کیا ادیب، فن کار اکیڈمی سے نکلتے ہیں؟


کیا کسی ادارے سے تربیت لے کر رائٹر بنا جا سکتا ہے؟ اس کا ایک سیدھا سا جواب یہ ہے، ”نہیں۔ ایسا تو نہیں ہے، کہ کوئی کسی اکیڈمی میں داخلہ لے اور رائٹر بن جائے“ ۔ آرٹ میں ایسا نہیں ‌ ہوتا، کہ آپ کسی ادارے میں داخلہ لیں، اور ضمانت دی جائے کہ آپ آرٹسٹ بنا دیے جائیں گے۔ کوئی کسی اکیڈمی سے ہنر مند بن کے نکل سکتا ہے، فن میں مہارتیں حاصل کر سکتا ہے۔ ایک پینٹنگ اسکول میں داخلہ لے کے کوئی یہ جان سکتا ہے، کہ برش سے اسٹروک کیسے لگایا جاتا ہے۔ دائرہ کھینچنے کی مشق کیسے کی جاتی ہے۔ مستطیل، مربع بناتے لائن کتنی سیدھی رکھنی ہے۔ کتنا دور تک لے جانی ہے۔ اسکیچ کیسے بنانا ہے۔ کون کون سے رنگوں کے ملاپ سے کون سا شیڈ بنتا ہے اور خاکے میں رنگ بھرتے کن تکنیکی پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ہے۔

کس مقام پر کتنی، کیسی، ہلکی یا گہری لکیریں کھینچنی ہیں۔ کینوس پر کس جگہ کون سا شیڈ، کیسا رنگ لگانا ہے، اس کا تعین مصور کو کرنا ہوتا ہے۔ مصور کے ذہن میں کیا ہے، یہ فقط وہی جانتا ہے۔ اسے اتنا سکھایا جا سکتا ہے، کہ جو کچھ اس کے تصور میں ہے، اسے کیوں کر خوب از خوب طریقے سے کینوس پر منتقل کرنا ہے۔

اسکول ٹیچر لفظ سکھا سکتا ہے، لفظوں کے معنی بتا سکتا ہے، طالب علم میں نت نئے الفاظ تلاش کرنے کی تحریک پیدا کر سکتا ہے۔ گرائمر سکھاتا ہے۔ مختلف اسلوب سے آگاہی دے سکتا ہے۔ اسلوب بنانے میں رہ نمائی کر سکتا ہے۔ فنی خامیوں، فنی خوبیوں پہ بات کر سکتا ہے۔ مضمون، آرٹیکل، بلاگ، افسانہ، کہانی، ناول، اسکرین پلے یا کوئی بھی دوسری فارم ہو، وہ لکھنے والے کو ہاتھ پکڑ کے نہیں لکھواتا۔ جب کوئی لکھنے بیٹھتا ہے، تو استاد اس کے سر پہ کھڑا ہو کے یہ نہیں بتاتا، یہاں کون سا لفظ لاؤ، اور کن معنوں میں برتو۔ ایسا تو نہیں ہوتا۔

ہاتھ قلم پکڑنے کے کام آتے ہیں۔ انگلیاں ٹائپ کر سکتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ نہ ہوں، اس کے ذہن میں خیال کلبلا رہے ہوں، اسے لکھ کے اظہار کرنا ضروری محسوس ہو، تو وہ پاؤں سے لکھنا سیکھ لے گا۔ غور کیجیے تو اربوں لوگ ہیں، جن کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں۔ کروڑوں ایسے ہیں جنھیں لکھنا پڑھنا آتا ہے، ان میں سے کتنے لاکھ ہیں جو مطالعہ کرتے ہیں؟ کتنے ہزار ہوں گے جو تخلیقی اظہار کے لیے لکھنا پسند کرتے ہوں گے؟ تو! لکھنے کے لیے ہاتھوں کی ضرورت تو ہے لیکن ہاتھوں کو حرکت دینے کے پیچھے کیا قوت کار فرما ہے؟ جذبہ، شوق، لگن، عشق راستوں کا محتاج نہیں۔ انھیں راستہ نہ ملے یہ اپنا راستہ بنا لیتے ہیں۔ عاشق کو کوئی سکھاتا ہے، کہ اسے خط کیسے لکھنا ہے؟ کیا عاشق کو اظہار کے لیے کسی اکیڈمی کسی اسکول یونیورسٹی کی حاجت ہے؟

جسے ہم گرو کہتے ہیں، وہ چیلے کو اس کے میلان ہی سے آگاہی دیتا ہے۔ کلاسیکی ذریعۂ تعلیم میں طالب علم جز وقتی نہیں، کل وقتی ہوتا تھا۔ آج کا طریقۂ تعلیم جز وقتی طریقہ تعلیم ہے۔ آج کم کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے، استاد طالب علم کا رحجان، یا میلان سمجھ کر اسے درست سمت پہ ڈالے۔ آج کا استاد نصاب پڑھاتا ہے، یعنی تعلیم تو دیتا ہے، تربیت کا بار اس کے کاندھوں پر نہیں ہے۔ طالب علم کی یہ تربیت تب شروع ہوتی ہے، جب اسکول، کالج، یونیورسٹیوں سے فراغت پا کر اپنے پیشے سے منسلک ہوتا ہے۔ پیشے کے آداب پریکٹس کرتا ہے۔ کبھی ادارے اپنے اساتذہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ جہاں تعلیم تجارت ہے، وہاں استاد کے نام کو نہیں، ادارے کے نام کو فیشن کے طور پر ابھارا جاتا ہے۔ تعلیم مقصد نہیں بل کہ امتحان میں کام یابی منزل ہے، اور امتحانی پرچا حل کرنے کے لیے کیا کیا جائے، تعلیم کا مرکز و محور یہی ہوتا ہے۔

آپ کون ہیں؟ کیا یہ بدن جو آپ آئینے میں دیکھتے ہیں، آپ یہ ہیں؟ اس سوال پہ خوب غور کیجیے۔ اس سوال کو جانے بہ غیر اگر آپ قدم اٹھائیں گے، تو اندیشہ رہے گا کہ بار بار بھٹکیں گے۔ دل، دماغ، آنکھیں، ناک، کان، چہرہ مہرہ، ہاتھ پاؤں، رنگت، یہ سب آپ کے بدن کا احوال تو کہتے ہیں، لیکن آپ کیسے سوچتے ہیں، خیالات و افکار کا تجزیہ کیسے کرتے ہیں، آپ کی اخلاقیات کیا ہیں۔ آپ نے ان اخلاقیات، ان افکار کو سوچ سمجھ کر اپنایا ہے، یا جیسے رٹائے گئے ویسے رٹ رکھے ہیں، اور ان کے مفہوم سے نا آشنا ہیں؟ جب مفہوم سے نا آشنا ہیں، تو بیان کیوں کر ہوں گے؟ اپنے افکار میں واضح ہونا، اظہار کے لیے یہ پہلی شرط ہونی چاہیے۔ یہ دیکھ لیں کہ آپ جو کہ رہے ہیں، وہ سوچ سمجھ کے، پرکھ کے کہ رہے ہیں۔ کیا ضروری ہے ہر شخص ہر بات جانتا ہو؟ میں استاد کی نشست پر بیٹھا ہوں، تو قطعیت سے کہ سکتا ہوں، ”ایسا ممکن نہیں“ ۔ اور جو بات ہم جانتے ہیں، وہ ہمارا نقطۂ نظر ہی ہو سکتا ہے، قطعیت سے وہاں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ وہ صرف ہمارا سچ ہے، سب کا نہیں۔

یہاں چند لمحے رک کے ذرا پھر سے مندرجہ بالا سطور دیکھیے، جہاں میں قطعیت سے کہتا ہوں، ”کسی کے لیے ممکن نہیں وہ ہر بات جانتا ہو“ ۔ یہ کہنے والے کا سچ ہے۔ استاد کے طور پہ مجھے کہیں کہیں قطعیت کا سہارا لینا ہے۔ ایک تخلیق کار کے طور پہ میرا یہ منصب نہیں۔ تخلیق کار اپنا زاویۂ نظر دیتا ہے نا کہ فتوا۔

جہاں تخلیق کار کچھ نہیں جانتا، وہاں سوال رکھ دیتا ہے۔ سوال، جواب، مشاہدہ، تجربہ، پہیلیاں، استعارے، علامتیں، تشبیہات، تمثیل؛ جذبات یعنی دل۔ عقل یعنی دماغ۔ ان سب کے مرکب سے کسی کا میلان بنتا ہے۔ اور جو جس کسی کا میلان ہے، وہ وہی ہے۔

اس بحث کو سمیٹنے کے لیے واپس اس سوال پر جاتے ہیں، کہ ہمیں لکھنے سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ لکھنے سے پہلے ہمیں لگن پیدا کرنی ہے، اپنے آپ کو بھرنا ہے۔ پڑھنا ہے، دیکھنا ہے، تجربوں سے گزرنا ہے، ہر طرح کے علوم پر نظر رکھنی ہے۔ مختلف افکار کا مطالعہ کرنا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے اپنے معاشرتی و سیاسی حالات سے با خبر رہنا ہے۔ دنیا بھر کی خبر رکھ لیں، اور اپنی زمین کا پتا نہ ہو، اپنے احوال سے نا واقف ہوں، جن لوگوں میں جیتے ہیں، ان کے رسوم و رواج، روایات، ثقافت، مذہبی عقائد سے آگاہی نہ رکھتے ہوں، احترام نہ کرتے ہوں، یا آگاہی رکھتے لا تعلق ہو کے رہیں، اور پھر اپنا اظہار کریں تو آپ ایسا شجر بننے جا رہے ہیں، جس کی جڑیں اس دھرتی کی گہرائی میں نہیں اترتیں۔ جب آپ سماج کا شعور رکھتے ہیں، تو آپ کو اس کی تصویر دکھانے کے لیے کینوس کا انتخاب کرنے، خاکہ بنانے، رنگوں کو ملانے، برش چلانے کی مہارتیں ہی سیکھنا ہیں، جو کسی استاد، اسکول یا اکیڈمی سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ عشق کو استاد کی حاجت نہیں ہوتی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments