جب بھٹو صاحب نے ”عید پڑھنے“ سے انکار کر دیا


ملک میں طویل فوجی راج کے بعد جمہوریت آ چکی تھی، بھٹو کی پیپلز پارٹی الیکشن میں کلین سویپ کر چکی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم بن چکے تھے، میں ان دنوں بطور ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ تعینات تھا، بھٹو دور حکومت کی پہلی عید سر پہ تھی کہ شہر میں المرتضٰی کے قریب ہی واقع جامع مسجد کے مولوی نے کسی نماز کے بعد درس میں کوئی ایسی بات بول دی جس سے اہل تشیع کی دل آزاری ہوتی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے فون کر کے قدرے برہمی بھرے لہجے میں مولوی کا شکایت کی۔

میں شہر کا ڈی سی تھا، فرسٹ لیڈی کی شکایت پر کیسے ایکشن نہ لیتا۔ میں نے مولوی صاحب کو بلا کر تھوڑا ڈانٹا تو مولوی روایتی انداز میں مذہب (یا مسلک) کی آڑ میں جذباتی ہو کر میرے ساتھ ’سیدھا‘ ہوگیا۔ میں نے اسے لاک اپ میں بند کروا دیا۔ دو دن بعد عید تھی اور یہی لاڑکانہ کی مرکزی مسجد تھی۔ اب مسئلہ پیدا ہوگیا کہ مولوی تو اندر ہے لہٰذا عید کون پڑھائے گا۔

بھٹو صاحب عید کرنے لاڑکانہ آچکے تھے، پرائم منسٹر نے بھی اسی مسجد میں عید کی نماز پڑھنی تھی مگر مسجد کے پیش امام یعنی اسی مولوی نے رہا ہونے سے انکار کر دیا اور وہیں تھانے کی حوالات میں دھرنا دے دیا تھا۔ ساری ایڈمنسٹریشن کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں مگر مولوی تھا کہ مان ہی نہ رہا تھا اور جذبات میں اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ بیگم صاحبہ کی ”سوری“ یعنی معذرت پر بھی نہیں مانا۔

میں نے پرائم منسٹر کو پورے معاملے پر بریف کیا تو بھٹو صاحب ایک دم آٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے ہیں ’چلو چلتے ہیں اس کے پاس‘ لیکن۔ مولوی بھٹو صاحب کے منانے کی کوششیں بھی خاطر میں نہ لایا، بلکہ مزید اکڑ گیا۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا ’ٹھیک ہے مولوی صاب، پھر میں بھی آپ کے ساتھ یہیں رہوں گا۔ میں نے کبھی عید کی نماز نہیں چھوڑی لیکن آپ کی وجہ سے اس دفعہ چھوٹتی ہے تو چھوٹ جائے‘ اس ایکشن کا مولوی پر ایسا اثر ہوا کہ فوری آٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بولا ”نہیں نہیں، میں آپ کی نماز نہیں چھڑواؤں گا، چلیں جیسا آپ لوگ کہتے ہیں! ۔“

یہ واقعہ پیپلزپارٹی کے رہنما، پارٹی کی فیڈرل کونسل کے سابق چیئرمین مرحوم خالد کھرل نے ایک بار شادمان لاہور میں اپنے گھر پر غیر رسمی روایتی گپ شپ میں خود سنایا تھا کہ وہ بہت سادہ مزاج، بے تکلف اور سوشل انسان تھے، کبھی مجھے گپ شپ کے لئے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے واقع برج کالونی میں اپنے دفتر میں بھی یاد کرلیتے تھے۔ شاید اس دور کے زیادہ تر ڈی سی مسعود کھدر پوش، ڈاکٹر امجد ثاقب، مصطفیٰ زیدی اور خالد کھرل جیسے ہی ہوتے ہوں۔

یہ واقعہ اس بار ”یوم علی“ کے موقع پر سندھ کے مختلف شہروں میں اہل تشیع کے جلوسوں سے پیش آنے والی صورتحال، بالخصوص لاڑکانہ کی ایک مختصر وڈیو دیکھ کر یاد آ گیا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آنے والے اس پہلے بڑے مذہبی دن پر نکلنے والے ایک جلوس کے شرکا نہ صرف انہیں منتشر کرنے کے لئے بھیجی گئی ساری کی ساری پولیس فورس ہی کو واپس تھانے میں دھکیل رہے ہیں بلکہ خود بھی پورا جلوس ان کے پیچھے تھانے میں گھس رہا ہے، جس نے پولیس نفری کو اسی کے تھانے میں بند کر دیا۔

بیک وقت سوشل ڈسٹینسنگ کا ”وعظ“ کرنے اور لاک ڈاؤن کو ناپسندیدہ بھی قرار دینے والی حکومت کے دور میں کسی بھی وقت کوئی بھی صورتحال پیش آ سکتی ہے، ڈر ہے کل کلاں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری پولیس لاڑکانہ کے مولوی کی طرح خود کو اپنے اپنے تھانوں میں بند نہ کر لے اور ”دھرنا“ دے بیٹھے، پھر اسے کون منائے گا۔ ہمارے پاس تو کوئی دوسرا بھٹو بھی نہیں ہے، لاڑکانہ کے مولوی ہی کی طرح بس ایک ہی تھا کہ روز روز بھٹو پیدا نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments