گاڈ پارٹیکل اور فزکس کا خاتمہ؟


4 جولائی 2012 ذراتی طبیعات کی دنیا کا ایک یادگار دن ہے کہ جب قریب پانچ دہائیوں پر مشتمل انتظار ختم ہوا اور ذرات کو کمیت دینے والا ذرہ جسے میڈیا میں ’خدائی ذرے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے دریافت ہوگیا۔ اس دریافت نے اس اہم ترین نظریے کی تکمیل کر دی جس کا خواب کبھی آئن سٹائن نے دیکھا تھا اور اسے شرمندہ تعبیر نہ کر سکا تھا۔ اور جس نظریے کی درست بنیادیں گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں پال ڈیراک اور رچرڈ فائن مین جیسے نابغوں نے رکھی تھیں۔

اور جس میں ایک اہم کردار ہمارے اپنے واحد پاکستانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، امریکی سائنسدان شیلڈن لی گلاشو اور سٹیون وائنبرگ نے ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری اہم پیش رفت مرے گیل مان اور پیٹر ہگس وغیرہ نے کی تھی۔ (اس میں دیگر کافی اہم نام بھی شامل ہیں جیسے یوکاوا، ڈیوڈ گراس، فرانز ولچیک وغیرہ) ۔ اس نظریے کو آج سٹینڈرڈ ماڈل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس ماڈل نے کشش ثقل کے علاوہ دیگر تمام مظاہر فطرت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔

برقی مقناطیسی قوت کے مظاہر جن میں روشنی سے لے کر بادلوں کی گرج، زمین پر ہونے والے ماحولیاتی تغیرات، زندگی کے بنیادی تعاملات سمیت جدید تکنیک کی رنگا رنگ دنیا شامل ہے۔ کمزور نیوکلیائی قوت کہ جس کی باعث ہم تابکاری شعاؤں کو جان سکے اور اس کی مدد سے نیوکلیئر توانائی کو استعمال میں لا سکنے کے علاوہ علم الارضیات و انسانیات میں اہم پیش رفت کے قابل ہوئے اور اسی طرح مضبوط نیوکلیائی قوت کہ جس نے ایٹم کے مرکزے کی اندرونی ساخت کے راز افشا کرنے کے ساتھ ساتھ آغاز کائنات کے وقت کے مظاہر کو بھی انسان کے لئے قابل فہم بنانے میں کردار ادا کیا۔

یہ تینوں اہم قوتیں ایک ہی بنیادی فریم ورک کے تحت اگر قابل فہم ہو سکتی ہیں تو وہ سٹینڈرڈ ماڈل ہے۔ اس ماڈل میں مادے اور اس کے درمیان ہونے والے مظاہر کی قوتوں کو ایک ہی مساوات میں لکھ دیا جاتا ہے جس کے مختلف پرزے ایک ایک مظہر کی بنیادی سائنس بتاتے ہیں۔ اور یہ سارا کام جس ریاضیاتی سکیم کے تحت کیا جاتا ہے اسے کوانٹم فیلڈ تھیوری کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سکیم کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں کسی فیلڈ کو کوانٹم میکانیات سے جوڑا جاتا ہے۔

کوانٹم فیلڈ کو سمجھنے کے لئے پہلے فیلڈ کا تصور سمجھ لینا چاہیے۔ فیلڈ سے مراد ایک ایسی مسلسل مادی مقدار ہے جسے براہ راست محسوس نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ہونے کے وافر دلائل مختلف مادی مظاہر سے ملتے ہیں۔ سادہ سی مثال لیجیے۔ فرض کریں کہ آپ دو مقناطیس ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں تو آپ کو دونوں کے درمیان ایک قوت محسوس ہوگی جو یا تو انہیں دفع کرے گی یا کشش پیدا ہوگی۔ ہمیں جو براہ راست نظر آ رہا ہے وہ مقناطیس ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا خیال یہ فیصلہ کرنے کی طرف جائے گا کہ دونوں کے درمیان کوئی اور شے ہے جو نظر تو نہیں آتی لیکن اس نے دونوں مقناطیسوں کا تعلق بطور دفع یا جذب قائم کر رکھا ہے۔

ہم مزید احتیاط سے اس نادیدہ قوت کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔ اسے عرف عام میں مقناطیسی قوت کہتے ہیں۔ اسی کو فیلڈ کہا جاتا ہے (اگرچہ ریاضیاتی طور پر فیلڈ اور قوت دو مختلف اشیا ہیں ) ۔ جس طرح یہ مقناطیسی فیلڈ ہمیں حقیقی طور پر محسوس ہوتا ہے ایسے ہی ہم ہر مادی مظہر کے لئے ایسے کسی فیلڈ کا وجود لازمی قرار دیتے ہیں۔ جیسے برقی قوت کے لئے برقی میدان یا فیلڈ ہوتا ہے۔

فیلڈ کی کلاسیکی تعریف کے مطابق یہ ایک متسلسل مقدار ہے یعنی مکان و زمان کے ہر نقطہ پر اس کی کوئی نہ کوئی واضح مقدار ہے۔ یعنی دو مقناطیسوں کے درمیان ہر جگہ اور ہر وقت یہ فیلڈ موجود رہتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کلاسیکل عہد کے تصورات انسانی سطح کی اشیا اور مظاہر سے اخذ کیے جاتے تھے جہاں ہر شے انسانی حواس میں براہ راست مشاہدہ ہوتی تھی۔ لیکن کوانٹم عہد میں ہم ایسے مظاہر اور اشیا سے رابطہ رکھتے ہیں جو کہ انسانی حواس میں براہ راست نہیں مشاہدہ کیے جاتے۔

دو چیزوں کا درمیانی فاصلہ ہمیں براہ راست نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ہم اسے متسلسل سمجھتے تھے لیکن کوانٹم مکانیات نے ہمیں بتایا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ لہذا اب فیلڈ کو متسلسل کی بجائے جزئی مقداروں میں ماپا جائے گا۔ یعنی کلاسیکل فیلڈ جو کل زمان و مکاں میں موجود رہتا تھا وہ اب ذروں کی مانند زمان و مکاں کے کسی جزوی خطے سے مخصوص ہو گیا ہے۔ اسی کو کوانٹم فیلڈ کہا جاتا ہے۔ اس سارے کام میں تمام قوتوں کو ذرات یا کوانٹا کی شکل دے دی جاتی ہے۔ ان نئے ذرات کو قاصد ذرات یا میڈی ایٹرز کہا جاتا ہے جو کہ مادے کے درمیان تعاملات کا باعث بنتے ہیں۔

اسی طرح طبیعات دانوں کے ہاں مادے کی تقسیم پذیری نے دکھایا ہے کہ براہ راست محسوس ہونے والا مادہ بھی دو مختلف بنیادی قسم کے ذرات سے مل کر بنا ہے جنہیں لیپٹان اور کوارکس کہا جاتا ہے۔ آپ نے الیکٹران کا نام سنا ہوگا تو یہ دراصل ایک لیپٹانی ذرہ ہے اور اس خاندان میں الیکٹران کے علاوہ پانچ دیگر افراد ہیں۔ اسی طرح آپ نے پروٹان اور نیوٹران کا نام بھی سنا ہے یہ ذرے دراصل مزید چھوٹے ذروں یعنی کوارکس سے مل کر بنتے ہیں۔

یہ کوارکس بھی چھ قسم کے ہیں اور ان سے مل کر کر دکی (ایک کوارک اور اینٹی کوارک ) اور تکی (تین کوارک) ذرے تیار ہوتے ہیں۔ دکی والوں کو میزون کہتے ہیں اور تکی والوں کو بیریون کہتے ہیں۔ اور ان کی ایک کثیر تعداد اب تک دریافت ہوچکی ہے۔ لیکن ہمارے اردگرد جو مادہ ہمیں نظر آتا ہے وہ پروٹان اور نیوٹران سے بنتا ہے جو کہ تکی والے ذرے ہیں یعنی بیریونی ذرے ہیں۔

یوں ہمیں نظر آنے والا مادہ جو کہ چھوٹے ذرات جیسے الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران سے مل کر بنا ہے اور ان کے مابین قوتیں ہیں جو کہ خود بھی قاصد ذرات بن کر ایک ہی شکل میں باہم و دگر ہوتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ بارہ مادی ذرات اور تین بنیادی قوتیں (جو کہ پانچ قاصد ذرات پر مشتمل ہیں ) سب کے سب کمیتی لحاظ سے ہوبہو ایک جیسے ہوتے ہیں یعنی لاکمیت ہوتے ہیں!

لیکن یہاں نظریہ اور مشاہدہ ایک ساتھ نہیں چلتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان تمام سترہ ذرات میں سوائے چند ایک (یعنی علاوہ فوٹان اور گلیووان ) کے باقی سب کے سب کمیت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ الیکٹران کی کمیت پروٹان سے 1836 گنا کم ہے۔ یہی وہ مسئلہ تھا کہ جس کا حل 1964 میں ایک امریکی سائنسدان پیٹر ہگس، رابرٹ براؤٹ اور انگلارٹ نے پیش کیا۔ ان کے مطابق ان تمام سترہ ذرات کے علاوہ ایک اور ایسا ذرہ بھی موجود ہے جو ان تمام ذرات کو مختلف کمیتوں سے نوازتا ہے۔

اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے جسے ہگز میکانزم کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال برفیلے پہاڑوں کی مانند ہے۔ اگر کوئی پتھر ایسے برفیلے پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکتا ہوا نیچے کی جانب گرنے لگے تو اس پر آہستہ آہستہ برف کی تہہ جمنے لگتی ہے اور نیچے پہنچنے تک یہ بھاری ہوجاتا ہے۔ یہ برفیلا پہاڑ دراصل ہگس فیلڈ کا استعارہ ہے اور پتھر وہ سترہ ذرات ہیں جو اس کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں بھاری ہو جاتے ہیں یعنی کمیت حاصل کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جو ذرہ زیادہ مرتبہ تعامل کرے گا وہ زیادہ بھاری ہوگا جیسے کہ پروٹان اور جو کم تعامل کرے گا وہ ہلکا ہوگا جیسے کہ الیکٹران اور جو بالکل تعامل نہ کرے گا وہ کمیت نہ پا سکے گا جیسا کہ روشنی کا ذرہ فوٹان۔ اس ہگس فیلڈ کی سب سے خاص خوبی یہ ہے کہ یہ ایک واحد سکیلر ذرہ ہے (یعنی اس کی سپن زیرو ہے ) جو ابھی تک معلوم ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل خلا میں بھی اس کی مقدار ہمیشہ موجود رہتی ہے یعنی یہ ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے برعکس دیگر ذرات کے جو خلا میں بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔

بگ بینگ کے فوری بعد کائنات کی توانائی کی مقدار ہگس کی توانائی سے زیادہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ مختلف دیگر ذرات میں کمیت کسی کے پس بھی نہ تھی۔ لیکن جونہی کائنات میں پھیلاؤ زیادہ ہوا اور اس کا درجہ حرارت کم ہوا تو اس کی توانائی ہگس کی توانائی سے کم ہونے لگی اور ابتدائی ہم آہنگی یا سمٹری جو تمام ذرات میں موجود تھی وہ ٹوٹنے لگی اور یوں مختلف ذرات نے مختلف کمیت حاصل کر لی۔

اس طرح یہ پیش گوئی کی گئی کہ اگر دیگر ذرات کے علاوہ یہ ذرہ نہ ملا تو ہم کبھی بھی سٹینڈرڈ ماڈل کو قطعی درست تسلیم نہیں کر سکیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ایک ذرے کی دریافت سے پوری طبیعات کی ایک صدی یعنی بیسویں صدی کا سفر رائیگاں جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں سنسنی کی خاطر اس اہم ترین دریافت کو گاڈ پارٹیکل یا خدائی ذرہ کا نام دے دیا گیا۔ عوام میں سے اکثر نے لفظ گاڈ کی وجہ سے اس نظریے کی روحانی و مذہبی تعبیرات پیش کرنا شروع کر دیں جو کہ خالص ایک ریاضیاتی نظریہ تھا اور اگر یہ دریافت نہ ہوتا تو سائنسدان کسی اور نہج سے اس کا حل ڈھونڈ رہے ہوتے۔ اہل مغرب کی علم دوستی کی داد دینا بنتا ہے کہ جنہوں نے اربوں روپے خرچ کر کے سرن جیسی عظیم الشان لیبارٹری تعمیر کی اور اس کا بنیادی مقصد اس اہم ترین ذرے کی دریافت تھا۔ ذیل میں ہم اس اہم دن کے حوالے سے سرن کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل کے الفاظ پیش کرتے ہیں :

”فطرت کے فہم میں آج ہم نے ایک بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ ہگس بوزون کے مماثل ایک ذرے کی دریافت سے مزید تفصیلی مطالعہ کا باب کھل گیا ہے جس میں مزید بڑے شماریاتی فن کی ضرورت ہوگی اور یوں نئے ذرے کی خصوصیات سمیت ہماری کائنات کے دیگر رازوں سے پردہ اٹھنے کا امکان ہے“

یہاں اہل پاکستان کے لئے بھی باعث فخر بات ہے کہ انسانیت کے اس عظیم منصوبے میں ایک حصہ جسے سی ایم ایس (کمپیکٹ میووان سالینائڈ) کہتے ہیں اس میں نصب کردہ آلات تشخیص یا ڈیٹیکٹر ز کی تعمیر ہمارے ایک ادارے قومی مرکز برائے طبیعات (این سی پی) کے ماہر سائنسدانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ اس پراجیکٹ کا سہرا اس ادارے کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن ہورانی صاحب کا ہے۔ یہ ادارہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں واقع ہے جس کے بانیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام ہی کے ہونہار شاگرد ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم شامل ہیں جن پر حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے میرے محترم اساتذہ ڈاکٹر فیاض الدین اور ڈاکٹر محمد جمیل اسلم نے ایک کتاب شائع کی ہے۔ کاش کہ ہمارے ادارے اور حکومتیں ایسے لوگوں کو قومی ہیروز کے طور پر متعارف کروا سکیں اور ماضی کی رومانوی داستانوں سے نکل کر جدید دور کے حقیقی ہیروز پر بھی فلمیں اور ڈرامے تخلیق کروا سکیں۔

بہرحال یہاں ایک اور اہم بات ہے کہ اس ذرے کی دریافت کے بعد عالمی میڈیا میں ایک اور سنسنی بھی پھیلائی گئی کہ شاید اب فزکس کا خاتمہ ہوگیا ہے اور سب کچھ جان لیا گیا ہے۔ لیکن گزشتہ صد ی کے آغاز کی طرح اکیسویں صدی کے آغاز کے وقت بھی ہم جانتے ہیں کہ فزکس ختم نہیں ہوئی اور ہگس کے بعد بھی ایک وسیع دنیا ہے کہ جس کی کھوج کے لئے سائنسدان اب پھر کمر باندھ چکے ہیں۔ شاید علم کے سفر میں ہر بڑی خوشی ایک عارضی ٹھکانہ ہوتا ہے اور ابھی ایک انقلاب کی تھکن اترتی نہیں کہ دوسرے کی تیاری شروع کرنی پڑتی ہے۔

اگر شوق ہمارا راہنما نہ ہو تو شاید یہ سفر بہت تکلیف دہ اور سست رفتار ہو جائے لیکن کائنات اس قدر بامعنی اور جمال آفریں ہے کہ علم کے سفر کا مسافر اپنی نگاہیں اس حسن و جمال کے پیکر کی طرف مرکوز کیے ہر دم تازہ اور ہشاش رہتا ہے۔ اگلی کسی تحریر میں ہم ہگس کے بعد کے سفر پر کچھ روشنی ڈالیں گے جو تمام قارئین کے لئے تجسس اور شوق کے در وا کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments