سانحہ کراچی اور انسانیت کی سودے بازی


سانحہ کی بحث زندگی اور موت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ سانحہ کی مختصر تعریف یہ ہو گی کہ ”ایسی موت جس سے ہر آنکھ اشکبار ہو اور انسان کے دل میں دکھ کا احساس پیدا ہو اس کو عمومی طور پر سانحہ کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جن سے فقط چند انسان متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا جوان بیٹا فوت ہو جائے تو یہ محض والدین یا اس کے چند ہمنواؤں کے لیے سانحہ ہوگا۔

لیکن دوسری طرف کچھ ایسے سانحات بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہر آنکھ اشکبار اور ہر انسان غمگین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سانحہ پشاور کی طرح کے واقعات ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا غم انسانیت کا غم بن جاتا ہے۔ شاید اس کی وجوہات یہ بھی ہوتی ہیں کہ ایسے واقعات اکثریت کی جان پر بیتے ہوتے ہیں اور اس میں میڈیا کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن میری گفتگو کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان واقعات کی وجوہات کی تہہ کو کریدا جائے۔

سانحہ ہو یا کسی اور نوعیت کی موت چند لوگوں کے لیے دکھ اور درد کا مقام ضرور ہوتا ہے۔ میری گفتگو کا اصل مقصد عیدالفطر سے ایک روز قبل کراچی میں پیش آنے والے طیارہ حادثے پر مختصر بات کرناہے۔ اس طرح کے بے شمار سانحات پاکستان کی تاریخ کے سیاہ باب میں درج ہو چکے ہیں۔ لیکن سانحہ کراچی کی نوعیت کچھ اور ہے۔ ذرا تمام تر خیالات کو پس پشت ڈال کر تصور کیجیے کہ جو مسافر حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں موجود تھے ان تمام مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے جو ان کے خاندان کے لوگ ائر پورٹ پر موجود ہوں گے، ان پر اس وقت کیسی قیامت ٹوٹ پڑی ہو گی جب ائر پورٹ پر اس طیارے کے پہنچنے کی بجائے حادثے کا اعلان ہوا ہوگا۔

وہ ماں جس نے اپنے بیٹے کا ماتھا چوم کر اسے الوداع کیا اور اس سے کئی امیدیں وابستہ کر لیں۔ جب بیٹا ماں کے خوابوں کو حقیقت میں بدل کر واپس لوٹ رہا تھا تو اس کے اہل خانہ کس قدر اس سے ملنے کو بے چین ہوں گے ۔ اس وقت ان لوگوں پر کیا گزری ہو گی جب انھوں نے سنا ہو گا کہ ہمارا عزیز خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ اسی طرح دوسرے مسافر بھی کافی دنوں کے بعد جہازوں کی آمدورفت بحال ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوں گے کہ پیاروں کے ملنے سے چند منٹ پہلے موت نے ان کو گلے لگا لیا۔

دراصل جو کچھ اللہ کو منظور تھا اس کے منکر ہم بھی نہیں ہیں۔ یہ سانحہ ہوا یا اس سے پہلے کئی ایسے سانحات ہوئے، ان تمام تر سانحات میں بہت قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ بات درست ہے کہ موت کا وقت آن پہنچا ہو تو ٹل نہیں سکتا مگر اور کچھ نہیں تو اپنے کام پر تو ہر بندہ توجہ دے اور اپنے ذمہ تمام تر معاملات کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے احسن طریقے سے نبھائے۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ پی آئی اے کے ادارے میں زیادہ تر ایسے لوگ کام کر رہے ہیں جو اس کام سے متعلق یا تو کوئی علم نہیں رکھتے یا وہاں کام کرنے کے بعد اس قابل ہوئے ہیں کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں۔

ہماری قومی ائر لائن خسارے میں اور پرائیویٹ ائر لائنز دن بدن ترقی میں ہیں۔ اس کی وجوہات میں حکومت اور ادارہ دونوں ملی بھگت سے کام کرتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وزیروں اور مشیروں کی اپنی ائر لائنز کمپنیاں ہوتی ہیں۔ بدعنوانی اور ملی بھگت میں قوم اور قومی خزانہ دونوں کا چونا لگایا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزرائے اعلی کے خصوصی طیاروں کا معیار الگ کیوں ہوتا ہے؟ فنی خرابی تو دور کی بات ان خصوصی طیاروں سے اگر کبھی کوئی پرندہ بھی ٹکرا جائے تو جہاز کو فوری طور پر اتار لیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ معیار ہے کہ فنی خرابی کے باوجود بھی جہاز کو اڑان کی اجازت دے کر انسانوں کا سستے داموں سودا کیا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حادثے /سا نحے سے پیشتر اگر ایسے حادثے /سانحے ہو چکے ہیں تو ان کے لیے کوئی موثر حکمت عملی بنائی گئی؟ اگر ہر سانحے کی تحقیق کے لیے تحقیقاتی ٹیم یا کوئی کمیشن تشکیل دیا گیا تو اس تحقیق کے کیا مثبت نتائج برآمد ہوئے؟ حیران کن بات یہ ہے کہ پی۔ آئی۔ اے کے اعلی عہدے داران ہی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں۔ ماہرین سے یہ اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ طیارہ اڑان سے پہلے فنی خرابی کا شکار تھا اور ایئر چیف صاحب یہ بیان ٹھونس رہے ہیں کہ ”طیارے کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

طیارے کا انجن وقتی طور پر“ رن وے ”سے ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا“ ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف صاحب اگر طیارہ پہلے سے کسی خرابی کا شکار نہیں تھا تو اس کا لینڈنگ گئیر کام کیوں نہیں کر رہا تھا اور اگر جہاز کا انجن ”رن وے“ سے ٹکرایا بھی تھا تو اس کی وجہ لینڈنگ گئیر کا کام نہ کرنا تھا۔ ایک تو یہ دکھ ہے کہ اتنی جانیں ضائع ہوئیں اور اس کے ساتھ ساتھ صد افسوس کہ حکومت نے روایتی انداز میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر اپنی جان چھڑوا لی اور دوسری طرف پی آئی اے کے مطابق ”پی آئی اے کی خصوصی ٹیم نے جائے حادثہ اور رن وے دونوں کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پائلٹ نے طیارے کا لینڈنگ گئیر ڈاؤن نہیں کیا جس کی وجہ سے دونوں انجن رن وے سے ٹکرائے اور ناکارہ ہو گئے اورپندرہ منٹ بعد حادثے کا موجب بنے۔

“ اس تحقیق سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سارا ملبہ پائلٹ پر گرا کر اس کے اہل خانہ سے تعزیت کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ اصل معاملہ تو یہ ہے کہ طیارے کا لینڈنگ گئیر کام ہی نہیں کر رہا تھا اور پائلٹ بھی اپنی زندگی کے آخری چند منٹوں میں اسی بات کی دہائی دے رہا ہے کہ لینڈنگ گئیر کام نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ ایسے ناکارہ لوگ ہیں جو محض پیسوں کی خاطر لوگوں کی زندگیوں کا سودا کرتے ہیں۔ تمام تر تحقیقات اور اور تشکیل کردہ تحقیقاتی ٹیمیں فقط وقت کا ضیاع اور کھوکھلے دعوے ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مالک کریم ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرما کر انسانیت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو لوگ اس حادثے کا شکار ہوئے اور جو ان سے پہلے ایسے المناک واقعات کی بھینٹ چڑھ گئے، ان سب کو میرے اللہ اپنی رحمت سے نواز اور جنت الفردوس میں داخلہ نصیب فرما۔ ۔ ۔ الہی آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments