جلین رہوڈز کی ڈائری: کانفرنس کے لیے پاکستان آنے والی امریکی لڑکی لاہور کی ہو کر رہ گئیں


جلین رہوڈز

میرا نام جلین رہوڈز ہے اور میں لاہور میں رہتی ہوں۔

ایک سیکنڈ۔ لاہور میں رہتی ہوں؟ کیا مطلب؟

جی ہاں آپ نے صحیح سُنا۔ میں ایک امریکی ’گوری‘ ہوں اور واقعی پاکستان کے شہر لاہور میں رہتی ہوں۔

مجھے پتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بھی وہی سوال ہے جو یہاں مجھ سے ملنے والا ہر شخص پوچھتا ہے ’آخر آپ کیوں پاکستان میں رہتی ہیں؟‘ (وہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہتی ہیں)

اور میرا جواب ہر بار یہی ہوتا ہے کہ۔۔۔ کیوں نہیں؟ ’وائے ناٹ؟‘ (وہ پھر سے قہقہہ لگاتی ہیں)

میں کون ہوں، کہاں سے آئی ہوں، کیا کرتی ہوں اور پاکستان میں کیوں رہتی ہوں؟ اِن سب سوالوں کے جواب اِتنے آسان تو نہیں لیکن کوشش کرتی ہوں کہ آپ کو مطمئن کر سکوں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لیے آپ کو میرے ساتھ ایک دن گزارنا پڑے گا۔ کیا کہا؟ آپ تیار ہیں؟ تو پھر چلیے۔

وقت صبح آٹھ بجے: میں ابھی ابھی سو کر اٹھی ہوں۔ میری کوئی لگی بندھی روٹین نہیں ہے۔ میں نے لاہور کی ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر کی اوپر کی منزل کرائے پر لے رکھی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں صبح اذان کی آواز سے اُٹھ جاتی ہوں۔ اذان کی آواز سننا مجھے اچھا لگتا ہے۔

پیشے کے لحاظ سے میں ایک ڈانسر اور کوریو گرافر ہوں۔ جب میں چھوٹی تھی تو میں نے بیلے ڈانس سے شروع کیا۔

پھر میں نے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے رقص میں ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں میرا کورس جدید ڈانس کے بارے میں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈا کی ’موٹر سائیکل گرل‘ پاکستان کی سیر پر

مفت میں پورا پاکستان گھومنے والے ’ہچ ہائیکر‘ کی کہانی

وہ ’بھارت یاترا‘ جس کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں

وقت صبح نو بجے: میں نے کافی اور دلیے کا ناشتہ بنایا اور فلکیات کے موضوع پر پوڈکاسٹ سُنتے سُنتے ختم کیا۔ کبھی کبھی منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے میں پاکستانی ناشتہ بھی کرتی ہوں۔ لیکن روز روز صبح انڈے پراٹھے کے ساتھ لسّی پینا تھوڑا مشکل کام ہے (قہقہہ)۔ ہاں اگر کبھی مجھے دودھ پتی آفر کی جائے تو میں منع نہیں کر سکتی۔

جلین رہوڈز

تو بات ہو رہی تھی کہ میں پاکستان کیسے آئی۔ کہانی تھوڑا سی لمبی ہے۔ میں سنہ 2018 میں پاکستان ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ میں تین مہینے یہاں گزاروں گی۔ صرف تین مہینے۔۔۔ میں دیکھوں گی کہ یہ کیسا ملک ہے اور یہاں کے لوگ کیسے ہیں۔

شروع میں مجھے پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں پتا تھا۔ پھر میں نے کام شروع کیا تو کام ملنے لگا۔ کام اچھا تھا، کھانا اچھا تھا، لوگ اچھا تھا۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں تھوڑی دیر اور یہاں گزاروں گی۔ اور اب یہ تھوڑی دیر دو سال ہو گئے ہیں (قہقہہ)۔

وقت صبح دس بجے: میں نے لیپ ٹاپ پر کچھ ضروری ای میلز کا جواب دیا اور اپنا یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج چیک کیا۔ مجھے روز دنیا بھر اور پاکستان سے بہت سارے پیغامات آتے ہیں۔

جلین رہوڈز

لوگ پوچھتے ہیں کہ مجھے اتنی اچھی اُردو کیسے آتی ہے۔ تو میرا جواب ہوتا ہے کہ۔۔۔ اِس لیے کیونکہ میں پاکستان میں رہتی ہوں (قہقہہ)۔ مذاق ایک طرف لیکن مجھے اُردو بولتے ہوئے پورے دو سال ہو گئے ہیں۔

اُردو بولنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ قریب آٹھ سال سے میں امریکہ سے باہر رہ رہی ہوں۔ پڑھائی ختم کرنے کے بعد میں نے کچھ ٹائم کمبوڈیا میں گزارا۔ پھر ڈھائی سال جنوبی کوریا میں رہی اور اب دو سال سے پاکستان میں ہوں۔ تو میرے خیال میں آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی زبان بولنی آنی چاہیے۔

وقت دن بارہ بجے: گھر پر ہی ورزش اور یوگا کیا۔ ایک ڈانسر ہونے کی وجہ سے اپنے جسم کو فِٹ رکھنے کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔ یوگا اِس لیے کرتی ہوں کہ یہ مجھے سکون پہنچاتا ہے اور زندگی کے بارے میں سوچنے کا موقع دیتا ہے۔

جلین رہوڈز

میں اکثر سوچتی ہوں کہ شاید میں ایک بنجارن ہوں جو کہیں ٹِک کر نہیں بیٹھتی۔ میں بھی شروع شروع میں حیران تھی کہ یہ سب میری زندگی میں کیسے ہوا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ملکوں ملکوں پھِروں گی۔ ابھی میں نے فیصلہ نہیں کیا کہ پاکستان میں رکوں گی یا یہاں سے بھی چلی جاؤں گی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں رہوں گی کم از کم دو، تین سال کے لیے۔

مجھے پاکستان میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ اکثر پاکستانی جب مجھ سے ملتے ہیں تو وہ مجھے ایک امریکن کے بجائے صرف ایک آرٹسٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امریکہ کی پالیسیوں یا وہاں کی حکومت کی وجہ سے مجھ پر تنقید کی گئی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مجھ سے صدر ٹرمپ کے بارے میں میری رائے پوچھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے کبھی منفی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وقت دن دو بجے: آج مجھے گروسری اور پانی خریدنے جانا ہے۔ اپنی ہنڈا سی ڈی سیونٹی موٹر سائیکل پر میں گھر کے قریب ہی ایک سٹور پر جا رہی ہوں۔

پاکستان میں بہت سی لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں لیکن شاید سب ایسا نہیں کرتیں لیکن میں یہ کرتی ہوں۔ جب میں پاکستان آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اگر یہاں تھوڑی دیر رہوں گی تو۔۔۔ ایک تو گھر چاہیے اور دوسری اپنی سواری چاہیے۔

میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنتی ہوں تاکہ میری شناخت نہ ہو سکے۔ لیکن جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک لڑکی اور وہ بھی ’گوری‘۔۔۔ موٹر سائیکل چلا رہی ہے تو ضرورت سے زیادہ گھورتے ہیں۔ کبھی کبھی لڑکے تنگ بھی کرتے ہیں لیکن زیادہ نہیں۔

پاکستان میں ایک اکیلی ’گوری‘ کا رہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ توجہ تو بہت ملتی ہے، میں جہاں بھی جاتی ہوں بس میں ہی ہوں (قہقہہ)۔ کیونکہ ظاہر ہے وہاں کوئی دوسری ’گوری‘ تو نہیں ہے۔ تو اب مجھے اِس کی عادت ہو گئی ہے لیکن جب کوئی پانچ منٹ تک مسلسل گھورتا رہتا ہے تو پھر تھوڑا عجیب ہو جاتا ہے۔

وقت شام چار بجے: ڈانس پریکٹس کے لیے سٹوڈیو آئی اور وہیں کھانا کھایا۔ میں لاہور کی ایک ڈانس کمپنی کے ساتھ کام کرتی ہوں جس کے ڈانس ڈائریکٹر میرے اُستاد ہیں۔ ہم مختلف کارپوریٹ ایونٹس اور ثقافتی تقریبات میں پرفارم کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ڈانس کرنے والے سارے لڑکے ہیں جو یہیں لاہور کے رہنے والے ہیں۔

جلین رہوڈز

میں نے گذشتہ دو سال میں پاکستان میں بہت کام کیا ہے۔ میں نے ڈانس ورکشاپس کرائی ہیں، فلموں اور میوزک ویڈیوز میں کوریوگرافی کی ہے۔ اِس کے علاوہ میں کچھ پاکستانی اشتہارات میں ماڈلنگ بھی کر چکی ہوں۔

اب میں تھوڑا تھوڑا کتھک اور بھنگڑا سیکھ گئی ہوں۔ میں نے یہ کیا کہ کچھ چیزیں پاکستانی ڈانس سے لیں اور اُنھیں اپنے ڈانس کے ساتھ ملا کر ایک نیا سٹائل بنایا۔ کیونکہ میں نے ویسٹرن ڈانس کی ٹریننگ لی تھی تو میرے لیے مقامی رقص سیکھنا کافی آسان ہو گیا۔

وقت شام چھ بجے: گھر واپس آئی اور لباس تبدیل کر کے چھت پر واک کی۔ وہیں بیٹھ کر یورپی مصنفہ الانا لینٹن کی نسل پرستی کے بارے میں کتاب ’ریس ازم‘ پڑھی۔ آج تو اتفاق سے ہوا چل رہی ہے لیکن لاہور کی گرمیاں ناقابلِ برداشت ہیں۔ میں گذشتہ سال جولائی اگست میں یہاں تھی اور میں نے اُسی وقت سوچ لیا تھا کہ بس یہ پہلی اور آخری بار ہے۔ اِس سال میں ہر صورت گرمیاں امریکہ میں گزاروں گی (قہقہہ)۔

پاکستان میں رہنے کے چیلنجز جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا پانی کی قلت۔۔۔ وہ تو ہیں لیکن میری زندگی سادہ ہے اور میں بہت سی چیزوں کے بغیر بھی رہ سکتی ہوں۔ میں آپ کو مثال دیتی ہوں۔ اب اِس سال آ کر میں نے گیزر خریدا ہے۔ اِس سے پہلے میرے پاس ایک بالٹی اور بجلی سے چلنے والی پانی گرم کرنے کی راڈ ہوا کرتی تھی۔ اور یہ کافی تھا کیونکہ پانی تو گرم ہو رہا تھا (قہقہہ)۔

لیکن اب اگر کوئی دوسرا امریکی یہاں آتا ہے اور کہتا ہے کہ اُسے فلاں چیز چاہیے اور فلاں سہولت چاہیے۔۔۔ تو پھر اُس کے لیے کافی مشکل ہو گا۔ اگر وہ کہے گا کہ اُسے انڈین سٹائل ’ڈبلیو سی‘ نہیں چاہیے اور ویسٹرن کموڈ ہی ہونا چاہیے۔ تو پھر ظاہر ہے مسئلہ ہو گا (قہقہہ)۔

وقت شام سات بجے: گھر کی نچلی منزل پر گئی اور مکان مالکن سے گپ شپ کی۔ شاہدہ ایک ہاؤس وائف ہیں اور مجھے بالکل اپنی بیٹی کی طرح سمجھتی ہیں۔ اگر کبھی مجھے گھر واپسی پر دیر ہو جاتی ہے تو وہ بالکل ماں کی طرح میری فکر کرتی ہیں۔

میرے کوئی بہت زیادہ دوست نہیں ہیں۔ ہاں کبھی کبھار کسی جان پہچان والے یا ساتھی آرٹسٹ سے کیفے یا ریسٹورنٹ میں ملاقات ہو جاتی ہے اور پھر سیدھا گھر واپس۔ تو میری زندگی تو میرا کام ہے اور میرا سارا فوکس اُسی پر ہوتا ہے۔

پاکستان کی ثقافت میں مجھے شادیوں کی روایت بہت دلچسپ لگتی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کے کلچر کا سب سے اہم حصہ شادی بیاہ کی تقریبات ہیں۔ مجھے پاکستانی شادیوں میں جانا پسند ہے۔ اِس طرح میں مقامی ثقافت کو بہت قریب سے دیکھ پاتی ہوں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں نے گلیوں میں ٹینٹ کے اندر ہونے والی شادیوں سے لے کر انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والے ویڈنگ ایونٹس میں بھی شرکت کی ہے؟

جلین رہوڈز

وقت رات آٹھ بجے: ایک روز پہلے کا بچا سالن گرم کیا اور تازہ روٹی پکائی۔ جب میں اپنے پاکستانی دوستوں کو بتاتی ہوں کہ میں بالکل پرفیکٹ گول روٹی بنا سکتی ہوں تو وہ حیران رہ جاتے ہیں (قہقہہ)۔ ایک بار میں نے اپنی دوست کو روٹی پکاتے دیکھا تو مجھے بھی شوق ہوا اور کئی ناکام تجربات کے بعد میں نے یہ کام سیکھ لیا۔

میرے خیال میں جو غیر ملکی زیادہ ٹائم کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں اُنھیں ایسے چھوٹے چھوٹے تجربوں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کسی ملک سیر کے لیے آنا، وہاں مستقل رہنے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاح کراچی، لاہور یا اسلام آباد گھومنا چاہتا ہے تو یہ تو بہت آسان ہے۔ رہنے کے لیے ہوٹل ہیں، آنے جانے کے لیے آن لائن ٹیکسی سروسز ہیں اور ویسٹرن فوڈ تو ہر جگہ ہی مل جاتا ہے۔

لیکن جب آپ کسی ملک میں زیادہ وقت گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اصل امتحان تو اُس وقت شروع ہوتا ہے۔ جب کلچر اور رہن سہن مختلف ہو تو پھر عادات اور طور طریقے بدلنے پڑتے ہیں اور اُن کو نئے انداز میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے صبر اور حوصلے کا ہونا بہت ضروری ہے۔

وقت رات نو بجے: امریکہ میں گھر والوں سے ویڈیو کال پر بات کی۔ میرے والدین ریٹائڑڈ ہیں اور ریاست آئی ڈاہو میں رہتے ہیں۔ میری ایک چھوٹی بہن بھی ہے جو تاریخ میں پی ایچ ڈی ہے اور کچھ عرصہ پہلے ہی لندن سے امریکہ شفٹ ہوئی ہے۔

میرے خاندان والوں نے تھک ہار کر یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ میں کافی عجیب و غریب ہوں (قہقہہ)۔ اب انھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے (قہقہہ)۔ خیر یہ تو مذاق کی بات تھی لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ہفتے گھر والوں کو ویڈیو کال ضرور کروں تاکہ ہم ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر سکیں۔

میرے گھر والے زیادہ ٹی وی نہیں دیکھتے اور نہ ہی وہ پاکستان کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ اگر میڈیا میں پاکستان سے متعلق کوئی نیوز آتی ہے تو وہ پہلے مجھ سے کنفرم کرتے ہیں کہ خبر سچ ہے یا نہیں۔ اب ہماری ایک طرح کی انڈرسٹینڈنگ بن گئی ہے اور وہ خبر کے بجائے میری بات پر اعتبار کرتے ہیں۔

وقت رات گیارہ بجے: اب میں شاور لوں گی اور کچھ دیر ’کینڈی کرش‘ کھیل کر سونے کی تیاری کروں گی۔ جاتے جاتے میں آپ کے ساتھ پاکستان میں اپنا سب سے خوبصورت تجربہ شئیر کرنا چاہتی ہوں۔

بہت سے پاکستانی ایسے ہیں جن کے لیے میں ہمیشہ ایک ’گوری‘ رہوں گی۔ چاہے جتنے سال یہاں گزار لوں۔۔۔ ہمیشہ ایک مہمان ہی رہوں گی۔ لیکن کچھ ایسے ضرور ہیں جنھوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ میری جلد کا رنگ کیسا ہے، میری قومیت کیا ہے یا یہ کہ اُردو میری زبان نہیں ہے۔ انھوں نے یہ سب بُھلا دیا ہے اور مجھے صرف ایک انسان کے طور پر اپنایا ہے۔ ایسے لوگ میرے بہترین دوست ہیں۔

میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہم سب ایک دوسرے کو پاکستانی یا امریکی نہیں۔۔۔ صرف اور صرف انسان سمجھیں اور عزت و احترام دیں۔ میرے خیال میں اِسی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔

شب بخیر۔

۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp