کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 4 )۔


کپڑوں کے علاوہ ذاتی استعمال کی اشیا میں ہم نے رومال، بنیانیں، زیر جامے اور جوتے وغیرہ بھی شامل کرلئے جس کے بعد خوراک کے انتخاب کی باری آئی۔ جارج روز مرہ کے معاملات میں بہت سگھڑ واقع ہوا ہے، چنانچہ اس نے بڑے سلیقے سے متوقع ضروریات کی فہرست مرتب کرنی شروع کی۔ جارج نے کہا کہ دن کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے لہٰذا ناشتے سے ابتدا کرتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں چاہیے ایک عدد فرائنگ پین۔ دیپک بولا، فرائنگ پین مجھے تو ہضم نہیں ہوتا۔ اس پہ دیپک کو مجھ سے ڈانٹ پڑی کہ مسخرہ پن کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھے کیونکہ منصوبہ بندی سنجیدگی کی متقاضی ہے۔

جارج نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ایک فرائنگ پین، ایک کیتلی، ایک چائے دانی اور ایک سپرٹ لیمپ، لیکن مٹی کے تیل کا چولہا ہرگز نہیں۔ ”قطعاً نہیں“ ہم دونوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ جارج کی آخری بات کی پرزور تائید کی وجہ یہ تھی کہ ہم ایسی ہی ایک پکنک پہ مٹی کے تیل کے چولہے کے گن دیکھ چکے تھے۔ آپ اگر مٹی کے تیل سے آشنا نہیں ہیں تو یقین جانیئے آپ نے دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ نہیں دیکھا۔ اس سفر کے دوران ہمیں لگتا تھا کہ وہ پورا ہفتہ ہم کشتی میں نہیں بلکہ تیل کی فیکٹری میں گزار رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ چولہا کشتی کے اگلے حصے میں ہے، درمیان میں یا پچھلے حصے میں، تیل کی بدبو سے نجات ناممکن تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کشتی، چپو، دریا، ساحل، آس پاس کے درخت اور ہوا، سب کے سب تیل کے بنے ہوئے ہیں۔

ہوا قطب شمالی کی برفانی وادیوں سے آتی یا افریقہ کے تپتے ہوئے صحراوں سے، مشرق سے آتی یا مغرب سے، دائیں سے آتی یا بائیں سے، ہمیشہ تیل میں بھیگی ہوئی ہوتی۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کا منظر اور چاند کی کرنیں بھی تیل میں تر بتر محسوس ہوتی تھیں۔

ہم نے مارلو پہنچ کے اس عذاب سے مکتی پانے کے لیے کشتی کو پل کے پاس چھوڑ کے پیدل مارچ شروع کر دیا، لیکن تیل کی بو نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سارا قصبہ تیل میں نہایا ہوا تھا۔ قبرستان کے پاس سے گزرے تو لگتا تھا کہ یہاں میتوں کو تیل میں ڈبو کے دفنایا گیا ہے۔ ہم مارلو سے نکل کے کئی میل دور برمنگھم پہنچے لیکن یہاں بھی صورت حال جوں کی توں رہی۔ گویا پورا ملک ہی تیل میں ڈوب چکا تھا۔

اس شام ہم تینوں نے رات کے بارہ بجے ایک پرانے برگد کے نیچے یہ حلف اٹھایا کہ چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے، آئندہ کشتی میں کسی بھی صورت مٹی کے تیل کا چولہا نہیں رکھنا۔

لہٰذا اس دفعہ ہم نے مٹی کے تیل کے چولہے کی بجائے سپرٹ لیمپ سے کام چلانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ سپرٹ بھی کچھ کم مصیبت نہیں، کیونکہ یہ بھی معجزاتی صفات کی حامل ہے۔ کیک ہو یا آملیٹ، مکھن ہو یا ڈبل روٹی، سپرٹ ہر چیز میں گھس جاتی ہے۔ لیکن سپرٹ پھر بھی ایک لحاظ سے مٹی کے تیل سے بہتر ہے کیونکہ یہ الکوحل میں یوں شیر و شکر ہو جاتی ہے کہ آپ کو اس کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

برتنوں وغیرہ کے علاوہ ناشتے کے لیے جارج نے ڈبل روٹی، بیف، مکھن اور جام کا انتخاب کیا اور یہی سب کچھ بسکٹوں کے اضافے کے ساتھ لنچ کا مینو بھی طے پایا۔ رہ گیا پنیر، تو اس کے بارے میں سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ فاقوں سے مرنا قبول ہے، لیکن پنیر ساتھ لے جانا منظور نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ایک دوست نے لیور پول سے ایسا شاندار پنیر خریدا جس میں کم از کم دو سو گز کے قطر میں ہر ذی روح کو بے ہوش کرنے کی قوت تھی اور اس کی باس کم و بیش تین میل دور سے سونگھی جا سکتی تھی۔ شومئی قسمت سے میں بھی اس وقت لیور پول میں تھا اس لیے پنیر کو لندن پہنچانے کا فرض مجھے سونپ دیا گیا۔ وہاں سے میں ایک انتہائی پھٹیچر بگھی میں سوار ہوا جس میں ایک قریب المرگ گھوڑا جتا ہوا تھا اور پنیر کا پیکٹ بگھی کی چھت پہ باندھ دیا۔

بگھی لشتم پشتم چلنے لگی تا آنکہ ایک موڑ مڑنے کے بعد ہوا کا رخ بدل گیا اور پنیر کی بو گھوڑے کے نتھنوں تک پہنچ گئی۔ بس جناب، اب گھوڑے نے فزکس کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کے جس رفتار سے دوڑنا شروع کیا اس پہ یقیناً نیوٹن اور آئن سٹائن کی روحیں تڑپ گئی ہوں گی کیونکہ ہم نے ایک گھنٹے کا سفر بیس منٹ میں طے کر لیا۔ ریلوے اسٹیشن پہنچنے پہ کوچوان کے علاوہ نصف درجن کے قریب قلی اپنی جان پہ کھیل کے بگھی کو بمشکل روک پائے۔

میں پنیر کا لفافہ بغل میں دبائے بگھی سے اتر کے پلیٹ فارم پہ پہنچا تو وہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ لیکن معلوم نہیں اچانک کیا ہوا کہ میرے پہنچتے ہی ساری بھیڑ چھٹ گئی اور مسافر میرے احترام میں ادھر ادھر دبک گئے۔ ٹرین پہ سوار ہوا تو وہ بھی کچھا کھچ بھری ہوئی تھی اس لیے مجھے مجبوراً چھے افراد کی گنجائش والے ایک ایسے کیبن میں گھسنا پڑا جہاں پہلے ہی سات مسافر موجود تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے پنیر بالائی شیلف پہ رکھ دیا اور وہاں موجود خواتین و حضرات کو بہت شائستگی سے سلام کر کے ایک کونے میں سکڑ کے بیٹھ گیا۔

چند لمحے بعد ایک صاحب بولے، یہاں کتنا حبس ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ نے گویا ہوئے، بخدا، یہاں تو دم گھٹ رہا ہے، اور اچانک دونوں کیبن سے نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک خاتون اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنا سامان اٹھا کے یہ بڑبڑاتے ہوئے چلی گئیں کہ خواتین کو یوں ہراساں کرنا کہاں کی شرافت ہے۔

باقی ماندہ چار مسافر جن میں سے ایک گورکن تھا کچھ دیر تو ہمت کر کے بیٹھے رہے۔ لیکن کچھ دیر بعد گورکن بولا کہ لگتا ہے کہیں سے لاش کی بو آ رہی ہے۔ اس پہ باقی تینوں ایسے بھاگے کہ جیسے ان کے پیچھے کوئی بھوت لگا ہوا ہو۔ اب میں نے مسکرا کے گورکن سے کہا کہ اچھا ہوا سب چلے گئے۔ اب ہم آرام سے ٹانگیں پسار کے لیٹ سکتے ہیں۔ گورگن نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ نہ جانے لوگ معمولی سی بات کا بتنگڑ کیوں بنا لیتے ہیں۔

لیکن معلوم نہیں کیوں بتدریج اس کا موڈ بھی خراب ہونے لگا۔ جب ٹرین ایک اسٹیشن پہ رکی تو میں نے ازراہ مروت پلیٹ فارم کے سٹال سے اسے اپنی جیب سے برانڈی پلائی، لیکن عجیب بات ہے کہ وہ اپنا گلاس ختم کر کے میرا شکریہ ادا کئیے بغیر چپکے سے سٹک لیا اور کسی اور ڈبے میں سوار ہو گیا۔ اب آپ ہی بتائیے اس کو کمینگی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا(قسط 3)کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا قسط 5

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments