المناک حادثہ دلخراش وجوہات


23 مئی دو ہزار بیس کو دوپہر ڈھائی بجے جب لوگ نماز جمعہ ادا کر رہے تھے، کچھ نماز ادا کر کے گھر کی طرف گامزن تھے کہ ایک زور دار دھماکے نے کراچی کی ماڈل کالونی کو لرزا دیا۔ لاہور سے کراچی پہنچنے والی ایر بس رن وے سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر واقع رہائشی عمارتوں سے ٹکرا گئی۔

اس جہاز کو ایک تجربہ کار پائلٹ سجاد گل اڑا رہے تھے جن کا تجربہ چوبیس سال پر محیط تھا اس دوران انہوں نے سترہ ہزار سے زائد گھنٹے فلائنگ کی تھی اتنے تجربے کار کیپٹن پر اس حادثے کا ملبہ ڈالنے کسی صورت درست نہیں۔

بہت سے شواہد تو حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ہی منظر عام پر آئیں گے البتہ اس حادثے کی ایک اور وجہ تو بالکل واضح ہے۔ سول ایوی ایشن آرڈیننس پاکستان کی رو سے ایرو ڈروم سے مراد وہ علاقے لیا جاتا ہے جہاں جہازوں کے اترنے اور اڑنے کی سہولیات مہیا ہوں۔

اسی سول ایوی ایشن آرڈیننس 1960 کی شق چھ اے کی رو سے ایرو ڈروم کے پندرہ کلومیٹر کے اندر کسی عمارت یا درخت لگانے کی اجازت نہیں اور حکومت کو ایسی کسی بھی عمارت کو گرانے کا مکمل اختیار ہے۔

کراچی ائرپورٹ کے اس قدر قریب بلند رہائشی عمارتوں کی موجودگی انٹر نیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن اور سول ایوی ایشن رولز 1994 کی مکمل خلاف ورزی ہے۔

آرڈیننس کی اس شق خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ قید اور یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں مگر کیا وطن عزیز میں آج تک کسی کو بھی یہ سزا دی گئی ہے؟

پشاور ائرپورٹ ہو یا کوئٹہ لاہور ائرپورٹ ہو یا کراچی ہر جگہ اس قانون کی خلاف ورزی ہی نظر آتی ہے۔ رہائشی علاقے ہوائی اڈے سے بالکل متصل ہیں جس کے باعث کبھی بھی کراچی جیسا سانحہ پیش آ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہوائی اڈے شہر سے فاصلے پر تعمیر کیے جاتے ہیں راقم کو بیرون ملک جن ہوائی اڈوں کو دیکھنے کا موقع ملا ان کو آبادی سے خاصے فاصلے پر پایا۔

بنکاک کا سورن بھومی بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہو یا دبئی کا ہوائی میدان کولمبو کا بندرانائکے ائرپورٹ ہو یا کوالالمپور کا ہوائی اڈہ انسانی آبادیوں سے مناسب اور بین الاقوامی قانون کے مطابق فاصلہ موجود ہے۔

ہمارے ہاں بھی ہوائی اڈے تو آبادیوں سے فاصلے پر بنائے گئے لیکن بعد ازاں بدعنوانی کے عفریت نے تقریباً ہر ائرپورٹ کے قرب جوار میں بہت سی رہائشی اسکیموں کو جنم دیا۔ جس کا سدباب نہ ہونے کی بدولت یہ المناک حادثہ دیکھنا پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ بدقسمت جہاز رن وے سے محض دو سو میٹر دور عمارتوں سے عقبی حصہ ٹکرانے کے باعث تباہ ہوا اور بڑی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ حادثے کی ویڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کیپٹن نے آخری لمحے تک جہاز کو بحفاظت اتارنے کی سعی بلیغ جاری رکھی۔ جہاز کے راستے میں اگر رہائشی عمارتیں نہ ہوتیں تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔

ماڈل کالونی کراچی ائرپورٹ سے چار کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ایک گنجان آباد علاقہ ہے نیک بختی سے وہاں کے رہائشی افراد جانی نقصان سے تو محفوظ رہے لیکن حکومتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث وہاں ہونے والی تعمیرات نے ہمیں ایک اور سانحے سے دوچار کر دیا۔ اس ضمن میں سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے کسی بھی سانحے سے بچا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments