کیا ترکی کے ڈراموں سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے؟


پاکستان میں ترکی کے ڈرامے ’دیریلش ارطغرل‘ کی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ بیشتر لوگوں نے اِس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ترکی کے ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے۔

انڈسٹری کے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی وی کی ٹائمنگ کی وجہ سے اس ڈرامے نے شاندار بزنس کیا کیونکہ اسے لاک ڈاؤن کے دوران ماہِ رمضان میں نشر کیا گیا۔

’دیریلش ارطغرل‘ کو پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے سے پہلے نیٹ فلکس اور پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل ہم ستارے پر بھی نشر کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی ارطغرل نے ترک ارطغرل کو پیچھے چھوڑ دیا

دس پاکستانی ڈرامے جو لاک ڈاؤن میں آپ کی بوریت مٹا دیں گے

’ارطغرل پر پاکستان میں اتنا اچھا ردِ عمل آیا کہ بیان نہیں کر سکتا‘

واضح رہے کہ یکم رمضان سے ملک کے سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن پر ’دیریلش ارطغرل‘ نشر کرنے پر مقامی انڈسٹری کے کئی فنکار مثلاً شان شاہد، ریما اور یاسر حسین اعتراض کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی ڈراموں سے مقامی انڈسٹری کو نقصان ہو گا۔

نجی ٹیلیویژن چینل ’ہم ٹی وی‘ سے وابستہ ہدایت کار و اداکار سیف حسن کہتے ہیں کہ ’دو، چار ڈرامے آ جانے سے پوری انڈسٹری کو خطرہ نہیں ہو جاتا۔ ہم ہر سہ ماہی میں درجنوں ڈرامے چلاتے ہیں۔‘

فلم ’سپر سٹار‘ اور ڈرامہ سیریل ’آنگن‘ کے ہدایت کار و اداکار احتشام الدین نے عالمی ادب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اچھی چیز کے لیے کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جگہ خود بناتی ہے۔‘

احتشام الدین نے ذوق کا ایک مصرعہ پڑھا ’آواز خلق کو نقارہ خدا جانو‘ اور کہا کہ ’کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے اس ڈرامے میں ایک نیا پن ہے۔ ایک ہیرو اور اسلامی سوچ والی کہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے لیکن یہ ڈرامہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیسے اپنے ڈرامے کو بہتر بنایا جائے۔‘

نینا کاشف ماضی میں ایک نجی چینل میں پروگرامنگ ہیڈ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں جہاں سے غیر ملکی زبان کے ڈرامے اردو میں ڈب کر کے نشر کیے جاتے تھے۔ نینا کا خیال ہے کہ انڈسٹری کے لیے صحت مندانہ مقابلہ ضروری ہے۔

’دنیا اب ایک گلوبل ویلج ہے۔ سب چیزیں آن لائن دستیاب ہیں، چاہے وہ نیٹ فلِکس ہو، ایمازون ہو، یوٹیوب ہو یا آن لائن سٹریمنگ سروسز ہوں۔ وہاں تو پہلے ہی ترکی کا مواد موجود ہے۔‘

ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’کسی کو روک کر اپنے آپ کو اونچا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ اپنا قد اونچا کرنے کے بجائے سامنے والے کی ٹانگیں کیوں کاٹنا چاہتے ہیں؟ آپ دفاعی پوزیشن میں کیوں آ جاتے ہیں؟ ہمیں اپنی کہانیوں کو متنوع بنانا ہو گا۔ ہم ارطغرل جیسا پراجیکٹ تو کر ہی نہیں سکتے لیکن ہم لنچ باکس، رین کوٹ، حیات اور بلیو امبریلا جیسی فلمیں تو بنا سکتے ہیں۔‘

آزاد حیثیت میں کام کرنے والے پروڈیوسر علی قاضی نے بتایا کہ وہ نیٹ فلکس پر ’ارطغرل‘ کا چوتھا سیزن دیکھ رہے ہیں۔

’ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہد سمجھتے ہیں کہ یہ ڈرامہ اس لیے چلایا گیا ہے کہ ہم یہاں خلافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک خوبصورت پراجیکٹ ہے۔‘

البتہ علی قاضی کے خیال میں ان ڈراموں کو پرائم ٹائم پر نشر نہیں کیا جانا چاہیے۔

کہانیوں میں تنوع کا فقدان

پاکستانی ڈرامے کی بیشتر کہانیاں ساس بہو کے جھگڑوں کے گرد گھومتی ہیں۔

ڈرامہ نگاروں سے لے کر ہدایت کار، پروڈیوسرز حتیٰ کہ پروڈکشن ہاؤسز بھی کہانیوں کی اس یکسانیت کا ذمہ دار چینلز کو ٹھراتے ہیں جو ان کے بقول ’ٹی آر پیز‘ کے چکر میں کسی نئی کہانی کو موقع دینے سے کتراتے ہیں۔

ٹی وی چینلز کا مؤقف ہے کہ ان کا ڈرامہ عورتیں دیکھتی ہیں اور وہ انھی کے لیے ڈرامہ بناتے ہیں۔

ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں ’کہانیوں پر کام کرنے کے لیے ڈرامہ نگار کو آزادی نہیں دی گئی۔ سکرپٹ سونگھ کے بتاتے ہیں کہ یہ چلے گا یا نہیں چلے گا۔‘

پروڈیوسر علی قاضی کے بقول ’ہماری انڈسٹری میں ایسے قابل لوگ موجود ہیں جو پیریڈ ڈرامے بنا سکتے ہیں لیکن فقدان چینل کی طرف سے ہے جو اس طرح کی کہانیوں پر یقین ہی نہیں کرتے۔‘

انڈسٹری میں سب متفق ہیں کہ ڈرامے کی کہانیوں کو گھروں سے باہر نکالنا ہو گا۔

ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ اور ’سنگِ مرمر‘ کے ہدایت کار سیفِ حسن کہتے ہیں کہ ’اچھے ڈرامے کا دارومدار اس کی کہانی پر ہوتا ہے اور کم بجٹ میں منفرد کہانیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے سٹار پلس کے ڈراموں کو شکست دی۔‘

لیکن ڈرامہ نگار ابو راشد کہتے ہیں کہ ’یہاں ایسا ڈرامہ لکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی اسے کون دیکھے گا؟‘

محدود بجٹ

پاکستان میں ڈرامے کے ماہرین کا خیال ہے کہ اچھی کہانی تخلیق بھی ہو جائیں تو انھیں بنانے میں بجٹ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

علی قاضی کہتے ہیں ’ہم ابھی بھی بہت سستا ڈرامہ بناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔ ہمارے پاس وہ بجٹ ہی نہیں کہ جو اتنے مہنگے پیریڈ ڈرامہ تیار کر سکیں۔‘

ابو راشد نے کہا ’ترکی کے ڈراموں کو 53 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اُن کے ڈرامے کی ایک قسط کی لاگت ڈیڑھ، پونے دو کروڑ ہے۔ آب آپ بتائیے، اتنے بجٹ میں پاکستان میں فلم بن جاتی ہے۔ تو آپ کیسے مقابلہ کریں گے؟ اگر آپ دو کروڑ کی ایک قسط بنا بھی لیتے ہیں تو اسے کہاں بیچیں گے؟‘

سیف حسن نے بتایا ’ترکی اور انڈیا کے ڈراموں کے بجٹ اور ہمارے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم محدود وسائل میں بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس میں اے پلس، اے اور بی کیٹیگری کے ڈرامے بھی بنتے ہیں۔‘

ایسا نہیں ہے کہ گذشتہ 10، 15 برسوں میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز نے تاریخی موضوعات اور شخصیات پر مبنی ڈرامے یا پیریڈ ڈرامے بنانے کی کوشش نہیں کی۔

ان میں ہم ٹی وی کے ڈرامے ’آنگن‘ اور ’داستان‘ جبکہ جیو انٹرٹینمینٹ سے نشر کیے جانے والے ڈرامے ’تان سین‘ اور ’مور محل‘ شامل ہیں جبکہ پاکستان میں ہی ’ماہ میر‘ اور ’منٹو‘ جیسی فلمیں بھی بنائی گئیں لیکن ان سب کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو ’دیریلش ارطغرل‘ کے حصے میں آئی۔

پاکستان میں غیر ملکی ڈراموں کی مقبولیت پر نینا کاشف کہتی ہیں ’ہماری خاندانی، ثقافتی اور مذہبی اقدار ترکی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں کوریا کے ڈرامے بھی بڑے مقبول ہیں لیکن پاکستان میں ایک آدھ چینلز نے جب انھیں نشر کیا تو وہ مقبول نہ ہو سکے۔‘

غیر ملکی مواد نشر کرنے پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ایسا مواد چینل کو سستا پڑتا ہے اور اس میں سرمایہ ڈوبنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔

نینا کہتی ہیں ’ٹی وی پر جانے والے ہر مواد میں رسک ہوتا ہے اور یہ ڈرامے سستے نہیں ہوتے۔ باہر سے منگوائے گئے ڈراموں کی بھی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑے سٹارز کے ساتھ مہنگا شوٹ کیا ہوا ہو تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘

سینسرشپ، ایک اہم مسئلہ

فلم اور ڈرامے کی کہانیوں میں تنوع اور بجٹ کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ریاستی قدغنوں کا ہے۔

کراچی میں پروڈکشن ہاؤس کی مالک سعدیہ جبار نے سوال کیا کہ ’اس بات پر زور ہے پاکستانی اور مسلم تاریخ سے متعلق کہانیوں پر مبنی ڈرامہ بنایا جائے لیکن انھیں چلانے کی اجازت کون دے گا؟‘

پاکستان

BBC
فلم اور ڈرامے کی کہانیوں میں تنوع اور بجٹ کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ریاستی قدغنوں کا ہے

انھوں نے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آج بھی اسے ریلیز کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ریاست ہی قدغنیں لگاتی ہے ایسی کہانیوں پر جو پاکستان کی تلخ حقیقتیں بیان کرتی ہیں۔‘

سعدیہ نے مزید کہا کہ فلم ’مالک‘ کو سنیما گھروں سے اتروا دیا گیا تھا۔ ’جب ہم اپنی کہانیاں دکھانے لگتے ہیں تو پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کو ٹھیس پہنچنے لگتی ہے۔‘

سیفِ حسن سینسر شپ کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کا مؤقف ہے کہ ’ٹی وی کے ذریعے ہم بغیر اجازت آپ کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اخلاقیات کا جہاں تک مسئلہ ہے تو سینسر شپ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر آپ کسی سیاسی آواز کو دبانے کےلیے قدغن لگاتے ہیں، تو وہ غلط ہے۔‘

ریاست سپورٹ کرے

فلم اور ڈرامے سے وابستہ ہر شخص کو شکایت ہے کہ پاکستان میں ان کی انڈسٹری نہیں ہے۔

سعدیہ جبار نے نوجوان پروڈیوسرز کو مواقع دینے سمیت حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’حکومت اسے ایک انڈسٹری کا درجہ دے تاکہ ٹیکس سے لے کر تکنیکی سہولیات تک ریاستی سپورٹ حاصل ہو اور پروڈیوسرز اور سرمایہ کاری کرنے والے بلاخوف کام کر سکیں۔‘

ہدایت کار احتشام الدین نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کر کے کہا کہ ’ڈرامہ منگوا کر یہاں دکھا دینے سے بات نہیں بنے گی۔ غیر ملکی تکنیکی ماہرین سے ہمارے لوگوں کی ٹریننگ بھی بہت ضروری ہے۔ تو اس حوالے سے سوچیے۔‘

انھوں نے فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کی ترقی کے لیے ایران اور ترکی سے ریاستی معاہدوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ’کسی اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جن ممالک سے بھی آپ کے اچھے تعلقات ہیں ان سے معاہدے کریں۔ وہاں سے لوگ آ کر ٹریننگ دیں، یہاں سے بھی لوگ جا سکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ ترکی کا ڈرامہ ’دیریلیش ارطغرل‘ ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن (ٹی آر ٹی) کی پیشکش ہے جو ترکی میں ریاست کی سرپرستی میں چلنے والا ادارہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp