مقبوضہ کشمیر بمقابلہ ہانگ کانگ: معاملہ انسانی حقوق کا نہیں


وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم سے خبردار کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے واضح کیاکہ بھارت صرف پاکستان کے خلاف ہی سرگرم عمل نہیں بلکہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کا شکار ہے ۔ اس طرح وہ علاقے اور دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ اسی دوران واشنگٹن سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہانگ کانگ میں نئے سیکورٹی قوانین متعارف کروانے کی چینی حکمت عملی کے خلاف جلد ہی کوئی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم، حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو ان دو انتہاؤں کے بیچ سچائی تلاش کرنے، اپنی سفارتی پوزیشن کا تعین کرنے اور بھارت کے جارحانہ عزائم سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی پالیسی برین اسٹارمنگ کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت اور مفادات کے تحفظ کے لئے بروقت اقدامات اور آپشنز کا تعین کرسکے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے بھارتی ارادوں اور نریندر مودی کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حدوں کو چھوتی ہوئی حکمت عملی کے بارے میں جو بھی کہا ہے وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہونے کے علاوہ زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عالمی سیاسی و سفارتی تناظر میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک نہ تو بھارت کے جارحانہ عزائم کو مسترد کرتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی عالمی ادارہ یا انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارتی حکومت اپنی آبادی اور معاشی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے اکثر ملکوں کو اپنی انتہاپسندانہ اور جارحانہ پالیسیوں پر چپ سادھے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

ہانک کانگ میں جمہوری تحریک کے حوالے سے اس وقت واشنگٹن میں جو ہنگامہ بپا ہے اور صدر ٹرمپ کو جس طرح چین کے خلاف کسی سخت اقدام پر دباؤ کا سامنا ہے، اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ دنیا کسی اصول، انسانوں کے حقوق اور مساوات کی ترویج کے لئے کسی مؤثر حکمت عملی پر کاربند ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ ورنہ ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند مظاہرین کے حقوق کے لئے بے چین ہوکر چین کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کرنے والے امریکی ماہرین ، میڈیا اور سیاست دانوں کو اس سے بہت پہلے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ایک کروڑ کشمیریوں کو گزشتہ اگست سے اپنے ہی گھروں میں قیدی بنانے والی بھارتی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی جاتی اور بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی بات بھی اتنی ہی شدت سے کی جاتی۔

ہانگ کانگ پر 1997 کے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ نے چین کو اقتدار اعلیٰ سونپا تھا ۔ 50 برس کی مدت کے اس معاہدے کے تحت چین اس بات کا پابند ہے کہ ہانگ کانگ کے سیاسی و سماجی نظام میں 2047 تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں کرے گا بلکہ وہاں رہنے والے لوگوں کو مغربی ممالک کے معیار اور اصولوں کی بنیاد پر اظہار رائے، احتجاج اور سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت کے حقوق حاصل رہیں گے۔ اس طریقہ کو ’ایک ملک دو نظام‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسی متفقہ انتظام کے تحت اگر چین نے ہانگ کانگ کے سیاسی انتظام کو مین لینڈ چین سے علیحدہ رکھا تو امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی ہانگ کانگ کو خصوصی معاشی و تجارتی مراعات دیں۔ اس طرح ہانگ کانگ بدستور دنیا کا اہم ترین تجارتی مرکز بنا رہا۔

ہانگ کانگ میں احتجاج کا موجودہ سلسلہ 2019 میں ایک قانون متعارف کروانے کے بعد شروع ہؤا تھا۔ اس قانون کے تحت سنگین جرائم میں ملوث افراد کو چین منتقل کرنے کی سہولت پیدا کی گئی تھی۔ ہانگ کانگ کی جمہوریت پسند تحریک نے اسے ہانگ کانگ کی خود مختارانہ حیثیت اور ’ایک ملک دو نظام‘ کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا اور پورے علاقے میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو کسی نہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ مظاہرین کا خیال ہے کہ اس قانون کے تحت چینی نظام حکومت کی مخالفت کرنے والے سرگرم سیاسی کارکنوں کو مجرم قرار دے کر چین منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس طرح ہانگ کانگ کی حیثیت متاثر ہوگی اور وہاں جمہوری آزادیاں ختم کردی جائیں گی۔ چینی حکومت اس احتجاج کچلنے کے لئے اب نئے قومی سلامتی قوانین متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے تحت چین کے پرچم کی توہین کرنا جرم ہوگا اور چینی آئین پر حرف زنی نہیں کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ تمام اسکولوں میں چین کا قومی ترانہ زبانی یاد کرنا لازمی قرار دیا جائے گا۔

نئے قوانین کے تحت 75 لاکھ آبادی کے جزیرے ہانگ کانگ میں بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کم کرنے اورشہریوں کی آزادیاں محدود کرنے کا اقدام کیا جائے گا۔ بجا طور سے یہ طریقہ چین کو ہانگ کانگ میں جابرانہ نظام مسلط کرنے اور وہاں آزادی اور خود مختاری کی تحریک چلانے والوں کو دبانےکے لئے استعمال ہوگا۔ اس بارے میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ چین کو برطانیہ کے ذریعے 1997 میں ہانگ کانگ کے باشندوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے خد و خال تبدیل کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا ۔ البتہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہانگ کانگ میں کون سی قوتیں شہری آزادیوں کے نام پر چین کے خلاف دباؤ میں اضافہ کرنے کی کوشش میں لگی رہی ہیں۔

 اس صورت حال اور اس پر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے رد عمل کا موازنہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے کیا جائے اور نریندر مودی کی متعصبانہ، جابرانہ، انتہا پسندانہ اور انسانیت سوز حکمت عملی اور اقدامات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ پرکھنا مشکل نہیں ہوگا کہ امریکہ اور دنیا کو ہانگ کانگ کے معاملہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سوال پر تشویش نہیں ہے لیکن اسے عذر کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ چین کی معاشی ، سفارتی اور اسٹرٹیجک برتری کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسی لئے اب چین پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہانگ کانگ کی خصوصی معاشی حیثیت ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے تاکہ کسی طرح چینی حکومت کو مسلسل اپنے ہی لوگوں کے دباؤ میں رکھ کر اسے عاجز کیا جاسکے۔

 اس کے برعکس بھارت ڈیڑھ کروڑ آبادی کے علاقے مقبوضہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جبر و تشدد کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ وہاں خصوصی کالے قوانین نافذ کئے گئے ہیں جس کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے یا شہریوں کو ہلاک کرنے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف کسی عدالت میں کارروائی نہیں ہوسکتی۔ کشمیریوں کی سیاسی آزادیوں کو سلب کیا گیا اور انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارتی لیڈروں کے وعدوں کے مطابق حق خود اختیاری دینے سے انکار کیا گیاہے۔ اس جبرو تسلط ، سرکاری دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والے اور آزادی کی مسلح جد و جہد کی طرف راغب ہونے والے نوجوانوں کے ساتھ سیاسی مکالمہ کرنے کی بجائے انہیں ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دے کر ان کا پیچھا کیا جاتا ہے اور موقع ملتے ہی انہیں ہلاک کیا جاتا ہے۔ بے گناہ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر طویل عرصہ کے لئے دور دراز جیلوں میں بند کیا جاتا ہے اور کوئی مقدمہ چلائے بغیر انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے۔

تین دہائیوں سے جاری اس صورت حال کے خلاف امریکہ یا عالمی برادری کی طرف سے اس رد عمل کا عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آیا جو اس وقت ہانگ کانگ میں آزادی رائے کے لئے آواز بلند کرنے والوں کی ’حمایت‘ میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہی نہیں نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت نے گزشتہ اگست میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور پورے علاقے میں کرفیو سے ملتا جلتا لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران انٹر نیٹ اور موبائیل سہولتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ نوجوان کشمیریوں کے خلاف جبر و ستم میں اضافہ کیا گیا اور کشمیر کے ڈومیسائل قوانین تبدیل کرکے مقبوضہ وادی میں آبادی کا توازن تبدیل کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہؤا ہے۔

پاکستان چونکہ ان بھارتی کارروائیوں کا پردہ فاش کرتا ہے، اس لئے نریندر مودی کی حکومت مسلسل پاکستان پر کشمیر میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کرتی ہے اور ہر عالمی فورم پر پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمران خان گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران متعدد بار پاکستان پر بھارتی حملے کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج کی جانے والی ٹوئٹ میں بھی انہوں نے بھارت میں نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت کا پردہ ان الفاظ میں فاش کیا ہے: ’بنگلہ دیش کو شہریت کے متنازع قانون سے خطرہ لاحق ہے، نیپال اور چین کے ساتھ بھارت کا سرحدی تنازع ہے اور پاکستان کو جعلی آپریشن کے خطرے کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ فورتھ جینوا کنونشن کے تحت جنگی جرم ہے‘۔

اس سنگین صورت حال کے باوجود امریکہ اور عالمی برادری کو کشمیریوں کی حالت زار، بھارتی استبداد، علاقے میں اس کی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورت حال پر اتنی تشویش بھی نہیں جس کا اظہار ہانگ کانگ کے جمہوری مظاہرین کے خلاف ممکنہ کارروائی کے اندیشے کی وجہ سے چین سے کیا جارہا ہے۔ یہ صورت حال پاکستانی حکومت اور عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے پر جوش بیانات، تازہ بہ تازہ ٹوئٹ یا ایٹمی صلاحیت پر انحصار کرنے کی بجائے مؤثر اور قابل عمل پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ حکمت عملی کیا ہو؟ اس کا جواب اسی وقت سامنے آسکتا ہے جب قومی ادارے جنگ کے خوف سے باہر نکل کر متبادل اقدامات پر غور کریں گے۔ اس کے علاوہ ملک میں طاقت کا توازن ایک خاص ادارے کے حق میں رکھنے کی کوششوں کو ترک کرکے قومی اتحاد و مفاہمت کی دانشمندانہ حکمت عملی کو آپشن کے طور پر اختیا رکیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments