کس لباس اور پیشے والی عورتیں جنتی ہوں گی؟



جمعۃ الوداع، 22 مئی کے روز پیش آنے والے طیارہ حادثے میں 90 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان میں ایک فیشن ماڈل زارا عابد بھی شامل تھیں۔ حادثے کے بعد جب زارا عابد کے اسی طیارے میں سوار ہونے، لاپتہ ہونے، اور بعد ازاں وفات کی اطلاعات ملیں تو کچھ اعلیٰ درجے کے پارسا اور متقی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ ماڈلنگ جیسے ”بے حیا“ پیشے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے لئے دعائے مغفرت کریں یا نہیں۔

بلکہ کچھ نے تو یہاں تک بھی لکھ دیا کہ ایسی عورتیں جہنمی ہوتی ہیں کیونکہ وہ نامحرم مردوں اور میڈیا کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرتی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ماڈلنگ کا پیشہ حرام ہے اور اس سے تعلق رکھنے والوں / والیوں پر اللہ کا عذاب ہوتا ہے وغیرہ۔ زارا عابد کے بارے میں ایسے اخلاق سے عاری کومنٹس پر کئی ٹویٹر / فیس بک صارفین نے بجا طور پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

اس معاملے میں میرے سوالات یہ ہیں کہ ایک مخصوص طرز لباس اور پیشے سے تعلق کی بنیاد پر کسی کو جنتی یا جہنمی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دینا کہاں کی اخلاقیات ہے؟ کیا دین اسلام جو اخلاقیات کا سب سے بڑا داعی ہے، ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم بعد از مرگ کسی کی کردار کشی اور غیبت کریں؟ اور یہ کہ ماہ رمضان میں وفات پا جانا کسی کی بخشش اور مغفرت کی ضمانت نہیں کیونکہ اس کا تعلق ایک ”گناہ گار“ پیشے سے تھا؟ ہم نے نیکی بدی اور جنت جہنم کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ذمہ داری کیوں اپنے ”نیک و پارسا“ کندھوں پر اٹھا لی ہے جبکہ یہ اللہ کا کام ہے؟ ہم نے یہ کتنی مرتبہ سوچا ہے کہ بعد از مرگ ہمارا انجام اور مقام کیا ہو گا؟ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں سے اگر ان کے اپنے کردار کا ثبوت مانگ لیا جائے تو کیسے پیش کریں گے؟ غیبت اور کردار کشی کے مرتکب افراد بھی یقیناً جنتی تو نہ ہوں گے۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی شو میں میزبان ریما خان نے بہت خوبصورت بات کہی کہ ہم لوگوں سے وہ سوال کیوں کیے جاتے ہیں جنہیں پوچھنا اللہ کا کام ہے۔ میرے خیال میں ہم ماڈلز اور اداکاروں کی جتنی غیبت کرتے ہیں، وہ ان کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ ہماری نیکیوں کا ثواب ہم سے چھین کر اسے دے دیا جاتا ہے جس کی ہم غیبت کرتے ہیں۔ غیبت گناہ کبیرہ ہے چاہے کوئی شخص حقیقتاً گناہ گار ہی ہو۔ کسی کا شوبز سے تعلق ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس کے جہنمی ہونے کا یقین کر لیں اور سوشل میڈیا پر اس نیکی کو عام بھی کر دیں۔

اسلام حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد اور اخلاقیات پر زور دیتا ہے۔ ہم اخلاقیات کے معاملے میں کہاں کھڑے ہیں، ٹویٹر، فیس بک، اور دیگر سوشل میڈیا ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ زارا عابد کا انسٹاگرام اکاؤنٹ لوگوں کے ایسے ہی ناقابل برداشت کومنٹس کی وجہ سے ان کے دوستوں اور فیملی نے ڈی ایکٹیویٹ کر دیا ہے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے۔ دنیا تو دنیا، ہم دنیا سے چلے جانے والوں کو بھی نہیں بخشتے۔

بظاہر بے حیا نظر آنے والی عورتیں ”بے حیائی“ میں اس قدر مصروف ہوتی ہیں کہ وہ فارغ لوگوں کی طرح کسی کی غیبت اور جزا و سزا کے بیانات دینے کا وقت ہی نہیں نکال پاتیں۔ پھر تو وہ ہم لوگوں سے زیادہ بہتر ہوں گی۔ ہم بھی غیبت اور جزا و سزا سے متعلق بیانات دینا ترک کر کے بہتر بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ہر شخص کو اپنے اچھے برے اعمال کا حساب خود دینا ہے۔ ہر ایک کو اپنی قبر میں جانا ہے۔ ہر ایک اپنی نیکی یا بدی کی سزا خود پائے گا / گی۔

اگر ہم اللہ سے بخشش اور معافی کے طلبگار ہیں تو پہلے خود تو اس کے بندوں کو معاف اور ان پر رحم کرنا سیکھ لیں۔ جو کام اللہ کے ہیں، وہ اللہ ہی پر چھوڑ دیں۔ دوسروں کو دنیا سے چلے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد کریں کیونکہ ہمیں بھی تو ایک روز یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے۔ کیا ہم یہ چاہیں گے کہ مرنے کے بعد ہمارے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ تو جہنمی ہے۔ جو الفاظ ہم اپنے لئے برداشت نہیں کر سکتے، وہ دوسروں کے لئے کیوں بولیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments