کورونا بحران: پاکستان کتنے جنازے اٹھا سکتا ہے؟


پاکستان میں کورونا وائرس کے بارے میں پائی جانے والی بے یقینی کی صورت حال اس وقت سب سے زیادہ تشویش کا سبب ہے۔ حکومت کی طرف سے غیر واضح اور متضاد اشارے سامنے آرہے ہیں جبکہ نجی طور سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے حجم اور نقصان کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت عید الفطرکے موقع پر عوام کی بے احتیاطی سے پریشان ہے تو دوسری طرف عوام کی بڑی تعداد لاک ڈاؤن سے تنگ آچکی ہے اور وہ کسی بھی ’قیمت ‘ پر معمولات زندگی بحال کرنے پر آمادہ و تیار ہے۔ ایسے میں اگر ایک بار پھر لاک ڈاؤن سخت کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا شدید رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے۔

یوں تو رمضان المبارک کے اجتماعات کے بعد عید الفطر کی شاپنگ اور نماز عید کے اجتماعات میں جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرز ا نے متنبہ کیا ہے کہ اگر یہی صورت حال قائم رہی اور عوام نے سماجی دوری اور باہمی میل جول و اجتماعات کے حوالے سے تجویز کردہ ہدایات پر عمل نہ کیا تو حکومت دوبارہ لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ تاہم ڈاکٹر مرزا کے اس انتباہ کو پاکستانی عوام کا کوئی حلقہ بھی سنجیدگی سے لینے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کی سرکردگی میں وفاقی حکومت نے جان بوجھ کر یا انجانے میں لاک ڈاؤن کو غریب دشمن اور معیشت کے لئے نقصان دہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس لئے اب ملک میں کورونا وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت نے لاک ڈاؤن کرنے یا عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اب گھروں میں بند ہونا اشرافیہ کا نہیں بلکہ عوام دوست وزیر اعظم کا فیصلہ اور حکم ہے تو اسے کوئی ماننے پر آمادہ نہ ہوگا۔ یہ صورت حال امن و امان کے لئے بھی خطرہ بن سکتی ہے اور ملک میں نئے سیاسی و سماجی مباحث کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی تنازعہ دراصل کسی بھی وبا سے نمٹنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔

ایک طرف ڈاکٹر ظفر مرزا ملک میں کورونا کے پھیلاؤ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضال نے اعلان کیا ہے کہ حالات پاکستانی حکام کے کنٹرول میں ہیں۔ حکومت کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور علاج میں ’خود کفیل‘ ہوچکی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جون کے دوران کورونا سے کا شکار ہونے والے جتنے مریضوں کی تعداد سامنے آنے کا امکان ہے، ان کے علاج کے لئے ملک میں وافر انتظام موجود ہے۔ یہ تو این ڈی اہم اے کے سربراہ کا مؤقف ہے ۔ ان کے پاس اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمار بھی موجود ہیں۔ یعنی ملک میں اس وقت 4 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں جن میں سے نصف کورونا کے مریضوں کے لئے فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ اس وقت ملک میں کورونا کے صرف 135 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر آلات کی فراہمی کے علاوہ مختلف ہسپتالوں میں ایک لاکھ سے زائد ایمرجنسی بیڈز کا انتظام کرلیا گیا ہے۔ ملک میں طبی عملہ و ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی ساز و سامان کی تیاری کا کام شروع ہوچکا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل محمد افضال کے مطابق ملک بھر میں کہیں بھی حفاظتی ساز و سامان کی کوئی قلت نہیں ہے۔

اس کے برعکس ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیاہے کہ لاہور جنرل ہسپتال میں مزید 10 ڈاکٹر کورونا وائرس کا نشانہ ہو چکے ہیں۔ اس طرح صرف پنجاب میں کورونا کا شکار ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 70 تک پہنچ چکی ہے۔ ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے دیگر عملہ کے بارے میں کوئی خاص معلومات فراہم نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کی تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ طبی عملہ کے لئے حفاظتی ساز و سامان کی بدستور قلت ہے۔ حکومت کے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود ڈاکٹروں کو مطلوبہ سامان دستاب نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعہ کو اس حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ پنجاب کے نوجوان ڈاکٹروں کا یہ بیان این ڈی ایم اے کے سربراہ کی طرف سے ساز و سامان کی وافر فراہمی کے دعوے سے متصادم ہے۔ اگر حقیقت ان دو انتہاؤں کے بیچ بھی ہو تو بھی کورونا سے نمٹنے کے لئے سرکاری کوششوں کے بارے میں شبہات پیدا ہونا لازم ہے۔

اصل مشکل اور مسئلہ ہی یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور سنگینی کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں کورونا ٹیسٹ کرنے کی روزانہ رفتار چند ہزار افراد تک محدود ہے۔ اس لئے کوئی بھی ادارہ یا ماہر یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ بعد ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد کیا ہوگی اور کتنے لوگوں کو طبی سہولتوں کی ضرورت میسر آئے گی۔ مئی کے دوران لاک ڈاؤن کی ضرورت کو غیر اہم قرار دینے کی مہم میں یہ فراموش کردیاگیا کہ روزانہ کی بنیاد پر دو ہزار نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔ اس کے باوجود سرکاری اداروں اور سیاسی قیادت نے اس صورت حال کا نوٹس لینے اور حفاظتی اقدامات کو زیادہ مؤثر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حکومت نے جزوی پابندیاں ہٹائیں تو سپریم کورٹ نے انہیں ناکافی قرار دیتے ہوئے شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دینے کے علاوہ ہفتہ اتوار کو بھی دکانیں کھولنے کا حکم دیا۔ عدالت کا سوال تھا کہ کیا ویک اینڈ پر کورونا ’چھٹی‘ پر چلا جائے گا یا اس کا حکام کے ساتھ معاہدہ ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو لوگوں میں سرایت نہیں کرے گا۔ اس قسم کے عدالتی ریمارکس اور سیاسی بیانات کے نتیجے میں عوام میں عام طور سے یہ تفہیم پیدا ہوئی ہے کہ کورونا کے بارے میں ’غلط معلومات ‘کی وجہ سے عوام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں جن کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

اس دوران پرائیویٹ ذرائع سے ملک کے دور دراز علاقوں سے جو خبریں سامنے آرہی ہیں ، ان میں یہ بتایا جارہا ہے کہ اکثر چھوٹے قصبوں یا کم آبادی والے علاقوں میں کورونا ٹیسٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ ان علاقوں میں اگر کسی شخص میں ایسی علامات سامنے بھی آتی ہیں جن سے کورونا وائرس کا شبہ ہو تو بھی ڈاکٹر انہیں دستیاب دوائیں فراہم کرکے گھر جانے کو کہتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اور جن کا مدافعتی نظام اس قابل نہیں ہوتا، وہ فوت ہوجاتے ہیں۔ لیکن اعزہ یا ملکی نظام کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس شخص کا انتقال کورونا کی وجہ سے ہؤا ہے یا اس کی کوئی دوسری وجہ تھی۔ یہ وائرس پھیلنے کے حوالے سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد کوئی شخص خواہ صحتیاب ہوجائے یا جان سے جائے لیکن وہ متعدد ایسے لوگوں کو وائرس کا مریض بنا دیتا ہے جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ اب وائرس کے کیرئیر بن چکے ہیں۔

پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کی حقیقی صورت حال کو سمجھنے کے لئے امریکہ میں سامنے والے حقائق سے سبق سیکھا جاسکتا ہے۔ وہاں اس وائرس کی وجہ سے 16 لاکھ سے زیادہ لوگ بیمار ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ امریکہ امیر اور باوسیلہ ملک ہے۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ماہرین اور حکام کو شبہ ہے کہ کورونا متاثرین اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار ملک میں مرض کی صورت حال کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ خیال ہے کہ ہزاروں لوگ کورونا کا ٹیسٹ ہوئے بغیر اس وائرس کی وجہ سے اپنے گھروں میں ہی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال کو اگر پاکستان پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کو شبہ ہے کہ ملک میں کورونا کی اصل صورت حال معلوم حقائق سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس وائرس کا کوئی علاج دستیاب نہیں ہے اور صرف احتیاط کرنے سے ہی اس کی روک تھام کرنے اور عوام کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ یہ اندیشہ محسوس کیاجارہا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں کورونا کے متاثرین کی تعداد اور اس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں شدید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد یہ جانے بغیر اس وائرس کا شکار ہوجائے گی کہ وہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا نام نہاد ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی تحفظ کی صورت پیدا ہوسکے گی؟ اور ایک بار وسیع پیمانے پر وائرس پھیل جانے کے بعد کیا پاکستانی عوام باقی دنیا کے برعکس اس وائرس سے محفوظ ہوجائیں گے؟ یہ قیاس ضرور کیا جاسکتا ہے لیکن دنیا کے مختلف ملکوں میں اس وائرس کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو ابھی تک کوئی ملک بھی ہرڈ امیونٹی کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعوے دار نہیں ہے۔

پاکستان میں آبادی کی بڑی اکثریت اگر وائرس میں مبتلا ہوکر اس کی شدت اور ہلاکت سے محفوظ بھی رہی اور اگر صرف ایک فیصد لوگ بھی وائرس سے ہلاک ہوتے ہیں، تو بھی 22 کروڑ کی آبادی میں یہ تعداد 22 لاکھ ہوگی۔ کیا پاکستانی حکام اور نظام نے اتنے جنازے اٹھانے کی تیاری کرلی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments