گھر کا راستہ بھول جانے والے کا جنم دن


میری تمہاری یہی کہانی ہے!

ہمیں گوجرانوالہ سے محبت سی ہو گئی ہے، شاید کہ پرکھوں کا تعلق اس مٹی سے تھا! یہ وجہ ممکنات میں ہو سکتی ہے لیکن ہم سے پوچھیے تو اس محبت کا تار میرا جی سے جا ملتا ہے، جی وہی میرا سین والے دیوانے فرزانے میرا جی!

میرا جی کی شاعری کے فسوں نے ہمیں دھیرے دھیرے اپنے حصار میں لیا۔ پھر ان کے اہلے گہلے الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو کے جی چاہا کہ کھوج تو لگایا جائے، آخر کون تھے یہ میرا جی ؟

 اپنی زندگی میرا سین کو دان کرنے والا شاعر جس نے نہ صرف محبت میں مثال قائم کی بلکہ شاعری کو بھی ایک ایسی جہت عطا کی جس نے سکہ بندوں کے جام الٹ دیے۔ میرا جی کے حوالے سے سے میرا سین وہ خوش نصیب عورت تھی جسے کوئی نہیں جانتا لیکن نام تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔ سچ پوچھیے تو ایک لمحے کو حسد سا محسوس ہوتا ہے۔ آخر کیسی ہوگی وہ؟ جس کے لئے کوئی دنیا سے بن باس لے کے بھٹکتا پھرا۔

کیا محبت دیوانگی ہے کہ جب آنکھ کی پتلی میں ایک ہی چہرہ نقش ہو جائے تو پھر آنکھ کچھ اور دیکھ ہی نہیں پاتی۔ من ایک ہی نام پہ فنا ہونے کی تمنا کرتے ہوئے، من و تو کا فاصلہ مٹاتے ہوئے سود و زیاں سے بے نیاز ایک ہی صدا لگائے جاتا ہے۔

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے میرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں

مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا

نہ تھکنے کا دعویٰ کرنے والے اس منفرد شاعر نے صرف سینتیس برس کی عمر میں آنکھیں موند لیں۔

نہ صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستان ، فقط ایک سمندر بلاتا ہے مجھ کو

کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جا کر ملے گی

پچیس مئی انیس سو بارہ کو علی پور چھٹہ میں پیدا ہونے والے ثنا اللہ ڈار کے والد منشی محمد مہتاب الدین انڈین ریلوے میں ملازم تھے۔ جب ان کا تبادلہ سکھر ہوا تو میرا جی کو لاہور بھیج دیا گیا جہاں وہ مزنگ ہائی سکول میں درجہ نہم میں داخل ہوئے۔ یہیں ان کی دوستی سلیم سوز اور احمد بشیر سے ہوئی جو مرتے دم تک قائم رہی۔ انہی برسوں میں نوجوان ثنا اللہ نے ایف سی کالج میں پڑھنے والی بنگالی دوشیزہ میرا سین کو دیکھا جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل کے رکھ دیا۔

کیسے اپنے دل سے مٹاؤں برہ اگن کا روگ

کیسے سجھاؤں پریم پہیلی، کیسے کروں سنجوگ

بات کی گھڑیاں بیت نہ جائیں، دور ہے اس کا دیس

دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس

اس آگ نے میرا جی کو ایسا جھلسایا کہ انہوں نے اوائل عمری میں ہی گھر اور خاندان کو خیر باد کہہ دیا اور بقیہ زندگی کسی خانہ بدوش کی طرح بھٹکتے بھٹکتے بسر کی۔

” جی چاہتا ہے کہ بازاری گویا بن کر گلی گلی بستی بستی گھومتا پھروں۔ ایک عورت اور ایک ہارمونیم کی پیٹی پہلو میں لیے اور دنیا یہ سمجھے کہ وہ ہمارا تماشا دیکھ کر رحم کھاتی ہے اور میں یہ سمجھوں کہ میں تماشائی ہوں۔ یہ ہارمونیم کی پیٹی، یہ میرے ساتھ گاتی عورت، یہ ہجوم یہ سب تماشا ہے۔ یہ سب دنیا ہے اور میں اسی دنیا کا تماشا دیکھ رہا ہوں “

میرا سین تک میرا جی کے دل کی بات پہنچی یا نہیں، جواب میں نہ جانے میرا سین نے انہیں کیا کچھ کہا اور کیا کچھ ادھورا چھوڑ دیا، کوئی نہیں جانتا۔ ہمیں صرف اتنی خبر ہے کہ ہجر کی کڑی راہوں کے مسافر میرا جی کی ادھوری تمناؤں نے میرا سین کی خواہشات کو اپنے تخیل میں الفاظ کا روپ پہنا دیا

میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا کی نگاہیں مجھے دیکھتی جائیں، یوں دیکھتی جائیں جیسے

کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے

لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے

میں یہ چاہتی ہوں کہ جھونکے ہوا کے لپٹتے چلے جائیں مجھ سے

مچلتے ہوئے، چھیڑ کرتے ہوئے ہنستے ہنستے کوئی بات کہتے ہوئے

لاج کے بوجھ سے رکتے رکتے سنبھلتے ہوئے رس کی رنگین سرگوشیوں میں

میں یہ چاہتی ہوں کبھی چلتے چلتے کبھی ڈوبتے ڈوبتے بڑھتی جاؤں

ہوا جیسے ندی کی لہروں سے چھوتے ہوئے سرسراتے ہوئے بہتی جاتی ہے

رکتی نہیں

میرا جی کی شاعری ان ہی کی طرح اسرار اور تحیر میں لپٹی ہوئی ہے۔ بقول شمیم حنفی” جیسے جھٹ پٹے کے وقت کا منظر جب چیزیں اپنی اصل سے کچھ مختلف دکھائی دیتی ہیں پیکر پرچھائیں بن جاتے ہیں اور آواز سرگوشی۔ ایسے میں چیخ بھی سنائی دے تو گہراتے ہوئے اندھیرے میں نوک خنجر کی طرح اتر جاتی ہے اور سننے والے کے لئے رمز بن جاتی ہے۔

میرا جی نے مغرب کی شاعری و تنقید سے اثر قبول کیا اور پھر اپنے عہد عصر کے شعرا اور ادیبوں کے لئے مثال بن گئے۔ ن م راشد نے انہیں” ادب کا گاندھی” کہہ کے پکارا اور فیض احمد فیض نے اپنے مضمون میرا جی کا فن میں لکھا,

” میرا جی نے مغربی ادب کو جو پیراہن دے کے ہمارے سامنے لا رکھا ہے وہ تخلیق ہے، ترجمہ نہیں “۔

ایک ہی زمانے میں زندگی پہ ہنسنے والے منٹو اور میرا جی وہ باغی تھے جنہوں نے ادب کے متعین راستوں پہ چلنے سے انکار کیا، اور اس کی قیمت مرتے دم تک ادا کی۔ منٹو میرا جی کا خاکہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں،

” اس کے شعر کا مصرع ہے/ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

مسافر کو رستہ بھولنا ہی تھا اس لئے کہ اس نے چلتے وقت نقطۂ آغاز پر کوئی نشان نہیں بنایا تھا۔ اپنے بنائے ہوئے دائرے کے خط کے ساتھ ساتھ گھومتا وہ یقیناً کئی بار ادھر سے گزرا۔ مگر اسے یاد نہ رہا کہ اس نے اپنا طویل سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا جی یہ بھول گیا کہ وہ مسافر ہے، سفر ہے یا راستہ”

حسن، عشق اور موت کی تثلیث میں ربط کی کھوج پر نکلنے والے جوگی میرا جی کا آج جنم دن ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments