مولانا مودودی سے زاہد حسین چھیپا تک


ہم جیسوں کی عمر کا بڑا حصہ ایک خاص قسم کے دور جاہلیت سے گزرتا ہے۔ بچپن سے ہی قرآن پاک کا ادب آداب سکھا دیا جاتا ہے۔ ایسے نہیں پکڑنا، اونچی جگہ پر رکھو، غلاف میں لپیٹ کر رکھو، پاک ہو کر ہاتھ لگانا ہے، ادب کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو، آہستہ آواز میں پڑھو، ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، ستر ڈھانپ کر پڑھو، ٹوپی پہن کر پڑھو وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری، لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ، یہ ادب پہلے عقیدت اور پھر خوف میں بدل جاتا ہے۔

دوسری کتابیں پڑھنے کے ضمن میں سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کتاب پڑھنے کی خوب ترغیب بھی دلائی جاتی اور کبھی کوئی قدغن بھی نہ لگتی۔ بھلے ہم نیکر پہن کر، ایک ہاتھ سے نوالے توڑتے ہوئے، بستر پر پاؤں پسار کر ٹی وی پر ایک آنکھ رکھتے ہوئے، بیک گراونڈ میوزک لگا کر کتاب پڑھتے رہتے تو بھی روک ٹوک میں وہ سختی نہ ہوتی۔ کم و بیش وہی ممتاز مفتی والا معاملہ جو اپنی کتاب تلاش میں لکھتے ہیں کہ ان کی حسرت ہی رہی کہ وہ کبھی قرآن مجید کو رات سونے سے پہلے پڑھی جانے والی کتاب یا بیڈ بک بنا سکیں۔ سرہانے تلے دھری کتاب کی اس خواہش میں ہمیشہ ان کی بیگم آڑے آ جاتیں اور مفتی صاحب کو صفائی ستھرائی، ادب آداب سمیت تمام پروٹوکول کے بغیر قرآن پاک تک رسائی نہ ملتی۔

بادی النظر میں اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کے عام مسلمان اگر کتب بینی کا ذوق اور شوق بھی رکھتا ہے تو قرآن مجید بطور ایک کتاب اس کی آرزو کے مدار سے ذرا دور دور ہی رہتا ہے۔ اگر پڑھنا بھی ہے تو ایک خاص تکلف، ادب اور ضرورت کے ساتھ، کسی کے ایصال ثواب کے لئے، کسی وقت دعا کے لئے اور کبھی ترجمے کے ساتھ ساتھ بنیادی سمجھ بوجھ کی حد تک اور بس۔ اس سارے تکلف کے بعد بھی زبان کا مسئلہ، زبان ترجمے کے ساتھ سمجھ آ جائے تو پھر سیاق و سباق کون بتائے۔ پھر یہ کہ قرآن بنیادی طور پر ایک تقریری کلام ہے اور ترجمے کے بعد دوسری زبان کے تحریری سانچے میں ڈھلتے ہی اس کی اثر پذیری مدھم پڑ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اب ہر کوئی اقبال کی طرح نوازا ہوا تو ہوتا نہیں جو قرآن پڑھے تو ایسی رقت طاری ہو کہ آنسو اوراق تر کر دیں۔

سو یہ وہ سارے مسئلے تھے جو مولانا مودودی جیسے زیرک، صاحب علم اور صاحب نظر آدمی سے پوشیدہ نہ رہ سکے۔ آپ اور ہم مولانا مودودی صاحب کی ایک ہزار ایک باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کا قرآن مجید کا آسان، سلیس، رواں اور تقریر نما ترجمہ ایک ایسی علمی کاوش ہے جو بلا شبہ رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔ پھر بات ترجمے سے آگے بڑھ کر ان کی تفسیر تفہیم القرآن تک پہنچ جاتی ہے تو گویا ہم جیسے مسلمانوں کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ چیزیں یک دم سہل لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ قرآن سے عقیدت اور ادب کے بعد ادب کی سی چاشنی ملنا شروع ہو تی ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے مودودی صاحب فلکیات پر قرآن کی رو سے لیکچر دے رہے ہیں اور کبھی معاملات اور معاشرت پر قرآنی تعلیمات کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔

یقین جانیے کسی خاموش دوپہر گھر کے کونے میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کی چھ جلدوں میں سے کسی ایک سورت کی تفسیر پڑھ ڈالیے۔ ۔ ۔ آپ کا قرآن سے ایک نئی طرز کا تعلق قائم ہو جائے گا جس میں ادب اور عقیدت تو ہو گی لیکن بلاوجہ کا خوف نہیں ہوگا۔ یہ تفسیر بھاری بھرکم مولانا اور علامہ حضرات سے زیادہ ہم جیسے سست مسلمانوں کے لئے لکھی گئی ہے۔ یہ تفسیر عام مسلمان تک قرآن کی رسائی آسان بناتی ہے۔ مودودی صاحب نے قیام پاکستان سے پانچ سال قبل اس تفسیر کو شروع کیا ا ور تیس برس بعد مکمل کیا۔ تفسیر لکھنے کا کام شروع میں بہت تیز رہا لیکن پھر مصروفیات کی بدولت رک گیا۔ جب انھیں ملتان جیل میں قید کیا گیا تو پھر خوب فرصت میسر آئی اور کام اپنے انجام کو پہنچا۔

مودودی صاحب کو گزرے قریب چالیس برس ہو گئے اور ا س دوران اقبال کے مصرعے کے مصداق۔ ۔ ۔ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ قرآن اور حدیث پر علمی کام اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ احادیث کے معاملے میں عام مسلمان کی ذخیرہ علم تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ ہم جیسوں کا علم حدیث تو ویسے بھی میٹرک میں امتحان کے لئے یا د کی ہوئی بیس حدیثوں سے کبھی آگے نہیں بڑھا۔ صحاح ستہ سمیت حدیث کی موٹی موٹی کتابیں جب بھی دیکھیں، ٹی وی اور یو ٹیوب کے چینلز پر علما حضرات کے قرینے سے سجے ہوئے بک شیلفوں پر ہی دیکھیں۔ اب یہ ہوا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے خوش شکل و خوش اطوار اور نوجوان سافٹ ویر ڈیویلپر زاہد حسین چھیپا نے قرآنی تفاسیر اور ہزاروں احادیث کے مجموعوں کو اسلام 360 نام کی موبائل ایپ میں سمو دیا ہے۔ بس ہاتھ کا انگوٹھا موبائل کی سکرین پر لگائیے اور بقدر ہمت اپنی تشنگی بجھائیے۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ د نیا بھر کے لاکھوں مسلمان پاکستان میں بننے والی اس ایپ کو جب استعمال کرتے ہوں گے تو ان کی نظر میں اس ملک کی تکریم کتنی بڑ ہ جاتی ہو گی۔ ہماری نا قص رائے میں عام مسلمان کی قرآن فہمی کے نکتہ نگاہ سے زاہد حسین چھیپا کا یہ کارنامہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے بعد سب سے اہم پیش رفت ہے جس پر بلاشبہ وہ نشان امتیاز کا مستحق ہے۔

پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک بارعب، با علم اور نورانی قسم کے مولانا صاحب کے سامنے زاہد اپنی دھن میں مگن جلدی جلدی ایپ دکھا رہا تھا تو تو مولانا کے چہرے پر ایک رنگ آ اور ایک جا رہا تھا۔ پھر انہوں نے دو ا ہم باتیں فرمائیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ ایپ تو بہت اچھی ہے لیکن ہمیں ان علما کرام کا شکرگزار ہونا چاہیے جن کی کاوشوں کی بدولت ایسی ایپس کا بنانا ممکن ہوا (زاہد نے فرمانبردار بچے کے طرح سر ہلایا) اور دوسری بات یہ کہ ایپ تو ٹھیک ہے لیکن علمائے کرام کی رہنمائی کی ضرورت تو پھر بھی رہے گی!

یہ سن کر کر دل چا ہا کے جا کر زاہد چھیپا کو گلے سے لگا لیا جائے اس نے ایک طرف مولانا مودودی کی طرح ہم عام مسلمان تک قرآن فہمی اور حدیث فہمی کو آسان اور قابل رسائی بنایا اور دوسر ی طرف ان علما کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا جو زمانے کے بدلے ہوئے انداز کو سمجھنے کی کو کوشش کر رہے تھے۔ لمحہ بھر کو لگا کہ اقبال کی بال جبرئیل کے ساقی نامہ میں مانگی ہوئی یہ دعا مستجاب ہوئی۔ ۔ ۔

خرد کو غلامی سے آزاد کر،
جوانوں کو پیروں کا استاد کر

پس نوشت:تفہیم القرآن کی چھ جلدیں قریب پانچ ہزار روپے میں خوبصورت کاغذ پر بک کارنر جہلم سے طلب کی جا سکتی ہیں۔ اسلام 360 اینڈرائیڈ اور ایپل پر مفت ڈاؤن لوڈ کریں اور ایپ کے اندر سے ہی نہایت آسانی سے فنڈ، چیریٹی، چندہ، نذرانہ سمجھ کر بصد احترام زاہد اور اس کی شاندار ٹیم کو بھجوا دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments