عمران خان کا ویژن اور ہمارے راؤ غلام مصطفیٰ


عزیزم راؤ غلام مصطفیٰ کی تحریریں ”ہم سب“ کے لئے تواتر سے موصول ہوتی ہیں اور رائے کے کسی ممکنہ اختلاف سے قطع نظر من و عن شائع کی جاتی ہیں۔ راؤ غلام مصطفیٰ زود نویس ہیں۔ ان کی تحریروں میں وسطی پنجاب کے متوسط طبقے کے تاریخی شعور اور سیاسی نفسیات کی جھلک ملتی ہے۔ مہ و سال کے اعتبار سے راؤ صاحب اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے عہد میں سن شعور کی آنکھ کھولی۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے پچاس برس اس عزیز نسل کے حیطہ خیال سے باہر ہیں۔ چنانچہ محترم بھائی راؤ غلام مصطفیٰ عمران خان (حال وزیر اعظم) کے بارے میں ویژن کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے اعراض قرین آداب نہیں۔ ویژن سیاست کا وہ مرتبہ ہے جس کی تہمت، عمران خان تو ایک طرف رہے، ان کے زندہ اور مرحوم اتالیق خواتین و حضرات پر رکھنا بھی مناسب نہیں۔ ویژن سیاسی تدبر کا آخری درجہ ہے جو تاریخ کے گہرے علم، عملی سیاست کے کٹھن مجاہدے اور روح عصر سے زندہ شناسائی جیسے اجزا سے ترتیب پاتا ہے۔ ویژن کی تصدیق یا تردید لمحہ موجود میں نہیں ہوتی۔ کسی سیاسی رہنما کے لئے ویژن کی اصطلاح آئندہ نسلوں کے لئے چھوڑ دینی چاہیے۔

راؤ غلام مصطفیٰ نے میانوالی کے میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کے لئے اطلاعات کی وزارت تجویز کی ہے۔ یہ وزارت کچھ ہفتے قبل شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ صاحبان میں تقسیم ہوئی ہے۔ راؤ صاحب کے اشہب قلم کی روانی غبار راہ دیکھتی ہے اور نہ تناسب اشتیاق جانتی ہے۔ وہ چاہیں تو روکھڑی ٹرانسپورٹ سروس کی مناسبت سے مواصلات کا محکمہ تجویز کر دیں، طبع مائل ہو تو وزارت اطلاعات پر انگلی رکھ دیں۔ راؤ غلام مصطفیٰ جانیں اور ان کے لیڈر کا ویژن۔ ہماری گزارشات کچھ اور ہیں۔ زیر نظر تحریر میں راؤ صاحب سے کچھ واقعاتی تسامحات سرزد ہوئے ہیں۔ راؤ صاحب فرماتے ہیں کہ ”ملکی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کے سیاستدانوں نے اس عوام پر دنیا کی زمینی طاقتور قوتوں کے اس نظام کو مسلط کر دیا جسے دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے نام سے جانتی ہے“

راؤ صاحب تصحیح فرما لیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلی مرتبہ دسمبر 1958 میں سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت قرض لیا تھا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے دوسری مرتبہ مارچ 1965 میں قرض لیا۔ پاکستان نے تیسری مرتبہ اکتوبر 1968 میں آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ ہر تین مواقع پر جنرل (فیلڈ مارشل) ایوب خان سریر آرائے سلطنت تھے۔

ورلڈ بینک کا نام بھی لیا گیا۔ شعیب محمد 1958 میں خود ساختہ صدر پاکستان ایوب خان کے توسط سے ہمارے وزیر خزانہ بنے۔ شعیب محمد ورلڈ بینک سے آئے تھے۔ پاکستان کا وزیر خزانہ ہوتے ہوئے ورلڈ بینک کے ملازم تھے۔ مارچ 1965 میں وزارت خزانہ سے رخصت ہوئے تو پاکستان کو بھی خیرباد کہہ گئے۔ نیویارک ہی میں وفات پائی۔ ڈاکٹر محبوب الحق اور سرتاج عزیز ورلڈ بینک ہی سے وابستہ رہے تھے۔ 1993 میں منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تو پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سے بے نیاز معین قریشی ورلڈ بینک ہی سے تشریف لائے تھے۔ شوکت عزیز کس بینک کے ملازم تھے؟ پاکستان کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد شوکت عزیز ملک کیوں چھوڑ گئے؟ موجودہ حکومتی بندوبست کے خالص دستوری خد و خال کا تعین آسان نہیں لیکن یہ بہرصورت معلوم ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ ورلڈ بینک کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ہین نیز یہ کہ ان کی رونمائی پرویز مشرف کی حکومت میں ہوئی تھی۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کا تعلق آئی ایم ایف سے ہے۔

راؤ غلام مصطفیٰ پاکستان کے سیاستدانوں کو بنظر حریف دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو محاربے میں کوئی فریق ثانی بھی تو ہو گا۔ راؤ صاحب ہمت کریں اور فریق ثانی کی نشاندہی کریں۔ درویش تہی دست قلم نویس ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان ایک سیاست دان محمد علی جناح نے حاصل کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے جوتوں سے اٹھنے والی دھول پاکستان کے کسی بھی سابق یا متمنی غیر سیاسی مداخلت کار کی دستار سے افضل تھی اور رہے گی۔ جسے تردید کا یارا ہو، وہ اپنا بیان تاریخ کو جمع کروا دے۔

انسانی اجتماع میں کسی ادارے، گروہ یا شعبے کی افادیت اس کے بہترین نمائندوں سے متعین ہوتی ہے کیونکہ کوئی گروہ، ادارہ یا شعبہ برے نمونوں سے خالی نہیں ہوتا۔ تاہم پاکستان کے سیاسی طبقے سے موازنے کے لئے اس شرط کا التزام بھی ضروری نہیں۔ پاکستانی سیاست کے کسی قدر کمزور نمونے بھی جب غیر سیاسی سائبان سے باہر نکلے تو مداخلت کار فریق سے کئی فرسنگ آگے پائے گئے۔

راؤ غلام مصطفیٰ فرماتے ہیں کہ ”عمران خان کی کابینہ میں آج بھی ایسے جغادری سیاستدان موجود ہیں جو تقریباً پاکستان میں بننے والی تمام حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔“ راؤ صاحب سے دو سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ مختلف حکومتوں کا حصہ رہنے والے یہ ”سیاست دان“ اکتوبر 2011 سے پہلے عمران خان کی جماعت میں شامل ہوئے یا بعد میں؟ اپریل 1996 سے ستمبر 2011 تک وہ کون سی دلیل تھی جس نے ”حکومتوں کا حصہ رہنے والے ان سیاست دانوں“ کو عمران خان کے دست حق شناس پر بیعت سے روکے رکھا۔ اسی سوال کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کس کی انگشت معجز نما نے عمران خان کو اکتوبر 2011 میں ان ”سیاست دانوں“ کو اپنے سایہ عاطفت میں لینے پر آمادہ کیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ستمبر 1981 میں مرحوم جنرل ضیا الحق نے ایک مجلس شوریٰ بنائی تھی۔ اس ماورائے آئین مجلس کے اراکین کی فہرست اٹھا کر بتائیے کہ کیا عمران خان کی کابینہ میں شامل کوئی ”جغادری سیاست دان“ ایسا ہے جو خود یا اس کا خانوادہ ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کا رکن نہ رہا ہو؟

راؤ غلام مصطفیٰ چلتے ہوئے جملے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ”سیاستدانوں کے نزدیک معاہدے حدیث کا درجہ نہیں رکھتے“ ممکن ہے کہ راؤ صاحب کو یاد ہو کہ 9 مارچ 2008 کو بھوربن کے مقام پر پاکستان پیپلز پارٹٰی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت دونوں جماعتوں نے ایک مخلوط حکومت قائم کی۔ اس معاہدے میں عدلیہ کی بحالی کی شق بھی شامل تھی۔ افتخار محمد چوہدری کی معزولی اور بحالی کا ماورائے آئین تناظر بھوربن معاہدے کے فریقین سے مخفی نہیں تھا۔ میاں نواز شریف تب آزاد عدلیہ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے اور دستوری بندوبست میں افراط و تفریط کے موکھوں سے ثاقب نثار کا جھانکتا ہوا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھے۔ نواز شریف کے افتخار محمد چوہدری کی بحالی پر اصرار سے معاہدہ بھوربن ٹوٹ گیا۔ اس معاہدے کے ختم ہونے پر آصف علی زرداری نے سیاسی معاہدوں کے بارے میں ”حدیث نہیں ہوتے“ کا جملہ ادا کیا تھا۔ یہ قلم کار سیاسی مکالمے میں مذہبی اصطلاحات کا استعمال روا نہیں سمجھتا۔ آصف زرداری کے اس لفظی ”تجاوز“ سے قطع نظر انہوں نے سیاسی، آئینی اور قانونی طور پر بالکل درست بات کہی تھی۔ دنیا کا ہر معاہدہ فریقین کے درمیان رضامندی سے طے پاتا ہے اور ہر معاہدہ میں یہ مفروضہ بدیہی طور پر شامل ہوتا ہے کہ معاہدے کا حصہ بننے والے فریق کسی بھی مرحلے پر معاہدے سے الگ ہونے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کوئی معاہدہ مستقل نہیں ہوتا۔ ہر معاہدے کی میعاد فریقین کی رضامندی کے تسلسل سے مشروط ہوتی ہے۔ حلف البتہ یک طرفہ اعلان اطاعت ہے اور حلف اٹھانے والا اپنے طور پر حلف کی خلاف ورزی کا اختیار نہیں رکھتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ بات 14 جون 1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ کے دورے پر اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کر نوزائیدہ مملکت کے ان افسروں سے بات کرتے ہوئے کہی تھی جو حلف کا بار امانت اٹھا چکے تھے۔ بابائے قوم نے فرمایا تھا:

. . . During my talks with one or two very high-ranking officers I discovered that they did not know the implications of the Oath taken by the troops of Pakistan. Of course, an oath is only a matter of form; what are more important are the true spirit and the heart. . . .

I want you to remember and if you have time enough you should study the Government of India Act, as adapted for use in Pakistan, which is our present Constitution, that the executive authority flows from the Head of the Government of Pakistan, who is the governor-general and, therefore, any command or orders that may come to you cannot come without the sanction of the Executive Head.

معاہدہ کی تقدیس کا درس دینے والوں کو یاد دلانا چاہیے کہ اکتوبر 1958 میں حلف توڑا گیا۔ حلف شکنی سے جسد اجتماعی میں ایسی خرابی جنم لیتی ہے کہ یک طرفہ شخصی دستور مسلط کرنے والا 25 مارچ 1969 کو اپنے ہی بنائے دستور کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دستور ایسی چیز نہیں جسے تنسیخ، تعطل یا خلل کی لفظی بحث میں الجھایا جائے۔ آئین بارہ صفحے کی دستاویز نہیں جسے کوئی پھاڑ کے پھینک دے۔ ایسا سوچنے والے ظفر انصاری رپورٹ سمیت فنا ہو جاتے ہیں۔ آئین ردی کتاب نہیں جسے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔ ایسا کہنے والے تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آئین ”سڑا بسا“ (Rotten Product) نہیں۔ جو ایسا کہتے اور لکھتے ہیں، ان کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ زندہ ہیں یا پردہ فرما گئے۔ پاکستان قائم رہنے کے لئے وجود میں آیا ہے اور پاکستان کے وجود کی ضمانت پاکستان کا آئین دیتا ہے۔ پاکستان اور دستور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔

عزیزم راؤ غلام مصطفیٰ فرماتے ہیں کہ گول میز کانفرنس میں ایوب خان نے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے کہا کہ ”مولانا سیاست تو ایک گندا کھیل ہے آپ کیوں اس میں چلے آئے؟“ سیاست گندا کھیل نہیں، سیاست اعلیٰ ترین انسانی سرگرمی ہے۔ سازش اور جرم کی مدد سے سیاست میں داخل ہونا گندا کھیل ہے۔ ایوب خان اپنے ساتھی افسر شیر علی خان کے نام رقعہ لکھتے تھے کہ ”مجھے مشرقی پاکستان بھیجا جا رہا ہے، میرے لئے کچھ کرو“ تو مجاز حکام کے قانونی حکم کے ساتھ گندا کھیل کھیل رہے تھے۔ لندن کے ہسپتال میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست کا آئندہ خاکہ مرتب کرتے تھے، فوج کا سربراہ ہوتے ہوئے وزیر دفاع کا عہدہ قبول کرتے تھے، حکومتوں کے اکھاڑ پچھاڑ میں پس پردہ کردار ادا کرتے تھے تو گندا کھیل کھیلتے تھے۔ ایبڈو کا خود ساختہ قانون مسلط کرتے تھے، بدعنوانی کے من گھڑت الزامات کی آڑ میں سیاست دانوں کی ایک پوری نسل کو تباہ کرتے تھے، ملکی مفاد کو بیرونی قوتوں کے ہاتھ رہن رکھتے تھے، ملک پر خود ساختہ آئین مسلط کرتے تھے، مادر ملت پر ناقابل اشاعت الزامات لگاتے تھے، انتخابات میں دھاندلی کرتے تھے، ملک کو جنگی مہم جوئی کا حصہ بناتے تھے تو گندا کھیل کھیلتے تھے۔ اگست 1947 سے ستمبر 1948 تک ابوالاعلیٰ مودودی نے تقریر و تحریر میں قائد اعظم پر جو بہتان طرازی کی، وہ گندا کھیل تھا اور تاریخ کا حصہ ہے۔ فروری 1969 میں ایوب خان کو صاف ستھری سیاست کے اصول اس لئے یاد آئے کہ یحییٰ خان اور ان کا ٹولہ ایوب خان سے زیادہ گندا کھیل شروع کر چکا تھا۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے قلمدان سنبھالے ایڈمرل اے آر خان اور وزیر خارجہ میاں ارشد حسین سمیت متعدد قریبی ساتھی سازش کا حصہ بن چکے تھے۔

راؤ غلام مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ ”سیاستدانوں کے نزدیک اپنے اقتدار اور مفادات کا تحفظ اولین ترجیح ہوتا ہے۔“ اقتدار اور مفادات کو ایک ہی جملے میں بیان کرنا مناسب نہیں۔ اقتدار سیاست کا ناگزیر حصہ ہے اور عوام کی امانت ہے۔ پاکستان کے لوگ جسے چاہیں، یہ امانت سونپ دیں۔ اسی طرح مفاد بذات خود منفی مظہر نہیں۔ جمہوریت مکالمے کے ذریعے متنوع مفادات میں قابل قبول سمجھوتے ہی کا نام ہے۔ البتہ ماورائے دستور اور ماورائے قانون مفاد پر مکالمہ ہونا چاہیے۔ ایوب خان گول میز کانفرنس کے ذریعے اپنے غیر جمہوری اور ناجائز مفاد کا تحفظ چاہتے تھے۔ مارچ 1971 میں یحییٰ خان مجیب الرحمن سے کیا مانگنے ڈھاکہ گئے تھے۔ وہ اپنے غاصبانہ اقتدار کا دوام چاہتے تھے۔ 1985 میں پارلیمنٹ قائم ہونے کے بعد ضیا الحق مارشل لا اٹھانے کے لئے آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری کیوں مانگ رہے تھے۔ وہ اپنے ناجائز مفاد میں توسیع چاہتے تھے۔ 2003 میں پرویز مشرف کی ٹیم منتخب نمائندوں سے سترہویں آئینی ترمیم کے نام پر کیا مانگ رہی تھی؟ پرویز مشرف نے 2004 میں وردی اتارنے سے انکار کیوں کیا تھا؟ اسی طرح کچھ اور مفادات بھی ہیں جنہیں دستور کی شق 19 کی رو سے ضبط تحریر میں نہیں لایا جاتا۔ تاہم ان کا تفصیلی ذکر جنرل شیر علی خان، جنرل گل حسن، جنرل مٹھا، جنرل چشتی اور جنرل شاہد عزیز سمیت درجنوں خود نوشت سوانح عمریوں میں درج ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے دستیاب حصوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں جھگڑا ہی جائز اقتدار اور ناجائز مفاد کا ہے۔ تاریخ اس کا فرانزک آڈٹ ضرور کرے گی۔

راؤ غلام مصطفیٰ جیسے ہونہار نوجوان کو زیب نہیں دیتا کہ اپنے قلم کو چھانگا مانگا کے طعنے سے آلودہ کریں۔ چھانگا مانگا کی سیاست تو آئی جے آئی کا چوگان تھا۔ آئی جے آئی اسلامی جمہوری اتحاد کا مخفف تھا اور اس کے قیام کا سہرا جنرل حمید گل اپنے سر باندھتے تھے۔ اکتوبر 1989 کے آخری ہفتے میں چھانگا مانگا میں ایک بازار سجایا گیا تھا جس کی تفصیل ریاست مدینہ کے تشخص سے میل نہیں کھاتی۔

راؤ غلام مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ ”پارلیمان میں آج تک ملک و ملت کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے نہیں کیے جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نقشے کی تکمیل ممکن ہو سکے۔“ کیا عرض کی جائے؟ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا صدر وہ شخص تھا جس نے ہمیں ایک متحدہ پاکستان بخشا، جس کی سرحدیں مغربی پاکستان میں وسطی ایشیا سے لے کر مشرقی پاکستان میں مشرق بعید تک پھیلی ہوئی تھیں۔ محمد علی بوگرہ جیسا حادثاتی وزیر اعظم پنڈت نہرو کے ساتھ میز پر بیٹھ کر مشرقی پاکستان کے کئی سرحدی معاملات طے کر آیا تھا۔ ستمبر 1958 میں فیروز خان نون نے گوادر کی بندرگاہ پاکستان کا حصہ بنائی تھی۔ ایک شکست خوردہ قوم کا سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو جولائی 1972 میں شملہ معاہدے کی ایک سطر سے 5795 مربع میل رقبہ واپس لے آیا تھا۔ اس معاہدے کی منظوری پاکستانی پارلیمنٹ نے دی تھی۔

راؤ غلام مصطفیٰ فرمائیں کہ قائد اعظم کے پاکستان کا مشرقی حصہ (ایک لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر) گنوانے کا فیصلہ کس پارلیمنٹ نے کیا تھا؟ مارچ 1963 میں شکسگام خطے کا ہزاروں مربع کلومیٹر رقبہ کس پارلیمنٹ نے چین کے حوالے کیا تھا؟ اپریل 1984 میں سیاچین پر بھارتی قبضہ ہوا تو ملک میں کون سی پارلیمنٹ تھی؟ یہ اہم خبر کس نے دی تھی کہ سیاچین پر تو گھاس بھی نہیں اگتی؟ نقشوں کی بات احتیاط سے کیا کریں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین نے ڈھاکہ کے ایک اجلاس میں بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ ”نقشے بنانا بینکوں کا کام نہیں“ ۔ ٹھیک اسی طرح نقشے بنانا اور بگاڑنا پارلیمنٹ کا کام نہیں۔ پارلیمنٹ ملکی سلامتی اور ترقی کی ضمانت دیا کرتی ہے۔ قوم کی سلامتی کے پیمانے کیا ہوتے ہیں؟ رقبہ، افرادی قوت اور وسائل۔ اس کے کچھ اشارے عرض کر دیے ہیں۔

آخری بات یہ کہ ہمیں یہ بتانا ابھی قبل از وقت ہے کہ قوم نے دو جماعتوں کی ”لوٹ مار“ سے تنگ آ کر جولائی 2018 ء میں اس ملک کی حکومت عمران خان کو سونپی۔ ابھی تو 1970 کے انتخابات میں این اے رضوی اور جنرل غلام عمر کی دریا دلی کے قصے طے نہیں ہوئے۔ ابھی تو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کی فصل پوری نہیں کٹی۔ ابھی تو 1990 کے انتخابات میں فنڈز کی تقسیم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ عمل درآمد کا منتظر ہے۔ ابھی تو 2002 کے انتخابات میں احتسابی عمل سے جنم لینے والی مسلم لیگ (ق) کے طارق بشیر چیمہ نے نیب پر پولیٹیکل انجنیئرنگ کا الزام دھرا ہے۔ ابھی تو پیر اعجاز شاہ نے 2008 کی انتخابی تصویر کے بناؤ بگاڑ کے راز بیان کیے ہیں۔ ابھی تو جہانگیر ترین نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی حقیقت بیان کی ہے۔ ابھی تو 2018 کے کھرنڈ بھی نہیں بھرے۔ ابھی راؤ غلام مصطفیٰ اپنے ممدوح میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کی نظریاتی استقامت کی داد دیں جنہوں نے 26 جون 2018 کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ۔ ۔ اور جو قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن بھی نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments