بے اوقات لوگ


ابے تیری اوقات کیا ہے؟ یہ وہ جملہ ہے جو برصغیر پاک و ہند میں تواتر کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ چند دن پہلے جب اک کرنل کی بیگم نے یہ الفاظ کہے تو ساری قوم سیخ پا ہو گیٴ۔ قوم کا یہ غصہ دیکھ کر اچھا لگا۔ اس واقعہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ یہ اوقات آخر کیا بلا ہے جو اس خطے کے لوگوں کے دل و دماغ میں اتنی گہری سرایت کر چکی ہے کہ جس کو دیکھو وہ ہی اپنی حیثیت اور اعلی ذات کی دھونس جماتا نظر آتا ہے۔

اگر سائنس کے تناظر میں دیکھا جائے تو بنی نوع انسان کا ڈی این اے افریقہ کے ابتدائی لوگوں سے لے کر ہمارے موجودہ آبا و اجداد تک کی پوری تصویر کشی کرتا ہے۔ جس خطے کے ہم باسی ہیں اس کی ساری نسلیں ایران، ترکمانستان اور دیگر اقوام کے جینوم کا اک ملغوبہ ہیں جو جنیاتی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے۔ گزشتہ پانچ ہزار سال پرانی موہنجوداڑو تہذیب کا یہ گہوارہ بہت سارے حملہ آور گروہوں اور چرواہوں کا مسکن رہا ہے۔ اگر ماضی قریب کی بات کریں تو مغل اور انگریز تو کل کی باتیں لگتی ہیں۔

ہوا یوں کہ تاریخ کے اک موڑ پر کچھ گروہ دوسروں پر طاقت سے غالب آ گئے تو قدیم ہندو روایات کے تحت اک ذات پات کا نظام متعارف کروایا گیا۔ جس سے اچھوت، شودر، چوہڑا اور چمار گروہ بنے اور انسانی تاریخ کا اک استحصالی نظام رائج ہوا۔ زمین اور جائیداد پر صرف مخصوص ذاتوں کے مکمل اختیار نے اس نظام کو استحکام بخشا۔ اس تاریخ سے سبھی واقف ہیں مگر چونکہ سائنس کہ ساتھ ہمارا عمومی رویہ محض اک یوزر کا ہے جو سائنسدانوں کی بنائی ہوئی اشیاٴ کے استعمال تک محدود ہے نا کہ سائنسی استدلال کو روز مرہ زندگی میں لاگو کرنے والوں کا، تو سائنس کی اوقات بھی محض گاڑی اور فون کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ معاشی اور معاشرتی اقدار میں ہم سائنسی شعور، فکر اور آگاہی کو دخل اندازی کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ ساتھ عربی بننے کا اک عجیب سا بخار بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔

چھوت چھات کا جو نظام تقسیم ہند سے پہلے تھا وہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کہ ساتھ نا صرف رائج ہے بلکہ اس میں ایک اسلامی مذہبیت اور انتہا پسندی کی نئی شکل نکل آئی ہے جس کے تحت اقلیتوں کے ساتھ ناروا انسانی سلوک کو مذہبی فریضہ کے روپ میں ڈھالا جا رہا ہے۔ کرسچن اور ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور سیلانی ٹرسٹ کی جانب سے اقلیتوں کو صرف مذہبی بنیاد پر راشن نا دینا، اس نفرت اور تعصب کی ہی نئی جہتیں ہیں۔

متحدہ ہند میں اعلیٰ ذات ہندو مسلمانوں کو بھی اچھوت ہی سمجھتے تھے اور مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں سے نفرت اب جدید اور مکرہ شکل میں ہر روز انسانی درندگی کی نئی روایات ڈال رہی ہے۔ مگر آزادی کے بعد وہی مسلمان جو متحدہ ہندوستان میں اچھوت سمجھے جاتے تھے (اکثریت جو غریب طبقات پر مشتمل تھی) انھوں نے اپنے اندر چھوت چھات ڈھونڈ لیے۔ مسلمانوں کا اک مخصوص طبقہ جو زرعی زمین اور وسائل پر قابض ہے وہ ہمیشہ سے حکمران رہا ہے اور آج بھی حکمران ہے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اک اعلی النسل انسان ہونے کا خبط دیگر اقوام کی طرح ہمارے ہاں بھی بکثرت پایا جاتا ہے۔ کرنل کی بیوی بس دیگ کا اک دانہ ہے جو ساری دیگ کا ذائقہ بتاتا ہے۔ خاندانی نواب اور زمیندار تو ایک طرف اب تو وہ لوگ بھی جو معاشی ترقی کر کے یا سرکاری عہدے، جیسا کہ کرنل وغیرہ، بن کر اک نئی جون اپنے اوپر سجا لیتے ہیں اور باقی لوگوں کو نیچ گرداننا شروع کر دیتے ہیں اعلی النسل ہونے کے بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی اک تازہ مثال عظمیٰ خان کی ایف آئی آر کے مطابق ملک ریاض کی بیٹیوں کا دو اداکار بہنوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی ہے۔

اگر مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو آپ ہر روز یہ لیکچر سوشل میڈیا اور ٹی وی پر سنتے ہیں جس میں مذہبی سکالر حضرت بلال کے کالا ہونے اور انتہائی اہم صحابی ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ سکول سے لے کر مدرسوں اور مسجدوں تک کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں کا روح پرور پیغام بھی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ دین کی بتائی ہوئی انسانی اقدار کا علم نہیں یا یہ پتہ نہیں کہ مساوات پر مبنی معاشرہ کیا ہوتا ہے۔

بلکہ جتنا مذہبی دکھاوا اور نمود و نمائش ہمارے خطے میں مذہبی ہونے میں برتی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ہو۔ آپ کو نا چاہتے ہوئے بھی مذہبی ہونے کا ڈھونگ رچانا پڑتا ہے کیونکہ اب تو اس ملک میں صرف وہی بکتا ہے جس پر مذہب کا ٹھپہ لگا ہو۔ پورا رمضان اک ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ ہر طرف سوائے مذہبی دکھاوے کے کوئی اور چیز نظر نہیں آتی مگر جب بات عمل پر آتی ہے تو ہم حادثے کا شکار لوگوں کے زیور تک اتار لیتے ہیں وہ بھی عین رمضان کے مہینے میں۔

جو بات ہمارے رویوں سے عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دین داری اور دنیا داری دو الگ چیزیں ہیں اور ہمارا معاشرہ ان کو یکجا کرنے کا گناہ بہرحال ابھی یا مستقبل قریب میں کرتا ہوا تو نظر نہیں آتا۔

لہٰذا درس و تدریس کی حد تک تو محمود و ایاز ایک ہو سکتے ہیں اور نماز کی حد تک اک صف میں بھی کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر حقیقی دنیا میں تو کمی، کمی کمین ہی رہے گا ناں۔ اب ان دو ٹکے کے لوگوں کو صرف مذہب کی تعلیمات کی وجہ سے سر پرتو نہیں بٹھایا جا سکتا۔ خاندانی بھی کسی چڑیا کا نام ہے کہ نہیں؟ اب اس خطے کا قدرت نے یا روایات نے جو بھی آپ سمجھو، اک قانون بنایا ہے کہ نائی کی اولاد اگر جج بھی بن جائے تو وہ نائی ہی رہے گا۔

اور اگر اک کرسچن چاہے اسمبلی کا ممبر ہی کیوں نا ہو وہ چوہڑا ہی پکارا جائے گا۔ ویسے چوہڑے سے یاد آیا کراچی میں ان کو بھنگی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اب ان حالات میں یہ جو اقلیت والے اور موم بتی گروہ روز و شب برابری اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہماری مذہبیت کو بلاوجہ کے کچوکے لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کو کرنل کی بیوی سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ اگر اک مسلمان پولیس افسر کی کرنل کی بیوی کے سامنے کوئی اوقات نہیں تو ان کرسچن اور ہندوؤں کی کیا اوقات ہو گی بھلا۔ یہ تو بے اوقات سے بھی زیادہ بے اوقاتے ہیں۔

تو حضور چوہڑا چوہڑا ہی رہے گا چاہے وہ جتنا مرضی پڑھا لکھا ہو اور اعلی انسانی اقدار پر عمل پیرا ہو۔ باقی جو مسلمان کمی کمین ذاتیں ہیں ان کو بھی اپنی اوقات میں ہی رہنا چاہیے۔ مذہب اک ذاتی معاملہ ہے مگر ذات پات اک معاشرتی معاملہ ہے اور معاشرتی دائروں کو توڑنا معاشرے میں سوائے خرابی کہ اور کیا پیدا کر سکتا ہے۔ اب اگر ہر انسان دوسرے انسان کہ برابر ہو گیا تو خاندانی تفاخر کدھر جائے گا؟

لیکن اگر دنیا پر نظر ڈالیں تو اک چیز بڑی واضح ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ خاندانی تفاخر اور شان کا تعلق زماں و مکاں سے ہے۔ کل کا اک معمولی کلرک وقت کی کروٹ سے پورے پاکستان کا مالک بن جاتا ہے اور کوئی ادارہ اس کے اور اس کے بچوں کے سامنے اف نہیں کر سکتا۔ تو مال و دولت اور اک خاص ادارے کا عہدہ آپ کی حیثیت بدل سکتا ہے مگر یہ سہولت کسی مقامی مذہبی اقلیت کو حاصل نہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ خاندانی تفاخر کا جغرافیہ بدل دیں تو اوقات والے بے اوقات ہو جاتے ہیں کیونکہ دوسرے علاقے کے اوقات متعین کرنے کے رولز ہی مختلف ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ سڈنی آسٹریلیا کو لے لیں۔ یہاں ساؤتھ ایشیا سے آئے ہوئے سبھی لوگ بے اوقاتے ہیں۔ کام کو نسل سے جوڑ کر اک نسل در نسل تعصب سے گورے تو چھٹکارا پا چکے ہیں مگر براوٴن اور پیلی رنگت سے تعصب کو ابھی تک یہ بھی ختم نہیں کر پائے۔ اک کرسچن دوست ایک نوکری کے انٹرویو پر بلائے گئے۔ نام تھا ٹونی۔ مگر جب انٹرویو کے لئے پہنچے تو انہوں نے بنا انٹرویو کیے ہی چلتا کیا کہ ان کا ٹونی گورا ہونا چاہیے تھا یہ دیسی ٹونی کہاں سے آ دھمکا۔

اب اگر کام کو ذات اور تعصب کی آنکھ سے دیکھا جائے جیسا کہ ہمارے ہاں چلن ہے اور ذریعہ معاش پر پاک و ہند والے لیبل چسپاں کیے جائیں تو ساوتھ ایشن آسٹریلیا میں کچھ یوں نظر آتے ہیں۔ کہ کراچی کا شیخ سڈنی کا بھنگی ہے اور پنجاب کا جٹ یہاں کا چوہڑا۔ دہلی کا برہمن جھاڑو لگاتا ہے لہذا وہ ٹھہرا اچھوت اور کھٹمنڈو کا پنڈت کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے تو وہ ہوا شودر۔ پشاور کا پٹھان یہاں ٹیکسی چلاتا ہے اور ہر روز نیم برہنہ اور شراب کے نشے میں مست گوریوں کو ا نکے گھروں پر رات کے آخری پہروں میں بحفاظت چھوڑ کر آتا ہے اور اس کی مردانگی جو پشاور میں بوری برقعے میں بند عورت کو دیکھ کر بے قابو ہوئی ہوتی ہے وہ یہاں دھنیا پی کر سوئی رہتی ہے۔

نا غیرت کو کوئی مسئلہ ٔ ہے نا ایمان کو۔ مگر چوہڑا۔ اور بھنگی کا لقب اس معاشرے میں نہیں ہے لیکن ان ساؤتھ ایشنز کو تو پتہ ہے کہ جب یہ خود بیس ڈالر فی گھنٹہ پر صفائی کر کے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے کے بعد اپنے گھر والوں کو پاکستان یا انڈیا میں فون کرتے ہیں تو اپنے گھر اور محلے میں صفائی کرنے والی ماسی کو بھنگن اور چوہڑی ہی بلاتے ہیں۔ مگر سڈنی میں کام چونکہ انسان کی اوقات کا تعین نہیں کرتا کیونکہ انسان کی اوقات اس کے ظرف اور کردار میں ہوتی ہے نا کہ اس کی دولت اور روزی روٹی کمانے کہ ذریعہ میں، تو سڈنی میں سبھی جھاڑو لگا کر اور کوڑا کرکٹ اٹھا کر بھی خوش ہیں اور یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا آنے کے لیے اپنی ساری مذہبیت کے باوجود سگی بہنوں کہ ساتھ پیپر میرج کو بھی برا نہیں سمجھتے۔

ان حالات میں بطور اک پاکستانی کرسچن میں ان بڑی اوقات والوں سے ہمدردی رکھتا ہوں کیونکہ اکثر ان پنڈتوں، جٹوں اور اعلی نسل ساؤتھ ایشیائی اوقات والوں کو جب گورے اسی حقارت اور تعصب سے نوازتے ہیں اور آئے روز ان کو ان کی اوقات یاد دلاتے ہیں جو یہ میرے اور میرے جیسے بہت سارے کمی کمین کرسچن، ہندو اور مسلمانوں کو ہر روز کرنل کی بیوی کی طرح جتاتے ہیں۔

جب کسی نقاب پوش خاتون کا اس وجہ سے مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ جب کسی ہندو پنڈت کے سر پر بالوں کی چوٹی کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ جب سکھ سردار کی پگڑی کو زبردستی اتارا جاتا ہے۔ جب ان کی بہنیں اور بیٹیاں آسٹریلوی شہریت کے لیے اپنا مذہب تبدیل کر کے اپنے سے پچاس پچاس سال بڑے بوڑھے گوروں سے شادیاں کرتی ہیں اور چند سال بعد طلاق لے کر پھر اپنے ہی کسی مسلمان اور ہندو شوہر کو شہریت دلوا کر دھتکاری جاتی ہیں کیونکہ وہ ”اپنا“ ان کو طلاق دے کر کسی اور نوجوان عورت سے شادی کر لیتا ہے۔ تو پھر ان کا دکھ مجھے اپنا دکھ لگتا ہے۔ پھر مجھے خدا کہ اس قانون پر بھی یقین ہو جاتا ہے کہ جس پیمانے سے تم دوسروں کو ناپتے ہو تم بھی اسی سے ناپے جاؤ گے۔ اور جیسا سلوک تم دوسروں سے کرتے ہو تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا۔ وقت اور جگہ کے بدلاؤ سے اوقات بدل جاتی ہے۔ ظالم مظلوم بن جاتے ہیں۔

کہتے ہیں دکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب میں ان اعلی النسل لوگوں کو ٹوٹے، دکھی، زخمی اور بوجھل روز اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو پھر یہ سبھی مجھے اپنے جیسے لگتے ہیں اقلیت، مظلوم، لاچار، مجبور اور بے اوقاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments