چین نے اس برس جی ڈی پی کا ہدف کیوں مقرر نہیں کیا ہے؟


کسی بھی ملک کے اقتصادی ترقیاتی اہداف میں عام طور پر سالانہ بجٹ میں جی ڈی پی سے متعلق ایک ہدف طے کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ مالی سال کے دوران یہ ہدف حاصل کیا جائے۔ انہی معاشی اشاریوں کی بنیاد پر ملک کی مجموعی اقتصادی شرح نمو کو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر پرکھا جاتا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کسی ملک کو مستحکم معیشت یا پھر زوال پذیر معیشت کے درجے پر فائز کرتے ہیں۔

اس وقت اگر کووڈ۔ 19 کے باعث عالمی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ماہرین اسے بدترین مالیاتی بحران قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت دنیا کی بڑی معیشتوں کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ صنعتیں جمود کا شکار ہیں۔ غربت اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں بدترین گراوٹ کے بعد اتار چڑھاؤ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ شعبہ ہوا بازی سمیت سیاحت کا شعبہ وبائی صورتحال کے باعث شدید مندی کا شکار ہے۔ اسٹاک مارکیٹس بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر معاشی منصوبہ سازوں کے لیے اس صورتحال میں اقتصادی منصوبہ بندی یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

ایسے میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے رواں برس کے اہم ترقیاتی اہداف میں جی ڈی پی کے لیے کوئی مخصوص ہدف طے نہ کرنا یقیناً حیران کن ہے اور عالمی سطح پر اس حوالے سے بحث و مباحثہ بھی جاری ہے کہ چین کے اس اقدام کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ چینی قیادت نے اسے ایک ”غیر معمولی صورتحال“ میں ایک ”غیر معمولی قدم“ قرار دیا ہے۔ عالمگیر وبا کے باعث رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران چین سمیت دنیا بھر میں اقتصادی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہی ہیں اور تقریباً سبھی ممالک کو معاشی بحالی کے لیے مختلف اقدامات اٹھانا پڑے ہیں لہذا ایسے میں چین کی جانب سے جی ڈی پی کا مخصوص ہدف طے نہ کرنا صورتحال کا تقاضا بھی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے لیے چین کا یہ اقدام تعجب انگیز ہے مگر چین نے اپنی اقتصادی منصوبہ سازی کی وجوہات بھی کھل کر بتا دی ہیں۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وبا کے باعث کئی عوامل مختلف ممالک کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر بدترین مالیاتی بحران یقینی نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے چین عالمی کساد بازاری سے کیسے متاثر ہوتا ہے لہذا اقتصادی ترقی کے لیے اگر مشکل ہدف کا تعین کر دیا جائے تو یہ ملک کے مجموعی ترقیاتی اہداف سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے گا۔ لہذا کچھ وقت کے لیے جی ڈی پی کے مخصوص ہدف پر توجہ مرکوز نہ کرتے ہوئے صرف اقتصادی بحالی پر توجہ مرکوز کرنا بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔

چینی وزیر اعظم نے 2020 کے لیے معاشی نمو کا مخصوص ہدف طے نہ کرنے سے متعلق واضح کیا کہ دنیا بھر میں کساد بازاری کے سبب چین کی کوشش رہے گی کہ روزگار کے تحفظ، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، مالیاتی منڈیوں کی بہتر صورتحال، توانائی اور خوراک کا تحفظ، مستحکم صنعتی چین اور حکومتی امور پر زیادہ توجہ دی جائے۔ چینی صدر شی جن پھنگ بھی چین کے حالیہ دو اجلاسوں کے دوران کہہ چکے ہیں کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے معیار کو فوقیت دی جائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ چھوٹے، درمیانے اور مائیکرو کاروباری اداروں کی مدد کی جائے تاکہ وبائی اثرات کو ممکنہ حد تک کم کیا جا سکے۔

چین نے اپنے ترقیاتی اہداف میں نوے لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے جبکہ موجودہ سال چین سے غربت کے مکمل خاتمے کا سال بھی ہے لہذا ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب حقائق کا ادراک کرتے ہوئے معیاری اقتصادی ترقی کو ترجیح دی جائے۔ چینی حکومت نے بے روزگاری کو چھ فیصد کی سطح تک برقرار رکھنے کا ہدف طے کیا ہے۔ اس ضمن میں کوشش کی جائے گی کہ کالج گریجویٹس، دیہی تارکین وطن اور روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کو ترجیح دی جائے۔ سال دو ہزار بیس اور اکیس کے دوران تین کروڑ سے زائد افراد کو فنی تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ انہیں روزگار مل سکے۔

چین میں غربت کے خاتمے کی کوششیں بھی وبا کے باعث متاثر ہوئی ہیں جو یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں۔ غربت کی شکار کاونٹیوں اور دیہی علاقوں کو امداد کی فراہمی، انسداد غربت سے وابستہ صنعتی ترقی اور غریب افراد کی جدید سہولیات سے آراستہ علاقوں تک منتقلی ایک کٹھن اور دشوار مرحلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں غربت سے نجات پانے والے افراد کا مستحکم خوشحال زندگی کی جانب سفر کا تسلسل بھی لازم ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کو بھی چین کی اقتصادی ترقی کے عمل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ چین اس وقت گرین ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے اور اقتصادی بحالی کے عمل میں ماحولیات کا تحفظ بھی چینی قیادت کی ترجیحات میں شامل ہے بلکہ معیاری اقتصادی ترقی کا ایک اہم نکتہ ہے۔

یہ تمام وجوہات اپنی جگہ جس کے باعث چین نے جی ڈی پی کا مخصوص ہدف طے نہیں کیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وبا کی دوسری لہر کا خطرہ بدستور منڈلا رہا ہے کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ 1918 اور 1919 میں اسپینش فلو کی تین لہروں کا انسانیت کو سامنا کرنا پڑا۔ ایسے عوامل پر مکمل کنٹرول نہایت دشوار ہو سکتا ہے۔ اسی باعث چین نے رواں برس کے دوران لچکدار اور معقول اہداف کا تعین کیا ہے تاکہ پائیدار ترقیاتی نمونے پر عمل پیرا رہتے ہوئے پیش قدمی کی جا سکے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے چین اصلاحات اور کھلے پن کو مزید فروغ دے گا اور اختراعی، مربوط، گرین اور کشادہ ترقی کے نظریات پر عمل درآمد سے حقیقی ترقی کی جستجو کی جائے گی۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ”مخصوص ہدف“ کا تعین نہ کرنا ایک ”بہترین ہدف“ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments