بچے روز کھانے کو مانگتے ہیں


ہر شخص دعا کا طالب ہے کیونکہ وہ خدا کا طالب ہے۔ میں نے چند دن قبل اسے ایک ٹیکسٹ میسج کیا تھا۔ اور درخواست کی تھی کہ قاری صاحب; دعاؤں میں یاد رکھا کریں۔ آپ نیک بندے ہیں۔ قرآن پڑھاتے ہیں۔ اس خطرناک بیماری کے ختم ہونے کے لئے بھی دعا کیا کریں

آج دو دن بعد جب ہم سحری کر رہے تھے۔ تو میرے فون پر قاری صاحب کا جوابی میسج آیا تھا۔ میسج تو ٹوٹی پھوٹی رومن اردو میں لکھا گیا تھا۔ لیکن ان الفاظ کا درد اور کرب کم ازکم مجھ کمزور انسان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ قاری صاحب نے لکھا تھا۔ ”میں آپ کو روز دعا دیتا ہوں، بلکہ میں تو سب مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگتا ہوں۔ لیکن آج کل میں اپنے بچوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ یہ مجھ سے روز کھانا مانگتے ہیں۔ ان کو روز بھوک لگ جاتی ہے۔

میں ان کے لیے روز کھانا کہاں سے لاؤں۔ پہلے مدرسے میں تین چار سو بچے آتے تھے۔ میں وہاں ان کو قرآن پڑھاتا تھا۔ سات ہزار تنخواہ مقرر تھی۔ ہم سب اللہ کا شکر ادا کرکے کھا رہے تھے۔ لیکن اب دو مہینے ہو گئے ہیں، حکومت نے مدرسے اور مساجد بند کر دیے ہیں۔ وہ تنخواہ جو ہماری گزر بسر تھی۔ وہ بھی بند ہوگئی ہے۔ باہر کوئی مزدوری بھی نہیں ہے۔

چند دن تو پڑوسی ایک وقت کا کھانا دے دیتے تھے۔ جسے ہم آدھا کھلا کر، آدھا بچا کر رکھتے تھے۔ تاکہ بچے دوسرے وقت بھی کھا سکیں۔ اسی کھانے میں سے میں اور میری بیوی دو لقمے صبح اور دو لقمے شام کو کھا لیتے تھے۔ لیکن اب تو پڑوسیوں نے یہ کہہ کر کھانا بھجوانا بند کر دیا ہے کہ حکومت راشن دے رہی ہے۔ جا کر کسی جگہ پر اپنا نام لکھوا آئیں۔ ۔ ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں پر اپنا نام لکھواؤں۔ لیکن سب کہتے ہیں۔ کہ نام پہلے ہی لکھے گئے ہیں۔ آپ کے فون پر میسج آئے گا۔ لیکن آج تک میرے فون پر نہ کوئی میسج آیا ہے۔ نہ کسی نے ہمارا حال پوچھا ہے۔

پرسوں تین محلے چھوڑ کر ایک جگہ گیا تھا۔ وہاں انہوں نے کچھ آٹا اور دو کلو دالیں دی ہیں۔ مجھے اللہ کی قسم ہے۔ کہ اس وقت میری جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ میرے شاگردوں میں سے کچھ بڑے ہیں۔ ان کو بھی میرا خیال نہیں ہے۔ میں کیا کروں، میں کہاں جاؤں۔

میں قاری صاحب کو گزشتہ پانچ سال سے جانتا ہوں۔ وہ کوٹ ادو کے قریب ایک مدرسے میں استاد ہیں۔ ان حالات میں اس میسج سے پہلے، میں نے کبھی ان کے منہ سے غربت کا گلہ سنا ہے اور نہ تنگی داماں کی شکایت۔ وہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے والے ایک غیرت مند انسان ہیں۔ دست سوال دراز کرنا ان کی غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔ لیکن ایسے حالات میں جب آپ کے چھوٹے چھوٹے تین معصوم بچے آپ کے سامنے بھوک سے بلک رہے ہو۔ اور آپ کو کوئی راستہ دکھائی نہ دے رہا ہو۔ تو ایسے میں انسان کے صبر کا بندھن ٹوٹ ہی جاتا ہے

سوچتا ہوں۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے ایسے کتنے لوگ ہیں۔ جن کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے روزگار بند ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے میسج اور آواز کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کہ کوئی ضرورت مند ہمارے آگے روئے۔ اپنی غربت اور اپنی بے بسی کا ڈھنڈورا پیٹے تو پھر ہم ان کی مدد کرنے کو جاییں۔ اسکول بند ہیں۔ مدرسے بند ہیں۔ مسجدوں میں نمازی کم ہے۔ ٹرانسپورٹ رکی ہوئی ہے۔ گویا پیسے کی گردش رک گی ہے۔ پرائیویٹ نوکر اور مزدور جو پہلے کسی نہ کسی طرح اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔

اب خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے گلی محلے میں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے۔ کہ جب تنخواہ نہیں ہوگی۔ کام رکھا ہوا ہوگا۔ توہاتھ تو خالی ہوگا ہی۔ اور جب ہاتھ خالی ہوگا۔ تو گھر کا چولہا ٹھنڈا ہوگا۔ ایسے میں بچے تو معصوم بھی ہے اور مجبور بھی۔ وہ تو روز کھانا مانگتے ہیں۔ رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ صدقہ و خیرات کے معاملے میں ہم پاکستانی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ہم صدقہ بھی دیتے ہیں اور خیرات بھی دیتے ہیں۔

لیکن ایسا کرنے کے لیے ہم اپنی سہولت کا وقت اور موقع تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے لیے اچھے موقع کی تلاش میں بیٹھا نہیں ہونا چاہیے۔ ان ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیں ان کے ٹائم ٹیبل کے مطابق چلنا ہوگا۔ ورنہ یاد رکھیں۔ بچے تو معصوم ہیں وہ روز کھانے کو مانگتے ہیں۔ ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی ایک بروقت امداد سے ان معصوم چہروں پر بہت ساری مسکراہٹیں پھیل سکتی ہیں میرا یقین کیجیے یہ دوسروں کی امداد کرنا، دنیا کی واحد ادا ہے جس کے پھیلنے سے کسی کو نقصان نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments