آئین سے بغاوت کیا ہوتی ہے؟


جدید جمہوری ریاست کی بنیاد دراصل ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین ایک عمرانی معاہدہ ہے۔ ریاست کا نظم چلانے کے لئے جو بنیادی دستوری ڈھانچہ ترتیب دیا جاتا ہے اسے آئین کہا جاتا ہے۔ یعنی بنیادی دستاویز آئین ہے جس کے خلاف یا جس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر کی جائے گی تو اسے آئین سے متصادم قرار دے کر رد کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی ریاستی ادارہ یا شخص اس آئین سے متصادم کوئی قدم اٹھا ئے یا آئین کو سبوتاژ کرنے کا مرتکب ہو تو پاکستان میں اسے موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

مگریہ ریاستی آئین بھی انسانوں کا بنایا ہوا ہی ایک مسودہ قانون ہوتا ہے۔ جس میں ضرورت پڑنے پر تبدیلی یعنی ترمیم بھی کی جاسکتی ہے لیکن اس ترمیم کا طریق کار بھی آئین میں ہی دیا جاتا ہے۔ جو مقننہ کر سکتی ہے۔ ریاست کے آئین کا سب سے اہم جزو وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جن کو ہر ریاست کا آئین تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین بھی بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ اور ایسی کوئی قانون سازی حتیٰ کہ آئین کے اندر بھی کوئی ترمیم جو ان حقوق کو پامال کرے، مقننہ کو بھی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جس طرح ایک فرد ریاست کا شہری ہوتے ہوئے ریاست کے خلاف بغاوت کا مرتکب نہیں ہو سکتا عین اسی طرح ریاست بھی اپنی کسی ایک شہری یا گروہ کے بنیادی انسانی حقوق میں رکاوٹ یا مداخلت کی مرتکب نہیں ہوسکتی۔ یہ بنیادی حقوق وہ سرخ لکیر ہیں جن کی پامالی ریاست کی طرف سے ایسے ہی جرم کا ارتکاب ہے جیسے ایک فرد یا گروہ کا ریاست کے خلاف اعلان بغاوت۔ کیونکہ دونوں صورتیں طے شدہ معاہدے کو توڑنے کا یکساں حکم رکھتی ہیں۔ گو کہ دور جدید میں بھی بہت سی ریاستوں میں ایسے حالات و واقعات ملتے ہیں جہاں ریاستی ادارے یا عہدیدار کسی نہ کسی رنگ میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث نظر آتے ہیں مگر ایسے عناصر عموماً درپردہ یا بالواسطہ طور پر ایسے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

اور اس کے لئے انہیں غیر قانونی اور ممنوعہ ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر مضمون ہٰذا کو قانون سازی کی حدود و قیود تک ہی محدود رکھنا مقصود ہے۔ ان حقوق کو قانونی اصطلاح میں inalienable rights یعنی وہ حقوق جو چھینے جا ہی نہیں سکتے، قرار دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ا گر کوئی قانون ایسا کرتا تو وہ قانون بذات خود غیر آئینی ہے۔ اور رد کیے جانے لائق ہے۔ ریاست کے منتخب عوامی نمائندے جن کو قانون سازی کا اس کے علاوہ لامحدود اختیار ہوتا ہے حتیٰ کہ آئین میں ترمیم کا اختیار بھی ہوتا ہے وہ بھی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی قانون سازی یا ترمیم نہیں کر سکتے۔

یہ وہ لال لکیر ہے جس پر آکر جمہور کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا کثرت رائے کی بنیاد پر بھی کوئی قانون سازی جائز طور پر بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس کو سمجھنے کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ریاست میں سب سے بالا و برتر مسودہ قانون آئین کا وہ حصہ ہے جس میں وہ ریاست کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس کا انکار یا کسی قانون سازی کی صورت میں ان کو پامال کرنا کسی صورت میں اور کسی کے اختیار میں نہیں۔

اس کے بعد دوسرا درجہ آئین کے اس حصہ کا آتا ہے جس کے مطابق ریاست کا نظم نسق چلانے کے طریق کار وضع کیا جاتا ہے۔ اس میں ایسی ہر ترمیم کی جا سکتی ہے جو موقع اور محل کے مطابق مناسب سمجھی جائے اور طے شدہ طریق کار کے مطابق کی جائے۔ تیسرے درجے کے قوانین وہ ہیں جو ذیلی نظم و نسق اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لئے مقننہ کرتی ہے۔ جو کسی بھی رنگ میں آئین کے کسی بھی حصے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔

یہاں تک تو بات تھی اصول اور قواعد اور عالمی قوانین کی۔ مگر اگر کوئی ریاست محض عددی اکثریت اور طاقت کی بنیاد پر قانون سازی کر بھی لے تو اسے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قاعدے کے تحت، بنایا تو جاسکتا ہے اور برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے مگر ایسے قانون کی اخلاقی اور جائز حیثیت بہرحال نہیں ہوتی۔ اور ا گر کوئی پارلیمنٹ، آمریت یا بادشاہت ایسی قانون سازی کرلے تو اسے جمہوری اور قانونی نہیں بلکہ آمریت یا اکثریت کی طاقت کے بل بوتے پر بنایا گیا غیر انسانی قانون ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔ اور اگر آئین میں بنیادی انسانی حقوق اور ان کے تحفظ کی ضمانت کے باوجود ایسی قانون سازی کی جائے تو وہ غیرانسانی ہونے کے ساتھ غیر آئینی بھی ہوگی۔ اور جب تاریخ کا فیصلہ آئے گا ایسے قوانین کو فرعونی، یزیدی، ڈریکونین قوانین سے ہی تشبیہ دی جائے گی۔ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال جرمن نازیوں کی ہے۔

ضمناً یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی انسانی قانون پر تحفظات رکھنا اور اس کے خلاف رائے رکھنا بھلے وہ آئین ہی ہو انسانی اظہار رائے کی آزادی کا بنیادی حق ہے۔ اور اس حق سے کسی فرد یا گروہ کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم جب ریاست ایک قانون بنا لے تو اس پر عمل درآمد نہ کرنے والا مجرم کہلا سکتا ہے۔ لیکن اس قانون کو غلط کہنے یا سمجھنے والے کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا اختیار ریاست کو نہیں۔

یہاں تک تو بات تھی قاعدے قانون اصول اور ضابطے کی جو دنیا میں مسلمہ ہیں۔ اب ذرا بات ہو جائے پاکستان کی۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کچھ اس قسم کے طبقات کو ریاست پر مسلط کر دیا گیا اور ذہن سازی کا اختیار دے دیا گیا ہے جن کی تاریخ علم، آگہی، روشن خیالی اور ترقی پسند سوچ کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ طبقات صرف ہمارے معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں بلکہ یہ عناصر ہر انسانی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔

مگر ہمارے معاشرے میں ان کو ان کے جائز معاشرتی مقام سے اٹھا کر پیرتسمہ پا کی طرح ہمارے کندھوں پر سوار کر دیا گیا ہے۔ آپ پانی سے کار چلانے کا دعویٰ کریں تو عین ممکن ہے کہ آپ کو ایک آدھ مشہور صحافی کی طرف سے کوئی توجہ مل جائے مگر اس کے بعد یہ محض ایک درفنطنی کے طور پر ہی یاد رکھی جاسکتی ہے۔ مگر یہی دعویٰ اگر ہمارے منبر و محراب والے مہربان کر دیں تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ جلد ہی اسے قومی بیانیے کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔

اسے محض شگوفہ ہی خیال نہ کریں اس سے زیادہ مضحکہ خیز مثالیں درحقیقت ہمارے سرکاری یا غیر سرکاری ریاستی بیانیے کا حصہ ہیں۔ یہ بہرحال طے شدہ امر ہے کہ جسے اہل منبر و محراب اسلام یا قانون قرار دے کر نافذ کرنے کا عندیہ دے دیں اس کے مقابلے پر عقل، حقائق اور سچائی کیا بیچتی ہے؟ نظریہ پاکستان سے لے کر تاریخ سے کھلواڑ ہو۔ ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو ثابت کرنا ہو۔ دن کو رات یا رات کو دن ثابت کرنا ہو۔ چاند دکھانا ہو یا چھپانا ہو، ان کرم فرماؤں کا بس ایک ”اجماع“ کہ یہ عین اسلام ہے تو اس کے خلاف نہ ریاست کی پالیسی بن سکتی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ قائم رہ سکتی ہے۔

اگر کوئی اس ”اجماع“ سے اختلاف کرنے کی جرات کرہی لے تو اسے کافر اور غدار قرار دے کر دیس نکالا دیا جاسکتا ہے۔ تاکہ نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا ہوسی کے مصداق ان کے اس ”اجماع“ سے کسی بھی ممکنہ اختلاف رائے رکھنے والے کی آواز ہی ختم کردی جائے اور اپنی رائے کو متفقہ اجماع قرار دے کر نافذ کروایا جاسکے۔ حتیٰ کہ ریاستی امور میں بھی ان کی ہی کہی ہوئی بات حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ وہ کسی امر یا آمرکو چاہیں تو آئینی قرار دے دیں بھلے وہ کسی بھی طرح آئین پاکستان کے چوکھٹے میں فٹ نہ آسکے۔

اور چاہیں تو کسی بھی امر کو آئین میں واضح طے ہونے باوجود غیر آئینی قرار دے دیں۔ ملک کی بڑے سے بڑے ایوان بھی ان کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ اور ان کے طے کردہ امور کے آگے کورنش بجالاتے نظر آتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ آپ مائی باپ ہیں آپ کا کہا ہی آئین آپ کا کہا ہی قانون اور آپ کا کہا ہی سچ اور آپ کا کہا ہی اسلام ہے۔

وہ چاہیں تو کسی شہری طبقے کو اقلیت کہہ کر اسے اس کے بنیادی انسانی حقوق سے اس بنیاد پر محروم کروا دیں کہ یہ اقلیت ہیں اس لئے ان کو برابر کے بنیادی انسانی حقوق نہیں دیے جا سکتے۔ اور چاہیں تو یہ کہہ دیں کہ ان کو اقلیت میں بھی شامل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ دل سے خود کو اقلیت نہیں مانتے۔ اور مجال ہے کسی ریاستی ادارے یا میڈیا کے کسی فرد کی کہ ان سے پوچھنے کی جرات کرسکے کہ حضور یہ مطالبے اور ضوابط پاکستان کے آئین اور قانون میں کہا ں درج ہیں؟

اقلیت کے حقوق کون سے ہوتے ہیں؟ انہیں آئین کی کس شق میں سے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ اور یہ کہاں لکھا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کسی عقیدے سے مشروط ہو سکتے ہیں؟ ہمارے آئین میں بھی بس یہی درج ہے کہ کون کون سے ریاستی عہدے صرف مسلمان کو مل سکتے ہیں اور کون اس شرط کو پورا کرنے کے لئے مسلمان نہیں ہے۔ مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی بھی عقیدے کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے؟ اگر آپ یہ پوچھنے کی جرات کرہی لیں تو آپ پر کافر سے کم تر درجے کا پہلا لیبل جو لگے گا وہ قادیانی نواز ہونے کا یا بیرونی طاقتوں کا آلہ کار ہونے کا ہے۔

اب کس میں ہمت ہے یہ فتوے لگوانے کی بھی؟ اور اگر کوئی سرپھرا یہ جرات کرنے والا ہو بھی تو میڈیا پر اسے سامنے بٹھایا ہی نہیں جائے گا تاکہ ان کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو عوام کے کانوں تک بھی نہ پہنچنے دیا جائے۔ اور ان کی آواز کو تقویت دینے کے لئے بھی ایسے بندے میڈیا کی عدالت میں پیش کیے جائیں گے جن کے لئے حرف آخر انہی کرم فرماؤں کی کہی ہوئی بات ہو۔ ریاست یا اس کا آئین، اصول و ضوابط، سچائی، حقائق، انصاف، اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی بالا دستی کس کھیت کی مولی ہیں؟

1984 میں ایک آمر نے ایک آرڈیننس نافذ کر دیا جس کا ایک ایک لفظ آئین میں ہی درج انسانی بنیادی حقوق سے نہ صرف متصادم ہے بلکہ ان حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جی ہاں وہی آمر جس نے علی الاعلان کہا تھا کہ آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی تو ہے جب چاہوں پھاڑ دوں۔ مگر مجال ہے کوئی ریاستی ادارہ یا منصف آمریت کی یہ باقیات جو ریاست کے سینے میں ایک میخ کی طرح گڑی ہے، کے خلاف آواز اٹھا سکے۔

مگر چونکہ ہمارے ان مذہبی جبہ پوشوں نے اسے مذہب کہا ہے اس لئے سب کچھ آئینی ہے اور ان کی آواز کے خلاف سب کچھ صرف غیر آئینی ہی نہیں غیر اسلامی بھی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریاست کا یہ طرز عمل اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے اور سیاست چمکانے والوں کے سامنے بے بس ہونا خود ریاست کے کس طرح بخیے ادھیڑ رہا ہے اس پر کچھ مزید کہنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بھیڑیے نے تو پانی پیتے بھیڑ کے بچے کا قصور صرف اس قدر قرار دیا تھا کہ وہ اس کا پانی گدلا کر رہا تھا۔ مگر یہاں تو ریاست کے شہریوں پر مشتمل ایک پورے طبقے کا وجود ہی تعزیرات پاکستان میں باقاعدہ جرم قرار دے دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments