فسادی مستشرقین کے مقابل ایک عالم کا چہرہ چاہیے


وہ مغربی سکالر جو مشرقی علوم، زبانوں، ثقافت اور شخصیات پر تحقیق کے بعد اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں انہیں مستشرقین کہا جاتا ہے۔ مستشرقین نے ہمیں ہمارے ماضی سے ملایا ہے۔ ایسے مستشرقین جنہوں نے مسلم تاریخ پر کام کیا ان کے کام کو بڑی پذیرائی ملی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے برطانیہ اور فرانس جیسی نو آبادیاتی ریاستوں کی مشنری تنظیموں کے لیے کام کیا۔ انہوں نے یہ فتنہ اٹھایا کہ موجودہ مکہ شہر عہد رسالت مآب کا شہر مکہ نہیں۔

انہوں نے یہ فساد پیدا کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کی تدوین درست نہیں۔ انہوں نے صحابہ کرام ؓکے مابین تعلقات میں اختلافات کے پہلو بڑھا چڑھا کر بیان کیے۔ ایسے ہی ایک مستشرقی سکالر ولیم میور نے رسول کریم ﷺ کی ذات پاک پر ناواجب اعتراض اٹھائے، لائف آف محمد 1861 ء میں شائع ہوئی اس کی چار جلدیں ہیں، سر سید احمد خان رنجیدہ ہو گئے۔ انہوں نے مولانا شبلی نعمانی سے سیرت پاک پر وارد کیے گئے اعتراضات کا جواب دینے کو کہا۔

شبلی نعمانی کی تحریر ”سیرت النبی ﷺ“ کو اسی حوالے سے اہمیت حاصل ہے۔ سارے مستشرقین فسادی اور مسلمانوں میں نفاق ڈالنے والے نہیں۔ عشق رسول ﷺ سے بھرپور ترک حکمران سلطان عبدالمجید خاں نے بہت سے تبرکات مغربی محققین سے بھاری ہدیے کے بدلے جمع کیے۔ ایران کے حکمران خسرو پرویز نے دریائے دجلہ کے پار مدائن سے 60 میل دور ایک عالیشان محل تعمیر کرایا۔ محل کی چھتوں کو سہارا دینے کے لیے چار ہزار ستون بنائے گئے۔ ایک ہزار سنہرے فانوس محل میں آویزاں تھے۔

محل کے باہر میلوں تک باغات پھیلے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سونے، چاندی اور جواہرات کو محفوظ رکھنے کے لیے محل میں ایک سو تہہ خانے تھے۔ اب تصور کریں ایسی مملکت کے حکمران کو 628 ہجری میں رسول اللہ ﷺ کے سفیر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ نامہ مبارک پہنچاتے ہیں کہ توحید خداوندی کو تسلیم کر لیں ورنہ اپنے ساتھ اپنی قوم کی گمراہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔ خسرو خود کو دوسرا خدا سمجھتا تھا۔ محققین نے لکھا ہے کہ اس نے مکتوب نبوی ﷺ کو چاک کر دیا اور برہمی کا اظہار کیا۔

ان ہی دنوں قیصر روم سے جنگ ہوئی۔ خسرو کے 18 بیٹے اس کے سامنے مارے گئے۔ ایک بیٹے شیرویہ نے باپ کو قتل کر دیا۔ مولانا سید محبوب رضوی نے مکتوبات نبوی کے نام سے ایک خوبصورت کتاب ترتیب دی۔ اچھا کام یہ ہوا کہ انہوں نے دیگر مکتوبات نبوی کی دریافت کے ساتھ خسرو کو لکھے خط بابت بعض تحقیقی نکات بھی بیان کیے ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا کہ مئی 1963 ء کو لبنان کے سابق وزیر خارجہ ہنری فرعون کے آبائی ذخیرہ میں یہ والا مکتوب نبوی دریافت ہوا۔

ہنری فرعون مذہباً مسیحی تھے۔ انہوں نے مزید تحقیق کے لیے یہ خط ڈاکٹر صلاح المنجد کو دیا۔ 22 مئی 1963 ء کو بیروت کے اخبار ”الحیات“ میں ڈاکٹر صلاح المنجد کا تحقیقی مضمون شائع ہوا۔ ہنری فرعون لاکھوں ڈالر کے معاوضے پر بھی اس مکتوب مبارک کو فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ بعد ازاں ڈاکٹر حمید اللہ نے بھی اس کی زیارت کی اور تحقیق میں کچھ اضافہ کیا۔ ماہرین سے صدیوں سے چلی آ رہی اس روایت کی تردید کی کہ خسرو نے نامہ مبارک چاک کر دیا تھا۔

یہ خط اس وقت کے رواج کے مطابق اونٹ یا ہرن کی بالکل پتلی کھال پر لکھا گیا۔ نامہ مبارک کے سلسلے میں خسرو کے ردعمل کو ”مزق“ سے تعبیر کیا گیا۔ نیز ”شق“ کی تعبیر بھی ملتی ہے لیکن یہ دونوں الفاظ ”افنائی“ یعنی فنا کر دینے کے معنی نہیں دیتے۔ دوسرا یہ کھال ایک مضبوط چیز ہوتی ہے اسے چاک نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اس زمانے میں حروف ختم کرنے کے لیے لوگ کھال والی تحریروں پر پانی بہا دیا کرتے تھے۔ ایک مکتوب مبارک مقوفس نائب السلطنت مصر کو بھیجا گیا۔

یہ خط موسیو بارٹلمی نے سلطان عبدالمجید خان کو 1861 ء میں تین سو پاؤنڈ میں فروخت کیا۔ منذر بن ساویٰ گورنر بحرین کے نام لکھا گیا نامہ مبارک 1858 ء میں ایک فرانسیسی سیاح کو مصر کے ایک قطبی راہب سے ہاتھ آیا۔ اس کو بھی سلطان عبدالمجید خان نے بڑی قیمت دے کر خرید لیا۔ ایسے بہت سے تبرکات ہیں جو ترکوں نے دنیا کے کونے کونے سے جمع کیے۔ جس طرح گوئٹے اقبال کے توسط سے اردو جاننے والوں کے لیے معروف ہوا اسی طرح جرمنی میں اقبالؔ کے کلام کی جہتوں کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر این میری شمل نے کام کیا۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بتایا تھا کہ جب وہ پہلی بار سوویت یونین گئے تو انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کا ایک ابتدائی ناول ماسکو یونیورسٹی میں اردو کے طلبا و طالبات کو پڑھایا جا رہا تھا۔ یہ آج سے پینتالیس پچاس برس پہلے کی بات ہے۔ شعبہ اردو کی سربراہ پروفیسر لڈمیلا فیض اور غالب کو پڑھتی تھیں۔ لکھنا کچھ اور تھا قلم نے میرے ایک دوست کے سوال کو اچک لیا۔

اس نے پوچھا ہے کہ عہد حاضر میں کیا پاکستان میں کوئی ایسی علمی شخصیت ہے جسے مغرب کے سامنے ہم اپنے نظریات، عقائد اور رواجات کے دفاع کے لیے نمائندہ بنا کر پیش کر سکتے ہوں۔ بحث کرنے والے، جھگڑا کرنے والے، دوسروں کی باتیں سنا کر واہ واہ کے اسیر ہماری سوچ کی نفسیات سے واقف ہیں تو کوئی روشنی کریں، اندھیرا بہت گھور ہے۔ ہم بات کرنے والے کے چہرے کو نہیں دیکھ پا رہے۔ ہمیں ایک چہرہ چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments