پنجابی بزدل نہیں اور پٹھان چور نہیں


بھائی صاحب۔

عرض یہ ہے کہ لفظ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور اس قبیل کے دیگر الفاظ کو ہمارے ہاں بہت سطحی انداز میں مجموعی تناظر میں غلط اور ایک دوسرے سے کم تر اور برتر کے معنوں میں برتا جاتا ہے اس لئے چند باتوں کی تفصیل جان لینا ضروری ہے۔

آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ اس ملک میں دس کروڑ سے زیادہ لوگ ناخواندہ ہیں۔ کثیر ثقاقتی تناظر میں رویے ناخواندگی میں پروان چڑھتے ہیں۔ ناخواندہ لوگوں کے مباحث میں واقعات، قصے، کہانیاں اور دلائل کی بنیاد سینہ گزٹ کی بنیاد پر سنائے جاتے ہیں۔ قوم، قبیلے، اور عقیدے کو موضوع بنانا ان مباحث کا بنیادی موضوع ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنے عقیدے کی برتری اور اپنے قبیلے اور قوم کی برتری کی داستانیں زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔ اسی خمیر سے قوم کے نوزائیدہ بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔ ہمارے بچے بچپن سے یہ سنتے ہیں کہ باہر نہ نکلنا ورنہ پٹھان چوری کر لے گا۔ ہم نے بچپن سے سنا ہوتا ہے کہ سکھ بے وقوف ہوتے ہیں۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ سندھی مانڑو ہیں نہ لینے میں ہیں اور نہ دینے میں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پنجابی بزدل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم جوان ہو جاتے ہیں۔ پڑھ لکھ جاتے ہیں مگر جہالت کی خمیر سے اپنا دامن چھڑا نہیں پاتے۔

دیکھیے! چند باتیں اصول ہوتی ہیں۔ ہر صاحب ہوش و علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان سے آگاہ ہو گا۔ پیدائش مرضی کا معاملہ نہیں ہوتا۔ کوئی پٹھان پیدا ہو کر پنجابی یا سندھی زبان پر مہارت حاصل کر سکتا مگر اپنی شناخت بدل نہیں سکتا۔ شناخت پیدائش کا اتفاق ہے۔ اس لئے کسی شخص کو شناخت کی بنیاد پر خود سے کم تر یا خود کو کسی پر برتر سمجھنا جہالت اور اقدار کی بدترین پسماندگی ہے۔ انسانیت کے درمیان مساوات کا مقصد یہی ہے کہ پیدائش کے امتیاز کو منفی کیا جائے۔ قوم، قبیلے، ذات پات کا ذکر کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اچھائی اور برائی کے پیمانے مجموعی نہیں ہوتے اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ امریکی جنگوں کی بنیاد پر امریکی قوم کو قاتل نہیں کہا جا سکتا۔ ہٹلر کے مظالم کی بنیاد پر جرمن قوم کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کی بنیاد پر جنوبی افریقی قوم کو برتر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردوں کے مسلمان ہونے پر مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے مکالمے میں کسی قوم قبیلے کا ذکر مجموعی تناطر میں نہیں کیا جاتا۔

یہ جان لینا چاہیے کہ تمام انسان صلاحیت، مرتبے اور حقوق میں برابر ہیں۔ جرم یا تشدد کی کوئی لسانی یا قبیلوی شناخت نہیں ہوتی۔ قوم قبیلہ مجموعی طور پر کند ذہن، کم عقل یا تشدد پسند نہیں ہوتا۔ گورا، کالا، لمبا یا موٹا انسانی شناخت کی علامت نہیں ہوتے۔ نسل پرستی ایک بدترین تصور ہے جو انسانوں میں امتیاز برتنے کا اصول بن چکا ہے۔ اس ملک کے پڑھے لکھے باشعور انسان سے انسان توقع کی جاتی ہے کہ وہ کم سے کم درجے میں بھی خود کو اعلی اور دوسرے کو ادنیٰ نہ سمجھتا ہو۔ جان لینا چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور صوبے اس کی اکائیاں۔ بڑے صوبے کو اگر آبادی کی بنیاد اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اور اقتدار برقرار رکھنے کے لئے اگر اہل سیاست وفاق کی اکائیوں کو برابر حقوق دینے کی بجائے بڑے صوبے میں ہی انتخابی حلقوں پر توجہ مرکوز رکھے تو یہ سیاسی جبر ہے۔ یہ سیاسی موضوع ہے۔ اس پر اگر چھوٹے صوبے گلہ شکوہ کریں تو یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اس سیاسی بحث کو ذات پات اور قوم قبیلے کی نظر سے دیکھنا نسل پرستی ہے۔ یہ آپ کریں یا میں کروں جرم ہے۔ معاشروں میں یک رنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اجتماعی زندگی گزارنے کا بنیادی اصول دوسرے انسان کی پہچان اور اس کے برابر کے حقوق پر منحصر ہوتا ہے۔ میری دست بدستہ درخواست ہے کہ آئیندہ کے لئے کسی قوم، قبیلے، ذات پات کا ذکر کم تری یا برتری کی بنیاد نہ کیا جائے۔ انسانی معاشرے میں محبت اور احترام کو پروان چڑھانے کا بنیادی اصول انسانی مساوات ہے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments