فواد کا فساد اور مفتی منیب کا حساب


ہر عید رمضان پر چاند دکھائی دینے پر فساد برپا ہوتا ہے۔ ہر بڑے گروہ کو دوسرے گروہ کا چاند دکھائی نہیں دیتا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب اپنا چاند اس وقت دیکھتے ہیں جب ان سے ایک دن قبل ہی پشاور کی مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اپنا چاند دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ کئی وزیرستانی علما تو مفتی پوپلزئی سے بھی ایک دن قبل چاند دیکھنے میں کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ یوں ہی خیر خوبی سے چل رہا تھا کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی اس دعوے کے ساتھ اس میں کود پڑے کہ چاند اور دیگر خلائی مخلوقات ان کی وزارت کے تحت آتی ہیں اور وہی انہیں ٹھیک سے دیکھنے پر قادر ہیں۔

جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، ہمارا دل فواد چوہدری کے ساتھ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ سائنس اتنی زیادہ ترقی کر چکی ہے کہ عام دوربین سے دکھائی نا دے پانے والے سیارچے پلوٹو تک کے چال چلن کو جانچ کر اس تک خلائی جہاز پہنچا دیتی ہے تو چاند کی دیکھ پرکھ اس کے لیے کیا مشکل ہے۔ پلوٹو تو زمین سے ساڑھے سات ارب کلومیٹر دور تک پہنچ جاتا ہے جبکہ چاند محض پونے چار لاکھ کلومیٹر دور ہے۔ اگر خلائی جہاز کو راستہ بتانے کا حساب کتاب مفتی منیب یا پوپلزئی کے سپرد کر دیا جائے تو ان کا بھیجا گیا جہاز چاند سے چوبیس گھنٹے پہلے یا بعد میں لق و دق خلا میں ہونق بنا کھڑا ہو گا کہ ”میاں چاند کہاں گیا؟ مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی کے شرعی گواہوں کے مطابق تو اسے یہیں ہونا چاہیے تھا۔“

لیکن ہمارا دماغ مفتی منیب کے ساتھ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ریاست نے مفتی منیب کو باوجود ضعیف العمری چاند دیکھنے پر مامور کر دیا ہے تو پھر ان کا چاند کا اعلان ہی معتبر ہے خواہ اس میں چوبیس گھنٹے کی کمی بیشی ہی کیوں نا ہو جائے۔ ہم حکومتی رٹ ماننے کے قائل ہیں کہ قرآن میں اولی الامر کا حکم ماننے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس تابعداری کے سلسلے میں ایک واقعہ یاد آتا ہے جب ہم نے حکومتی اعلان کو مانتے ہوئے اٹھائیس روزوں کے بعد عید کر لی تھی۔

یاد پڑتا ہے کہ مرکز میں پیپلز پارٹی اور صوبہ سرحد میں اے این پی کی حکومت کا پہلا رمضان تھا۔ مفتی منیب کے چاند سے ایک دن پہلے ہی مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے پشاوری چاند دیکھ کر رمضان شروع کروا دیا۔ عید کے چاند تک پہنچتے پہنچتے صوبائی حکومت نے مرکز کو قائل کر لیا کہ ملک میں عید ایک دن ہونی چاہیے۔ اب مفتی پوپلزئی تو غالباً اپنا چاند بدلنے پر راضی نہیں ہوئے یا اے این پی والوں کو ان پر زیادہ اعتبار تھا، اس لیے مفتی منیب کا چاند بدلوا دیا گیا اور ہم لاہوریوں نے اس وقت عید کر لی جب پشاور میں انتیس اور باقی پاکستان میں اٹھائیس روزے ہوئے تھے۔ بعد میں انتیس پورے کرتے پھرے۔

بات مفتی پوپلزئی کی آ گئی ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارا دل فواد چوہدری اور دماغ مفتی منیب کے ساتھ ہے تو ہمارا جگر مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہیں۔ مسجد قاسم خان تو سکھوں کے دور سے رویت ہلال کا اعلان کرتی آئی ہے تو اب وہ اپنے اختیار پر سمجھوتہ کیسے کرے؟ اب کیا سکھوں سے زیادہ سمجھدار حکومت آ گئی ہے جو اس پر اعتبار کیا جائے؟ صدقے اس سائنسی انداز کے جس سے وہ گواہوں کو پرکھتے ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ مفتی پوپلزئی صاحب، چاند کے باقی ماندہ دو خواستگاروں کے مقابلے میں اتنے ہی زیادہ گڈ لکنگ ہیں جیسے ستاروں کے مقابل شہاب ہوتا ہے، نظر ٹک ہی نہیں پاتی شہاب کے رخ روشن پر اور اس کے آتے ہی ستارے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔

لیکن چاند کے بارے میں سائنس سے پہلے معاملہ آتا ہے شریعت کا۔ مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی کے باب میں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ شرعی طور پر کون پہلا اور کون دو نمبر ہے لیکن اس میدان میں فواد چوہدری بہرحال تیسرے نمبر پر ہی آتے ہیں۔ ان کی وزارت کا سائنسی علم چاہے جتنا بھی زیادہ ہو، لیکن ان کی شرعی کم علمی حال ہی میں آشکار ہو گئی۔

ہماری طرح وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ نماز کے بارے میں سوال کرنے کا اختیار صرف منکر نکیر کو دیا گیا ہے، اب انہیں اور ہمیں علم ہوا کہ نماز کے بارے میں سوال کرنے کا اختیار منکر، نکیر اور مفتی منیب کے پاس ہے۔ ٹی وی پر مفتی منیب نے اپنا اختیار استعمال کر ڈالا اور پوچھ لیا ”وہ (فواد چوہدری) حلفیہ قوم کو بتائیں کہ کتنی نمازیں انہوں نے پڑھیں، کتنے روزے انہوں نے رکھے“ ۔

اس سوال سے یہ عقدہ بھی حل ہو گیا کہ کفار کی خلائی تحقیق کو اس وقت تک درخور اعتنا اور قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا جب تک وہ مسلمان ہو کر حاجی نمازی نا ہو جائیں۔ اس لیے ہبل ٹیلی سکوپ اور ناسا کے دعووں پر ہرگز اعتبار مت کریں کہ خلا میں فلاں مقام پر یہ ہو رہا ہے، یا ہمارا خلائی جہاز چاند، مریخ یا پلوٹو پر پہنچ چکا ہے۔

نیز جو پاکستانی پنج وقتہ نمازی نہیں ہیں اور انتیس تیس روزے نہیں رکھتے، مفتی منیب نے ان کے بارے میں فتویٰ دیا ہے کہ عید سے ان کا کوئی تعلق رشتہ نہیں ہے۔ مفتی صاحب کے الفاظ یہ ہیں۔ ”یہ عید ان کا کام ہے جو روزے رکھیں، جو نمازیں پڑھیں، وہ حلفیہ قوم کو بتائیں کہ کتنی نمازیں انہوں نے پڑھیں، کتنے روزے انہوں نے رکھے، ان کا عید سے کیا رشتہ بنتا ہے؟“

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments