1971 ناگر والا سکینڈل: اندرا گاندھی کی نقل اتار کر 60 لاکھ چرانے والا لٹیرا


इंदिरा गांधी

یہ 24 مئی سنہ 1971 کی صبح تھی، سٹیٹ بینک آف انڈیا کی پارلیمنٹ سٹریٹ برانچ میں کوئی خاص گہما گہمی نہیں تھی۔

دن کے بارہ بجنے والے تھے۔ چیف کیشیئر وید پرکاش ملہوترا کے سامنے رکھے فون کی گھنٹی بجی۔

فون کی دوسری جانب اُس شخص نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر کے پرنسپل سکریٹری پی این ہکسر بات کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو بنگلہ دیش میں ایک خفیہ آپریشن کے لیے 60 لاکھ روپے درکار ہیں۔ انھوں نے ملہوترا کو ہدایت کی کہ وہ بینک سے 60 لاکھ روپے نکال کر پارلیمنٹ سٹریٹ پر ہی بائبل بھون کی عمارت کے پاس کھڑے ایک شخص کے حوالے کر دیں اور یہ کہ ساری رقم سو روپے کے نوٹوں میں ہونی چاہیے۔ یہ سب سن کر ملہوترا قدرے پریشان ہوگئے۔

اسی دوران وزیر اعظم آفس سے بات کرنے والے شخص نے ملہوترا سے کہا کہ ’چلیں وزیر اعظم سے ہی بات کر لیں۔‘

کچھ سیکنڈ بعد ایک عورت نے ملہوترا سے کہا کہ ‘آپ یہ رقم لے کر خود بائبل بھون آئیے۔ وہاں ایک شخص آپ سے ملاقات کرے گا اور ایک کوڈ کہے گا، ‘بنگلہ دیش کا بابو’۔ اس کے جواب میں آپ کو ‘بار ایٹ لا’ کہنا پڑے گا۔ اس کے بعد آپ رقم کو ان کے حوالے کردیں گے اور اس معاملے کو مکمل طور پر خفیہ رکھیں گے۔’

کوڈ ورڈ بول کر رقم لیں

اس کے بعد ملہوترا نے ڈپٹی چیف کیشیئر رام پرکاش بترا سے 60 لاکھ روپے کیش باکس میں رکھنے کو کہا۔

بترا ساڑھے بارہ بجے سٹرانگ روم میں داخل ہوئے اور پیسہ باہر لے آئے۔

بترا اور ان کے ایک دوسرے ساتھی ایچ آر کھنہ نے اس رقم کو کیش باکس میں رکھا۔

ڈپٹی ہیڈ کیشئیر روہیل سنگھ نے رجسٹر میں اندراج کرلیا اور ادائیگی کی رسید بنوائی۔ ملہوترا نے ادائیگی کی رسید پر دستخط کیے۔

اس کے بعد دو چپڑاسیوں نے نقدی کے صندوق کو بینک کار (ڈی ایل اے 760) میں لادا اور خود ملہوترا نے اسے بائبل بھون پہنچایا۔

ریحان فضل کی دیگر تحریریں

’آپ نہ ہوتے تو 1971 بھی نہ ہوتا‘

جب اندرا گاندھی کو خون کی 80 بوتلیں لگیں

جب کاسترو نے اندرا گاندھی کو گلے لگایا

’میرے پاس کوئی راستہ نہیں، میں ویسے بھی مارا جاؤں گا‘

جب راجیو گاندھی نے سونیا کی قربت کے لیے ’رشوت‘ دی

کیا جناح کی مہلک بیماری کا علم تقسیم ہند کو روک سکتا تھا؟

کار رکنے کے بعد ایک لمبے قد اور گوری رنگت والے شخص نے آ کر ان کے سامنے وہ کوڈ ورڈ کہا۔

اس کے بعد وہ شخص بھی بینک کی کار میں ملہوترا کے ساتھ بیٹھ گیا اور وہ سردار پٹیل مارگ اور پنجشیل مارگ کے سنگم پر ٹیکسی سٹینڈ پہنچے۔

وہاں اس شخص نے صندوق اتارا اور ملہوترا سے کہا کہ وہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ جائیں اور اس رقم کی رسید لے لیں۔

’آپ کو دھوکہ دیا ہے‘

اندرا گاندھی کی سوانح عمری لکھنے والی کیتھرن فرینک لکھتی ہیں ‘ملہوترا نے وہی کیا جو انھیں کہا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ فون کرنے والے شحص کا نام رستم سہراب ناگر والا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہندوستانی فوج میں کپتان کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا۔ اور اُس وقت وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کر رہا تھا۔’

جب ملہوترا وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ اندرا گاندھی پارلیمنٹ میں ہیں۔ وہ فوراً ہی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ وہاں اندرا گاندھی سے ان کی ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری پرمیشور نارائن ہکسر سے ان کی ملاقات ضرور ہوئی۔ جب ملہوترا نے ساری بات ہکسر کو بتائی تو ہکسر کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ انھوں نے ملہوترا سے کہا کہ کسی نے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔

’ہم نے وزیر اعظم آفس سے ایسی کوئی کال نہیں کی۔ آپ فوراً پولیس سٹیشن جاکر اس کی اطلاع دیں۔‘

دوسری جانب بینک کے ڈپٹی ہیڈ کیشیئر روہیل سنگھ نے ڈپٹی چیف کیشیئر رام پرکاش بترا آر بی بترا سے ان 60 لاکھ روپے کی رسید کے بارے میں دو یا تین بار پوچھا۔ بترا نے انھیں یقین دلایا کہ انھیں جلد ہی رسید مل جائے گا۔

لیکن جب انھیں کافی دیر تک رسید نہیں ملی اور ملہوترا بھی واپس نہیں آئے تو انھوں نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں کو اس معاملے کی اطلاع دی۔ پھر ان کی درخواست پر انھوں نے پارلیمنٹ سٹریٹ پولیس سٹیشن میں اس پورے معاملے کی ایف آئی آر درج کروائی۔ معاملے کا پتا چلتے ہی پولیس نے تفتیش شروع کردی۔

अमरीका के पूर्व राष्ट्रपति रिचर्ड निक्सन के साथ भारत की पूर्व प्रधानमंत्री इंदिरा गांधी

ناگر والا کی گرفتاری

اس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور اس نے رات تقریباً پونے دس بجے ناگر والا کو دلی گیٹ کے قریب واقع پارسی دھرم شالا سے گرفتار کر لیا اور ڈیفنس کالونی میں ان کے دوست کے گھر اے 277 سے 59 لاکھ 95 ہزار روپے برآمد کیے۔

اس آپریشن کو ‘آپریشن طوفان’ کا نام دیا گیا۔

इंदिरा गांधी

اسی دن نصف شب کو دلی پولیس نے ایک پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ معاملہ حل کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ نگر والا ٹیکسی سٹینڈ سے راجیندر ناگر کے گھر گیا۔ وہاں سے اس نے سوٹ کیس لیا اور پرانی دہلی میں نیکلسن روڈ گیا۔ وہاں اس نے سارا پیسہ صندوق سے نکال کر ڈرائیور کے سامنے سوٹ کیس میں رکھا۔

ڈرائیور کو یہ راز رکھنے کے لیے اس نے 500 روپے کی ٹپ بھی دی۔ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔

اندرا ملہوترا اندرا گاندھی کی سوانح عمری ‘اندرا گاندھی: اے پرسنل اینڈ پالیٹیکل بائیوگرافی’ میں لکھتے ہیں: ‘جیسا کہ توقع تھی اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بہت ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ کچھ سوالات ایسے تھے جن کے جواب سامنے نہیں آ رہے تھے۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے بھی کیا وزیر اعظم نے کبھی ملہوترا سے بات کی تھی؟ اگر نہیں تو انھوں نے اندرا گاندھی کی آواز کو کیسے پہچان لیا؟ کیا بینک کا کیشیئر صرف زبانی بات چیت پر بینک سے اتنی بڑی رقم نکال سکتا تھا؟ اور یہ رقم کس کی تھی؟’

इंदिरा गांधी

ناگر والا کو چار سال کی سزا سنائی گئی

27 مئی سنہ 1971 کو ناگر والا نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔

شاید ہندوستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی شخص کے خلاف گرفتاری کے تین دن کے اندر قانونی چارہ جوئی کے بعد سزا بھی سنا دی گئی تھی۔

رستم ناگر والا کو چار سال کی قید اور 1000 روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ لیکن کوئی بھی اس واقعے کی انتہا تک نہیں پہنچا۔

ناگر والا نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے بنگلہ دیش مہم کا بہانہ بنا کر ملہوترا کو بے وقوف بنایا تھا۔ لیکن بعد میں انھوں نے اپنا بیان تبدیل کر دیا اور فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ دوبارہ مقدمہ چلایا جائے لیکن 28 اکتوبر 1971 کو ناگر والا کے اس مطالبے کو رد کر دیا گیا۔

تفتیش کرنے والے پولیس افسر کی کار حادثے میں موت

اس معاملے میں ایک پراسرار موڑ اس وقت آیا جب 20 نومبر سنہ 1971 کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے اے ایس پی ڈی کے کشیپ کی ایک سڑک حادثے میں موت ہوگئی۔ وہ اس وقت اپنے ہنی مون کے لیے جارہے تھے۔

اسی دوران ناگر والا نے مشہور ہفتہ وار اخبار کرنٹ کے ایڈیٹر ڈی ایف کراکا کو خط لکھا اور کہا کہ وہ انھیں انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔

کراکا کی طبیعت خراب ہوگئی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے معاون کو اس انٹرویو کے لیے بھیجا۔ لیکن ناگر والا نے اسے انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔ فروری سنہ 1972 کے اوائل میں ناگر والا کو تہاڑ جیل سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہاں سے انھیں 21 فروری کو جی بی پینت ہسپتال لے جایا گیا جہاں دو مارچ کی صبح 2 بجکر 15 منٹ پر دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔

اس دن ان کی 51 ویں سالگرہ تھی۔

اس واقعے کی وجہ سے اندرا گاندھی پر خوب تنقید ہوئی۔

بعد میں ساگریکا گھوش نے ‘اندرا گاندھی کی سوانح عمری ‘انڈیاز موسٹ پاورفل پرائم منسٹر’ یعنی انڈیا کی سب سے طاقتور وزیر اعظم میں لکھا: ‘اگر طاقتور لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو کیا ناگر والا کو وزیر اعظم کی آواز کی نقل کرنے کی ہمت ہوتی؟ ملہوترا نے وزیر اعظم ہاؤس سے صرف ایک فون کال کی وجہ سے اتنی بڑی رقم کیوں نکالی؟’

इंदिरा गांधी

تحقیقات کے لیے جگن موہن ریڈی کمیشن کی تشکیل

جب سنہ 1977 میں جنتا پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے ناگر والا کی موت کے حالات کی تحقیقات کا حکم دیا۔

اس کے لیے جگن موہن ریڈی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن اس تفتیش میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آسکی اور ناگر والا کی موت میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ملی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر اس طرح کی ادائیگی کرنی تھی تو بینک کے منیجر سے رابطہ کر کے چیف کیشئر سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا سٹیٹ بینک کو اتنی بڑی رقم چیک اور رسید کے بغیر دینے کا حق تھا؟

سی آئی اے کا آپریشن؟

بعد میں ایسی غیر مصدقہ خبریں شائع ہوئیں کہ را کے کہنے پر یہ رقم بنگلہ دیش آپریشن کے لیے نکالی گئی تھی۔

را پر ایک کتاب ‘مشن آر اینڈ ڈبلیو’ لکھنے والے آر کے یادو لکھتے ہیں کہ ‘انھوں نے را کے سابق سربراہ رام ناتھ کاؤ اور ان کے نمبر دو شنکر نیر سے اس سلسلے میں پوچھا تھا اور دونوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی تھی کہ را کا اس کیس سے کچھ لینا دینا تھا۔’

ان عہدیداروں نے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ را کا سٹیٹ بینک میں کوئی خفیہ اکاؤنٹ تھا۔

اندرا گاندھی کی موت کے دو سال بعد ہندوستان ٹائمز کے 11 اور 12 نومبر کے شمارے میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ’ناگر والا را کے نہیں بلکہ سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا اور اس پورے واقعے کا بنیادی مقصد اندرا گاندھی کو بدنام کرنا تھا خاص طور پر اس وقت جب ان کی بنگلہ دیش کی پالیسی امریکی صدر نکسن انتظامیہ کے لیے انتہائی ناگوار تھی۔‘

لیکن اس الزام کی حمایت میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے اور اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا کہ کیسے کسی بینک کے کیشیئر نے کسی دستاویزات کے بغیر اتنی بڑی رقم کسی نامعلوم شخص کے حوالے کردی۔

بہر حال اس دھوکہ دہی کے بعد پانچ ہزار روپے چھوڑ کر باقی سارے 59 لاکھ 95 ہزار روپیہ برآمد کر لیے گئے اور وہ پانچ ہزار روپے ملہوترا کو اپنی جیب سے بھرنے پڑے۔ بینک کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن اس کی ساکھ خراب ہوئی تھی جس وجہ سے سٹیٹ بینک نے ملہوترا کو محکمانہ انکوائری کے بعد نوکری سے برخاست کر دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کے تقریباً دس سال بعد جب ہندوستان میں ماروتی کی صنعت قائم ہوئی تو اس وقت کی حکومت نے وید پرکاش ملہوترا کو اس کمپنی کا چیف اکاؤنٹس آفیسر بنا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp