وہ عید جب پاک فضائیہ نے پہلا بھارتی طیارہ گرایا


ہم پاکستانی بھارت کے بارے میں ایک مخصوص سوچ رکھتے ہیں۔ اس کو اپنا پڑوسی بھی مانتے ہیں اور دشمن بھی، پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے پر دوستی اور دشمنی تو دو الگ جذبات کا نام ہے۔ آزادی کن حالات میں حاصل کی گئی یہ بھی ایک وجہ ہے پھر آزادی کے بعد ہم پر کیا گزری کشمیر کا مسئلہ پھر اس پر جنگیں، 71 ء کے بعد یہ خلیج بالکل واضح اور صاف ہوگئی، لیکن بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان اچھے ہمسایوں کی طرح ساتھ چل سکتے ہیں۔

وہاں بھی ویسے ہی اچھے برے لوگ ہیں جیسے یہاں ہیں۔ ان کی نیت پر شک کیے بنا میں یہ سوال رکھوں گا یقیناً ایسا ہی ہونا تھا یا ہونا چاہیے تھا لیکن عید کے دن میں اپنے ہمسائے کے گھر جاؤں وہاں شیر نوش کروں یا ان کے گھر منہ میٹھا کرنے کی کوئی سوغات لے جاؤں، کوئی کیک، سویاں یا مٹھائی تو اچھی بات ہے پر اگر میں اپنے ہمسائے کے گھر کوئی مشکوک شخص، جاسوس یا ڈاکو بھیجوں تو اس کا کیا ردعمل ہونا چاہیے، یقینا آپ میری دماغی حالت کو مشکوک سمجھیں گے اور مجھے کسی اچھے ڈاکٹر سے ملنے کا مشورہ دیں گے یا قرار واقعے سزا دلوانے کی حمایت کریں گے۔ 10 اپریل 1959 کو بھارت نے ٹھیک عید کے دن ایک اوچھی حرکت کی اور اس کو پاکستان کی طرف سے کیا جواب ملا یہ تحریر اسی حرکت کی روداد ہے۔

تاریخ بعض دفعہ کچھ اس انداز میں اپنے آپ کو دہراتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ جملہ روز مرہ ہی سنے کو ملتا ہے کہ تاریخ نے خود کو دہرایا کرتی ہے۔ آج صبح ( 11 اپریل) جب میں بیدار ہوا تو ایک ٹی وی چینل پر یہ خبر گرم تھی کہ بھارت کا ایک جاسوسی کواڈ کاپٹر کشمیر میں مار گرایا گیا ہے یہ ایک دن پرانا واقعہ تھا۔ یہ عدم تحفظ کا احساس ہے یا کچھ اور۔

آج سے کوئی 61 سال قبل یعنی 10 اپریل 1959 ساری قوم عید کی خوشیوں میں مصروف تھی۔ کشمیر کی جنگ بندی کو ہوئے بھی گیارہ سال ہو گئے تھے۔ پاکستان اور بھارت میں حالت آج جیسے کشیدہ تو نہیں تھے لیکن صورت حال بہت اچھی بھی نہ تھی۔ بھارت کی طاقت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا، ایک رقبے اور وسائل میں چھوٹا ملک ایسے ہی فیصلے کرتاہے یا یوں کہیے کہ بڑی طاقتوں کے کھیل میں اپنا چھوٹا سا فائدہ (جو بعض دفعہ بڑا نقصان ثابت ہوتا ہے ) ڈھونڈتا ہے۔ آج ہم چاہے کتنی بحث کر لیں مگر زمینی حقیقت آج بھی یہی ہے جب بھی یہی تھی کہ بھارت آج بھی اپنے دفاع کا مطلب پڑوسیوں کے حدود میں مداخلت کو سمجھتا ہے اور دس اپریل 1959 ء کو بھی یہی سچ تھا جب یہ گمان کرتے ہوئے عید کی صبح اپنے ہمسائے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کا خیال نہ کرتے بھارت نے برطانوی ساختہ کینبرا پی آر۔ 57 (پی آر فوٹو ریکی کا مخفف ہے جس کا مطلب تصویری جاسوسی کرنا ہوتا ہے ) شمالی پنجاب سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔

بھارتی وایو سینا کے اس مشن کی قیادت اسکواڈرن لیڈر سین گپتا کر رہے تھے جب کہ فلائٹ لیفٹیننٹ رام پال بطور نیوی گیٹر (راستہ بتانے والے ) کے طور پر شامل تھے۔ عید کے دن یہ شرارت کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی تھیں۔ ایک تو بھارتی شاید جانچنا چاہ رہے تھے کے اب پاکستان کیا ردعمل دے گا۔ پاک فضائیہ کتنی مستعد ہے اور پاکستان میں بنے والی نئی فوجی چھاؤنی ( گجرات کے پاس کھاریاں کینٹ اس زمانے میں تعمیر کے مراحل سے گزر رہی تھی) کیسی ہے اور اس کی تعمیر کتنی مکمل ہو گئی۔

پچھلے سال بھارتی ویب سائٹ دی پرنٹ نے بھی اس 27 فروری 2019 ء کے واقعہ کو دس اپریل 1959 ء کے واقعہ سے مماثل قرار دیا، ویب سائٹ (لنک نمبر ایک) کی کہانی ”ابھی نندن کے مگ سے ساٹھ سال پرانی بھارتی کینبرا عملے کی ان کہی داستان۔“ کے عنوان سے شائع ہوئی، کہانی میں روایتی بھارتی پینترے بازی سے جھوٹ بولا جو ظاہر ہے بھارت میں رہتے ہوئے ان کی مجبوری ہے لیکن اس روداد میں توجہ طلب چیز 10 اپریل 1959 کا واقعہ ہے۔

بھارتی کینبرا کو کشمیر اور ہما چل پردیش کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ دس اپریل 1959 کی صبح کا ذکر کرتے ہوئے ویب سائٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں عید کا سماں تھا۔ پاکستان ائر فورس کے افسران بھی چھٹی منا رہے تھے سوائے ان کے جو غیر شادی شدہ تھے یا اسکلٹن (لازمی) ڈیوٹی کے حامل افسران اور ائر مینز ڈیوٹی پر تھے۔ پشاور ائر بیس پر 15 ویں اسکواڈرن فلائٹ لیفٹیننٹ نصیر بٹ اور محمد یونس صبح کی چائے پینے میں مصروف تھے۔ ( فلائٹ لیفٹیننٹ رب نواز ریڈار کنٹرولر کی حیثیت سے ڈیوٹی پر موجود تھے۔

ویب سائٹ میں لکھا ہے پاکستان دوسری جنگ عظیم کا ایک ریڈار استعمال کر رہا تھا ) ، چائے کا دور جاری تھا کہ فلائٹ لیفٹیننٹ رب نواز کی جانب سے مداخلت کار بھارت کی جانب سے اناؤنس کیا گیا جس وقت بھارتی طیارہ پاکستانی پنجاب میں گجرات کے علاقے میں پر واز کر رہا تھا۔ دو ایف 86 سیبر طیاروں نے پرواز بھری، امریکہ سے سیبر ابھی پاکستان کو حاصل ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور یہ طیارے سرد جنگ کے معاہدے سینٹو کی رو سے پاکستان کو حاصل ہوئے تھے۔

فلائٹ لیفٹننٹ رام پال

بیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے سیبر کے ہوابازوں نے دشمن کا طیارہ 41 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے دیکھ لیا، فلائٹ لیفٹیننٹ یونس اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب ہم نے بھارتی طیارے کو تلاش کیا تو وہ ایک کینبرا تھا اس کا رخ گجرات کی طرف تھا اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ ہم نے اپنے فیول ٹینک گرائے ( لڑاکا طیاروں کے پروں کے نیچے اضافی فیول ٹینکر لگائے جاتے ہیں جو کسی بھی موقع پر با آسانی الگ کیے جا سکتے ہیں ) ، ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ وہ ہماری رینج سے دور تھا۔ یونس نے جہاز مار گرانے کی اجازت طلب کی ریڈار کنٹرولر مروجہ طریقہ کار کی پابندی کر رہے تھے تاکہ بعد میں کوئی مسائل نہ کھڑے ہوں، اچانک کینبرا بلندی کم کرتا ہوا محسوس ہوا، جس پر رب نواز نے یونس کو فوری طور پر کینبرا مار گرانے کی اجازت دیدی۔

سکواڈرن لیڈر سین گپتا

یونس کہتے ہیں ہم ابھی بھی اپنی انتہائی بلندی پر محو پرواز تھے اور نصیر ایک کوشش کر کے دیکھ چکے تھے مگر وہ ( یعنی بھارتی کینبرا جاسوس) اب بھی ہماری ضرب سے دور تھا یونس کہتے ہیں میں اپنے لیڈر نصیر بٹ کو کور دے رہا تھا۔ میرا خیال تھا اگر کینبرا کے پائلٹ نے ہم کو دیکھ لیا تو وہ سیدھے ہاتھ کی طرف مڑ جائے گا۔

میرے لیڈر نے مجھے ایک کوشش کی کرنے کی اجازت دے دی، اب میں اپنے ٹارگٹ ( کینبرا) سے ابھی بھی دور تھا۔ کینبرا سیدھے ہاتھ پر مڑ رہا تھا۔ اگر وہ مجھے دیکھ لیتا تو شاید پرانی پوزیشن پر واپس مڑ جاتا جبکہ دوسری طرف میرے قائد پوزیشن کو سخت کرنے کی کوشش میں تھے تاکہ گھبراہٹ میں بھارتی پائلٹ کوئی غلطی کرے جو اس کی بلندی کم ہونے کا سبب بنے۔

یہاں کہانی میں سوال اٹھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ طیارے کو اپنی بلندی کم کرنا پڑی اور بہتر پوزیشن کے باوجود پائلٹس کو ایجکٹ کرنا پڑا۔ یونس کے حوالے سے لکھا ہے مجھے موقع ملا اور میں نے جہاز کے سیدھے انجن پر فائر کھول دیا میں اپنی فائر کی ہوئی گولیوں کا اثر دیکھ رہا تھا اور جب تک فائر کرتا رہا جب تک گنز گرم ہو کر خود ٹھہر نہیں گئیں۔میں نے تقریباً بارہ سو راؤنڈ فائر کیے ہوں گے کینبرا اسپائرل ( قلابازیاں ) کھاتے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ بھارتی پائلٹ اسکواڈرن لیڈر سین گپتا اور نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ رام پال کو پاکستانی سرزمین پر اترنے پر حراست میں لے لیا گیا جن کو ایک دن بعد رہائی ملی۔

تصویر بھارتی کینبرا طیارہ۔

اسکواڈرن لیڈر سین گپتا 1976 میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے جبکہ نیوی گیٹر 1971 میں ونگ کمانڈر کے رتبے سے ریٹائر ہوئے۔ سین گپتا بتاتے ہیں اس دن جہاز کے ساتھ آکسیجن کے مسائل ہوئے جو جہاز کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔ کینبرا نا قابل شکست تھا اس وقت کے تک تمام پاکستانی طیاروں کے لیے۔ پاکستانی پائلٹس یقیناً اتنی بلندی تک نہیں آسکتے تھے۔ آکسیجن کے مسائل کی وجہ سے پائلٹس نے واپسی کا فیصلہ کیا جو تباہ کن ثابت ہوا۔

دی پرنٹ کی یہ کہانی بھارتی سرکاری موقف بھی پیش کرتی ہے جس کے مطابق گیارہ اپریل 1959 کو بھارتی لوک سبھا میں بھارت کی رکشا منتری (وزیر دفاع) کرشنا مینن نے جہاز کی پاکستانی حدود میں گرنے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا ”جہاز راستہ بھٹک کر پاکستان کی طرف چلا گیا۔ زیادہ بلندی پر ایسے حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاز کا بھٹکنا کسی جارحانہ سوچ کی عکاسی نہیں کرتا۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاز کو مار گرانے سے پہلے کسی قسم کی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔

تصویر فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments