میرا جی: نگری نگری پھرا مسافر


“چلو تم ادھر کو ہواہو جدھر کی”۔ یہ حالی کا منشور تھا۔ “اک پل میں منسوخ کیے دیتا ہوں/ اس دنیا کو اپنی انگلی کی مستانہ جنبش سے/اپنے ذہنی ساز کی بہکی لرزش سے”۔یہ میراجی تھے۔ حالی —اور ان کا زمانہ بہ قول حسن عسکری استعارے سے خوفزدہ تھا۔ استعارے کا ڈر کب پیدا ہوتا ہے؟ جب آدمی اپنی نفسی دنیا سے بیگانہ ہو جائے اور خود کو باہر کے سپرد کردے۔ شاعر اگر خود کو باہر کے سپرد کردے تو اس کے پاس کیا بچتا ہے؟سماج اور آخر ت کی فکر ۔ ان دونوں سے کیسی شاعری وجود میں آتی ہے، یہ سب اہل نظر پر روشن ہے۔ نو آبادیاتی ہندوستان میں استعارے کا ڈر اگرکسی نے دورکیا تو وہ ثناء اللہ ڈار میرا جی تھے۔

نفسیات میں ایک اصطلاح ملتی ہے: لوگو فوبیا۔ لوگوس یعنی لفظ کا ڈر۔ لفظوں سے خوفزدہ شخص وضاحت سے سوچنے سے ڈرتاہے اور حقیقت سے تعلق استوارکرنے سے قاصر ہوتاہے۔ استعارے کا ڈر ، اس سے بھی اگلا مرحلہ ہے۔ ہمارے دوست اختر علی سید بتائیں گے کہ نفسیات میں استعارے سے سہمی مخلوق کے لیے کیا اصطلاح برتی جاتی ہے۔میراجی نے جدید شعری تخیل کو لفظ، استعارے اور حقیقت سے وابستہ ڈر کو دور کرنا سکھایا۔ نئی لفظیات، نئے استعارے خلق کیے اور نئی موضوعات، یہاں تک کہ ان جنسی موضوعات پر بھی شاعری تخلیق کی ، جن پر پہلے ریختی کے شعرا طبع آزمائی کرتے تھے اور انھیں مضحک بنا کر پیش کرتے تھے۔یہی نہیں ، ان استعاروں کی تفہیم و تحسین بھی میرا جی نے سکھائی۔

25 مئی 1912 کو مزنگ لاہور میں پیدا ہونے والی ثناء اللہ ڈار کی زندگی فکشن سے اور شاعری اسرار سے کم نہیں۔رسمی تعلیم میٹرک بھی نہیں،مگر پڑھنے کے ایسے رسیا کہ دیال سنگھ کی لائبریری چاٹ گئے۔انھوں نے ایک طرف کلاسیکی اور قدیم ہندوستان کے شعرا: میرابائی، چنڈی داس، امرو ،امیر خسرو، انشا، میر، غالب ، ٹیگو ر کو،جب کہ مغرب کے شاعروں میں والٹ وٹمین، ڈی ایچ لارنس، ملارمے، بادلیئراور مفکروں میں ڈارون، فرائیڈ، سر جیمز جینز،ہیولاک ایلس کو پڑھا۔ ای پی ماتھرس کی “ایسٹرن لو” ان کی پسندیدہ کتب میں سے تھی،جس سے “نگار خانہ” کا جنم ہوا۔

تاہم واضح رہے کہ ہر بڑے لکھنے والے میں کتابوں کے علاوہ ، خود اس کی تخیلی و نفسی دنیا کا بھی اہم حصہ ہوتا ہے۔ ذاتی زندگی میں کئی چیزوں سے بے پروامیرا جی نے انگریزی ادب کے اس دبدبے کو کم کیا جو انیسویں صدی کے اواخر سے اردو لکھنے والوں پر طاری تھا۔تنقیدی اصطلاح میں انگریزی ادب کو ادب کا واحد اور آفاقی کینن سمجھنے کے دھوکے کو دور کیا۔ انھوں نے ادب کا ایک “کوسموپولیٹن ” تصور دیا۔ ان کی کتاب “مشرق و مغرب کے نغمے” اس تصور کی عملی صورت ہے۔ یہی نہیں، یہ کتاب اردو تنقید کی چند بہتر ین کتب میں شمارکیے جانے کی مستحق ہے۔ عین نوجوانی میں مولاناصلاح الدین احمد جیسے جید عالم ادب کے ساتھ ،ادبی دنیا کے شریک مدیر بنے اورحلقہ ارباب ذوق کو جدید ادب کے فروغ کا پلیٹ فارم بنایا۔اپنے زمانے کے باقی ادبا کی طرح، روزی روٹی کے سلسلے میں دہلی ریڈیو سے وابستہ ہوئے ۔ عمر کے آخری سال ممبئی (تب بمبئی) میں گزارے۔

اعجاز احمد جیسے نقاد نے ان کی زندگی کو ڈراما کہا۔ ان کا ثناءا للہ ڈار سے میرا جی بننا، بال بڑھانا، گلے میں مالا پہننا، پتلون کی جیب چاک رکھنا ، تین لوہے کے گولے (جنھیں وہ خود “فہم کے انڈے ” کہتے تھے) رکھنا اور ان سے لوگوں کا آملیٹ بنایا، استمنا بالید کے قصے ، میراسین کے بعد سحاب قزلباش اور بادلی بیگم سے مراسم —-یہ سب اس کی زندگی کو فکشن کی مانند باور کراتے ہیں۔ خان فضل الرحمٰن اور ژولیاں نے شاید اسی لیے ان پر ناول لکھے(لیکن کام کی کتاب گیتا پٹیل نے لکھی )۔ میرا جی کے معاصر ین میں شاہد احمد دہلوی سے منٹو تک نے انہیں سمجھنے میں ٹھوکر کھائی۔ ان کی جدید استعاراتی شاعری کو ان کی زندگی کی مانند الجھا ہوا، مبہم ،جنس زدہ کہا۔کیسا ستم ہے کہ نو آبادیاتی ہندوستان میں راج برطانیہ، ہندوستانیوں کی جو تصویر پیش کرتا تھا کہ وہ انسانی درجے سے کم تر ، محض جسمانی سطح پر جینے والے، تہذیب و شائستگی سے عاری ہیں، یہی تصویر اس شخص کی بنائی گئی ،جس نے انتہائی منظم ذہنی زندگی بسر کی۔ان کی نثر جس قدر صاف، رواں، منظم مگر جادو اثر ہے ، وہ ایک منظم ذہن کی نشانی ہے۔فیض صاحب نے اس کی تحسین کی ہے۔

اگر کسی کو جدید نثر کے اس جمال کودیکھنا ہو جو خطابت سے پاک ہو اور جس میں خیال اورواقعہ کی قربانی نہیں دی جاتی،بلکہ وہ بھی جمال ہم نشین کا پرتو لیے ہوتے ہیں تو “نگار خانہ ” پڑھے یا” مشرق ومغرب کے نغمے “۔”اس نظم میں ” وہ بات نہیں۔میرا جی کو احساس تھا کہ لوگ ان کی جسمانی زندگی پر ایک اخلاقی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی ذہنی زندگی پر نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالتے۔میرا جی کسی کی شکایت کرتے تھے نہ کسی سے بد زبانی مگر انھیں آخر میں دنیا سے ایک گلہ تھا۔1946 میں اپنے دوست عبدلالطیف کے نام خط میں میراجی نے لکھا کہ ” میں نے اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے، اس کا لحاظ کسے ہوگا”۔وہ چاہتے تھے کہ دنیا ان کے ذہن و دل و تخیل کو سب کچھ سمجھے ۔آخر ایک حقیقی لکھنے والے کے پاس اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے باقی چیزوں کی اہمیت کتنی ہے!

میرا جی نے یہ خط ممبئی سے لکھا۔ان کی زندگی کے سب سے المناک دن یہیں گزرے۔ پہلے منٹو نے انھیں سہارادیا۔ آخر میں اخترالایمان ان کے دم ساز رہے۔ انھی کے لیے” خیال “جاری کیا۔میرا جی کے لیے لوہے کے گولے نفسیاتی آسرا تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ثناء اللہ ڈارنےمیراسین کا نامـ (انھیں سہیلیاں میراجی کے نام سے پکارتی تھیں) اختیار کیا تو یہ دراصل اپنی مردمی (Masculinity) اور اس سے وابستہ تمام استعاراتی مفاہیم (جیسے طاقت، جارحیت، لوگوس وغیرہ ) سے دستکش ہونے اور نسائیت کو اپنی ہستی کا اصول بنانےکا عمل تھا۔ میرا جی کے والدمنشی مہتاب الدین کچھ عرصہ ریلوے میں اپنی ملازمت کے سبب گجرات کاٹھیاواڑ میں رہے تھے،وہیں میراجی کا تعلق بنگال اور مہارانی میرابائی سے قائم ہوا۔میراجی میں صرف میراسین نہیں، بلکہ میرابائی بھی شامل تھی اور نسائیت کے باقی سب استعاراتی تلازمات بھی۔ اگر میراجی نے اپنی شاعری میں لوگوس پر ایروس کو اہمیت دی ہےتو اس کا سبب، نسائیت کا یہی اصول تھا۔ لوہے کے تین گولے دراصل میراجی کی نسائیت میں مردمی کی کمی کی تلافی کرتے تھے۔ ممبئی میں میرا جی پہلے بے روزگاری پھر سستی شراب اور بعد میں بھنگ پینے کے سبب بیمار ہوئے ۔ خود کو اذیت پہنچانے لگے۔ گولوں کا نفسیاتی آسرا جاتا رہا۔ میرا جی کی لاچاری اور ان گولوں سے دوری میں گہراتعلق ہے۔ اخترالایمان نے ان کا نفسیاتی علاج کرانا چاہاتو انکار کردیا۔ کہا، اگر یہ نفسی پیچیدگیاں ختم ہوگئیں تو وہ لکھیں گے کیا؟ آخری دنوں میں لافورگ کی کتاب Defeat of Baudlaire اور میرابائی کی شاعری پڑھ رہے تھے۔ انھی دو کی مدد سے میراجی کی شاعری کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف میرابائی ، وشنو بھگتی (جس ے تفصیلی تعارف پہلی بار وزیر آغا نے کروایا) اور دوسری طرف جدید فرانسیسی شاعری۔ وہ گلہاے بدی اور بھگتی ، سائے اور روشنی ، مردمی اور نسائیت ، مشرق اور مغرب کے درمیان مناقشے کی بجائے تواز ن کی جستجو کرتے تھے؛ ان میں کسی جدلیاتی رشتے کے بجائے مکالمے یعنی Negotiationمیں یقین رکھتے تھے۔ وہ ان امکانات کو سوچنے سے ڈرتے نہیں تھے، جن کے سلسلے میں ان کے زمانے کے حاوی سیاسی بیانیوں نے ڈر پید اکررکھا تھا۔

راشد،مجید امجد، اختر الایمان اور فیض جدید اردو نظم کے ممتاز شعرا ہیں۔ میراجی جدید نظم کے امام ہیں۔ موضوع ، ہیئت، تیکنیک ، زبان میں تجربہ کرنا؛ ماضی وروایت کے کسی ایک نمائندے کے بجائے،ایک طرف ثقافتی ورثے کو کھنگالنا اور دوسری اپنی نفسی صورت حال کو مستند سمجھنا؛ رائج سیاسی بیانیوں کے سامنے سپر ڈالنے سے انکار کرنا تاکہ شاعری اپنی اصل کی بقا کی جنگ لڑسکے—-یہ تھی وہ جدید نظم جس کی بنیادیں میرا جی نے رکھیں۔ میرا جی کو فطرت نے سرمایہ عمر زیادہ نہیں دیا: محض سینتیس برس۔ مگر میراجی نے زمانے کو نظم ،گیت، غزل ،تراجم اور تنقید کی صورت میں قابل فخر سرمایہ دیا۔ ابہام ،ان کی نظم کی بلاشبہ اہم فنی خصوصیت ہے۔ آج بھی کئی قارئین، اس ابہام سے بدکتے ہیں۔ میرا جی کاابہام، ان کے کسی عجز کلام کا زائیدہ نہیں تھا۔ابہام متبادل پیرائے کی تلاش سے پیدا ہوتا ہے۔ خود میرا جی نے واضح کیا کہ جدید شاعری میں ابہام، جدید شاعر کے خود کے اثبات سے جڑاہے۔ مشترک زبان ، سماج دیتا ہے، شاعر اس زبان میں اپنے نفسی وثقافتی لاشعور کی برقی رو دوڑاتا ہے۔ آپ خو د اپنے اندر جانے سے اور اندر کی تاریک دنیا کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں،کبیری سماجی ، سیاسی ومذہبی بیانیوں میں اور جنگوں میں پنا ہ لیتے ہیں، اس لیے بغیر استعارے وابہام کی شاعری پسند کرتے ہیں۔ ٹیگو ر نے کہا تھا کہ جو اپنے لیے لکھتا ہے وہ سب کے لیے لکھتا ہے۔ اپنے لیے لکھنے کا مطلب، اس دکھ، اس شور،اس خاموشی ، اس خواب جیسی دنیا کو لکھنا ہے جو ہر جگہ ہمارے ساتھ ، ہماری سانسوں میں شامل ہوتی ہے اور اسے لکھے بغیر ہم دنیا سے اور خود سے کوئی بامعنی تعلق قائم نہیں کر سکتے۔ خود سے دور، سب سے دورہوتا ہے۔ میرا جی نے اپنے لیے لکھا ہوگا مگر وہ ہم سب کے لیے ہے۔ شاعر ہی استعارہ سازی سے نہیں ڈرتے ، قاری اورنقاد بھی استعارہ شناسی سے ڈرتے ہیں۔انھی کاڈر میراجی شناسی میں مزاحم ہے۔ میرا جی کی بہتر ین نظموں میں “یگانگت “بھی شامل ہے۔ اسی تناظر میں یہ لائنیں دیکھیے۔

یہ سب کچھ ،یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

یہ کیسے کہوں میں

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آکر ملے ہیں

 نظمیں ہی نہیں میراجی نے غزلوں میں بھی کچھ یادگار اشعار تخلیق کیے۔

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

چشم گریاں سے چاک داماں تک

حال آشکار ہے اپنا

وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا

مژدہ کہ بحال ہوگیا ہے

ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہوگا

چپکے چپکے بہا کرآنسو دل کے دکھ کو دھونا ہوگا

(مصنف نے میرا جی پر اوکسفرڈ سے شائع ہونے والی کتاب “اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ” لکھی ہے جسے گزشتہ سال یوبی ایل کی طرف سے بہترین اردو نثر کی کتاب کا ایوارڈ بھی دیا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments