو کر سالن کی شکل اختیار کر لیتے۔ جس پر رونا دھونا بے کار جاتا۔

بچپن میں ”عینک والا جن“ ڈرامہ مجھے بہت پسند تھا۔ اس کی کوئی قسط کبھی نہ چھوڑتی۔ تب جنوں، پریوں اور بھوتوں پر مجھے ایمان کی حد تک یقین تھا اور بہت خواہش تھی کہ مجھے بھی کبھی کوئی جن بھوت دیکھنے کا موقع ملے۔

کاغذ کے جہاز بنا کر اڑانا، مٹی اور ریت کے گھروندے بنانا، کاغذ کی کشتیاں بنا کر پانی میں چلانا مجھے بہت پسند تھا۔ بارش برستی تو سب سہیلیاں بارش انجوائے کرنے، کھیلنے اور نہانے کے لیے جمع ہو جاتیں۔

اس دور میں شادی ہالز کا زیادہ رواج نہ تھا تو شادی کی تقریبات محلے میں ہی ٹینٹ لگا کر کی جاتیں۔ تو جیسے ہی کوئی بارات آتی میں سہیلیوں کے ساتھ پیسے لوٹنے کے لیے دوڑ لگا دیتی، کبھی کبھار ہی کچھ پیسے لوٹ پاتی اور ان سے مزے کی چیزیں خرید کر گھر سے باہر ہی کھا لیتی، امی کو اس کارروائی کا پتا چلتا تو خوب ڈانٹ پڑتی تبھی یہ چھپ چھپا کر کرتی۔ اکا دکا بار شادیوں پر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کا بھی موقع مل جاتا۔ اس کھانے کا مزہ ہی الگ ہوتا کہ چوری کے پھل ہمیشہ میٹھے ہوتے ہیں۔

بچپن میں زمانہ حال کو ہی انجوائے کرتی، کبھی یہ نہ سوچا کہ مستقبل کا کیا بنے گا۔ بے وجہ کی سوچوں، پریشانیوں اور تفکرات سے آزاد تھی زندگی۔ پلے دھیلہ نہ بھی ہوتا توبھی غم نہ ہوتا۔ سستے کپڑے پہن کر بھی دکھ نہ ہوتا۔ ہر طرح کے دکھاوے اور خود نمائی سے پاک زندگی تھی۔ خود کو دوسروں کی بجائے اپنی نظر سے دیکھتی دنیا میرے نزدیک تب بہت خوبصورت تھی اور میرے ماں باپ میرا کل اثاثہ۔ بقول شاعر

کم سنی کیا کمال ہوتی ہے
میں تو ایک کہکشاں تھا بچپن میں

تب حالات بہت اچھے تھے اور بچے آج سے زیادہ محفوظ۔ تبھی مجھ پر والدین نے کبھی کوئی پابندی نہ لگائی۔ میرے بارے میں والدین کو پریشانی لاحق نہ تھی کہ جانے بچی کے ساتھ کب کیا ہو جائے۔ شام اور رات کو بھی گلی میں کھیلنا اور سہیلیوں کے گھر جانا معمول تھا۔

بچپن کے دور کا آج کے دور سے موازنہ کروں تو بچپن اور زیادہ حسین لگتا ہے۔ تب زندگی بہت سادہ تھی۔ اب بچپن جیسی بے فکری میسر نہیں۔ زندگی بھاگ دوڑ، افراتفری اور غم روزگار سے پر ہے۔ اب رشتوں ناتوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر خلوص و محبت نہ رہی۔ ہر طرف لالچ، بغض، عناد، بے ایمانی افراتفری کا دور ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہے کہ سوچنے تک کا وقت نہیں۔ خود کو اپنی بجائے دوسروں کی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر

اے بچپن تو کہاں کھو گیا ہے
یا کہہ دے تو اب بڑا ہو گیا ہے
میرا بچپن ایک حسین یاد کی طرح تا مرگ میرے ساتھ رہے گا کہ یہی میرا بہترین سرمایہ حیات ہے۔

اگر مجھے الہ دین کا چرغ ملا تو میں اس سے یہ خواہش ضرور کروں گی کہ مجھے بچپن کے دور میں لے جائے اور دوبارہ اپنا بچپن جینے دے۔ کاش میں پھر سے بچپن کو جی سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments