رانا شفیق الرحمان – ایک مخلص اور معصوم دوست


رانا شفیق الرحمان سے میری پہلی ملاقات 2005 میں محترمہ فوزیہ تنویر کے توسط سے ہوئی۔ اس ملاقات سے لے کر گزشتہ ہفتے فون پر ہونے والی گفت گو تک 16 سال کے عرصے پر محیط رانا صاحب سے یہ تعلق خلوص اور بے غرضی کی بنیادوں پر قائم رہا۔ مجھے ان کی شخصیت میں ایک ایسا ہمدرد دوست میسر تھا جس سے میں ہر موضوع پر کھل کر بات کرسکتا تھا۔ ان کی باتوں میں موجود ذہانت، شگفتگی اور بے ساختگی محفلوں کا مرکز ہوتی تھیں۔ ہمارے ایک دوست ذیشان نوئیل کو ان کے کئی ایسے جملے اور باتیں انہی کے لہجے میں ازبر ہیں جن سے ہم اکثر محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رانا صاحب اپنی ان یادوں کے ساتھ ہم میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ بقول بلھے شاہ “بلھے شاہ اساں مرنا نا ہی گور پیا کوئی ہور”

رانا صاحب 3 اگست 1960 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق فیصل آباد کے دیہی علاقے کے ایک کسان گھرانے سے تھا۔ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج میں سب سے بڑے ہوتے گئے۔ رانا شفیق صاحب نے 1988 میں چارلس یونیورسٹی، پراگ سے زراعت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور واپس آکر کچھ عرصے کے بعد انہوں نے گرین سرکل آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد کسانوں کی تربیت اور ان کے حقوق کا تحفظ تھا۔ شناخت کے مخمصے سے آزاد انسانی برابری پر ان کے یقین کا اظہار کسی الفاظ کا محتاج نہیں تھا۔ عمدہ اجزائے ترکیبی کی حامل شخصیت ہونے کے ناطے لوگوں کا ان سے اٹوٹ تعلق قائم ہوجانا ایک فطری عمل تھا۔

رانا صاحب کے پاس انوکھے اور منفرد آئیڈیاز تھے جن پر مبنی انہوں نے کئی چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کئے اور ایسی مثالیں قائم کیں جن کو دیگر اداروں نے بعد میں بڑی سطح پر وسعت دی۔ ان میں ایک نمایاں پراجیکٹ اوکاڑہ میں بائیوگیس پراجیکٹ تھا جس میں زراعت کے منصوبےکے زریعے نہ صرف کسانوں کی غذائی اور معاشی ضروریات کو پورا کرنا ممکن تھا بلکہ اس کے ذریعے کسان اپنے گھروں کی ضرورت کے مطابق بجلی بھی پیدا کر سکتے تھے۔ اس منصوبے کے تحت انہوں نے سیڈ بنک بھی بنایا تھا جس میں انواع و اقسام کے بیجوں کو محفوظ کیا گیا تھا۔ ایک اور منصوبے کے ذریعے انہوں نے کچن گارڈننگ کو شہری علاقوں میں روشناس کروانے اور فروغ دینے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اس منصوبے کا مقصد زرعی ادویات سے پاک سبزیوں کی فراہمی اور مارکیٹوں میں قیمتوں کے عدم توازن کے اثرات سے صارفین کو تحفظ مہیا کرنا تھا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں انہوں نے مورینگا کے پودوں کے ادویاتی استعمال میں تحقیق اور فروغ کے لئے نہایت انتھک محنت سے کام کیا ۔ مورینگا کی کاشت سے لے کر ادویات کی تیاری اور مارکیٹ تک فراہمی کے تمام عوامل پر مبنی نظام کو عملی تشکیل دی تاکہ اس کو مستحکم بنیادوں پر جاری رکھا جا سکے۔

2011  میں رانا صاحب نے قائدِاعظم یونیورسٹی کے شعبہ زراعت سے مل کر بوٹینیکل گارڈن کا ماڈل بھی قائم کیا۔ مجھے امتیاز عالم صاحب کے ساتھ بوٹینیکل گارڈن جانے کا اتفاق ہوا تو رانا صاحب نے بڑے پرجوش طریقے سے اپنے ماڈل سے متعلق ہمیں آگاہ کیا۔ اس میں دل چسب بات یہ تھی کہ انہوں نے گارڈن میں موجود رستوں پر اپنے دوستوں کے نام آویزاں کئے ہوئے تھے۔ ان میں دو رستوں پر ان کی بیٹیوں کے نام تحریر تھے ‘سونی اور رابی’ جن میں ان کی جان تھی۔

سیاست ان کی گھٹی میں تھی اور وہ سیاست کے اس مفہوم پر پیروکار تھے جس سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت آج بھی نابلد ہے اور وہ تھا رائے عامہ ہموار کرکے لوگوں کی طاقت سے اپنے موقف کو حاصل کرنا۔ انہوں نے پاکستان کی سماجی تنظیموں کو منظم کرنے کے لئے تمام صوبوں اور مرکزی سطح کے نیٹ ورکس کو یکجا اور متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کسانوں کے مسائل اور حقوق کو اجاگر کرنے کئے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 2008 میں اس حوالے سے انہوں نے بھارت کی کسان تنظیموں سے رابطے قائم کئے اور پاکستانی کسانوں کے لئے بھارتی پنجاب کے دورے بھی منعقد کئے۔ ان دوروں سے کسانوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کے مواقع ملے اور زراعت کے شعبے میں تقابلی جائزہ سے اپنے حقوق پر مزید آگاہی بھی ہوئی۔ ان دوروں نے زراعت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے درمیان دوطرفہ امن کی ضرورت کا بھی احساس اجاگر کیا۔

آنے والے دنوں میں ان کے بہت سے چاہنے والے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کریں گے اور ہمیں ان کی کئی اور پوشیدہ صلاحیتوں اور کارناموں سے آگاہی ہوگی ۔ فی الوقت یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی میری خواہش ہے کہ کاش ان کا ہمیں چھوڑ جانا ایک خواب ہو اور میں آنکھ کھلتے ہی ان سے بات کر سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments