عظمیٰ خان ہوں یا ’کرنل کی بیوی‘، کیا وائرل ویڈیوز کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین پر زیادہ تنقید ہوتی ہے؟


سوشل میڈیا پر آئے روز نئی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں بعض اوقات خواتین اور ان کا رویہ موضوع بحث ہوتا ہے۔

اگر حالیہ واقعات کی مثال لے لیں تو عظمیٰ خان پر مبینہ تشدد کی ویڈیوز ہوں یا مانسہرہ موٹروے پر سکیورٹی اہلکار سے الجھنے والی ایک خاتون، کئی معاملات میں بظاہر یوں لگتا ہے کہ اگر ان تنازعات میں خواتین کی جگہ مرد ہوتے تو انھیں ایسی تنقید اور ٹرولنگ کا نشانہ نہ بنایا جاتا۔

اس سے پہلے بھی کئی ایسی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جن کے وائرل ہونے کے بعد ان خواتین کی خوب ٹرولنگ کی گئی۔ لیکن کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے کہ اکثر وائرل ویڈیوز کے ذریعے صرف خواتین اور ان کے رویے پر تنقید کی جاتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

کرنل کی اہلیہ کی وائرل ویڈیو: اہلکار سے بدتمیزی کا مقدمہ نامعلوم عورت کے خلاف درج

رِنگ روڈ پولیس ویڈیو: کیا پولیس یوں کسی کی ذاتی زندگی میں دخل دے سکتی ہے؟

فلیشنگ: ’مردوں کو تربیت اور علاج دونوں کی ضرورت‘

لڑکیوں کے ان باکس ’مردانہ فحاشی‘ کے نشانے پر

کیا ’خواتین والی ویڈیوز‘ زیادہ وائرل ہوتی ہیں؟

حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دکھائی نہ دینے والی ایک خاتون اداکارہ عظمیٰ خان سے 23مئی کو کسی عثمان نامی شخص کے ساتھ مبینہ جنسی تعلقات کے بارے میں سوال کرتی سنائی دیتی ہیں۔

اس ویڈیو کی بنیاد پر بعض صارفین نے عظمیٰ خان کی کردار کشی کی۔ لیکن بات محض اس ایک واقعے تک محدود نہیں۔

اس سے قبل پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں خود کو پاکستانی فوج کے افسر کی بیوی بتانے والی خاتون کی سی پیک فورس کے اہلکار سے بدتمیزی کا واقعہ پیش آیا جس کی ویڈیو زیر بحث رہی اور ان خاتون کے بارے میں کافی کچھ کہا گیا۔ بعد ازاں ’کرنل کی بیوی‘ کے نام سے مشہور ہونے والی اس خاتون کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔

اس سے قبل اسلام آباد میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں بنائی گئی ویڈیو میں ایک خاتون کو ٹریفک پولیس اہلکار سے الجھتے دیکھا گیا کیونکہ خاتون کے مطابق پولیس اہلکار نے ان سے پنجابی میں بات کی۔ اس واقعے کے بعد بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان خاتون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک خاتون بغیر نمبر پلیٹ کے ڈپلومیٹیک انکلیو میں داخل ہونا چاہتی تھیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے روکنے پر خاتون نے ان سے بد کلامی کی اور نوکری سے نکلوانے کی دھمکیاں بھی دی۔ اس ویڈیو پر بھی ملوث خاتون کی خوب ٹرولنگ کی گئی۔

ایسا ہی کچھ کراچی میں بھی ہوا جب ٹریفک وارڈن نے ایک خاتون کو اشارہ توڑنے پر روک لیا۔ اس خاتون کی ویڈیو بھی جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بہت سی میمز بنائی گئیں۔

ایسے میں کچھ مبصرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ویڈیوز خواتین کی موجودگی کی وجہ سے وائرل ہوئیں۔

قانونی کارروائی کے بجائے ویڈیوز کیوں بنائی جاتی ہیں؟

بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ خواتین کی ٹرولنگ اور ایسی ویڈیوز بنا کر وائرل کرنا ایک خطرناک رحجان ہے اور حکومتی اداروں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو قانونی طور پر موقع پر ہی حل کرنا چاہیے۔

اس بارے میں ماہر نفسيات ریحا آفتاب کہتی ہیں کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جہاں اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی عزت نفس مجروع ہوئی ہے تو وہاں وہ کوشش کرتا ہے کہ جس شخص نے ایسا کیا ہے اس سے جلد از جلد بدلا لیا جائے۔

وہ کہتی ہیں ’سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ یہی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کی ایسی ویڈیوز بنا کر جاری کریں جو زیادہ سے زیادہ وائرل ہوں جس کا سیاق و سباق بھی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ بيشتر لوگ بدلا لینے کے لیے قانونی کارروائی کے بجائے اس انسان کو سماج میں بے عزت کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ایسی ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں تو اس سے ان کی نفسیات کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو بتاتی ہے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہیں اور ایسا محسوس کرتے ہیں کہ سامنے والا شخص ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ جبکہ درحقیقت قانونی اعتبار سے ان کے پاس اختیارات غلطی کرنے والے سے زیادہ ہیں لیکن انھیں لگتا ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوگی۔

ایسے واقعات کسی شخص کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟

ماہر نفسایات ریحا آفتاب کا کہنا ہے کہ جب کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے تو پھر انسان لوگوں کے لیے ایک چیز بن جاتا ہے۔

’ہر شخص سوشل میڈیا پر اپنی ذہنیت، زبان اور مرضی کے مطابق بات کرتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے ہر قسم کا شخص استعمال کرتا ہے۔ اس لیے وہاں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کمنٹ کرتے ہوئے تمیز اور تہذیب سب بھول جاتے ہیں۔‘

فلیشنگ

(فائل فوٹو)

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی ویڈیوز زیادہ وائرل کی جاتی ہیں جبکہ مردوں کی جب کوئی ایسی ویڈیو سامنے آتی ہے تو وہ زیادہ تر کسی طاقتور مرد کی ہوتی ہے جو اپنے عہدے یا پیسے کی وجہ سے ایک مخصوص انداز میں بات کرے گا۔

’آپ دیکھیں گے کہ عورت کی ویڈیوز پر ہر قسم کے کمنٹ بھی کیے جاتے ہیں اور ہر طرح کی میمز بھی بنائی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو ویسے بھی کمزور تصور کیا جاتا ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش آنے کے بعد عموماً ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا کہ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس سے اس عورت کی زندگی مزید مشکل بن جاتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ایک عورت جسے زیادہ لوگ نہ جانتے ہوں اور اس کے بعد پورے ملک میں اس کی ویڈیو چل رہی ہو تو اس سے اس کی ذاتی زندگی پر بھی بہت گہرا اثر پرتا ہے۔

’آپ کی عزت خراب ہوتی ہے۔ آپ کی فیملی، جس میں بچے بھی شامل ہیں ان پر برا اثر پڑتا ہے۔ تو ہر جگہ پر وہ بندہ صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کے بعد باہر کے لوگوں کے علاوہ گھر والے بھی آپ کو ڈانٹیں گے اور آپ پر غصہ کریں گے کہ اگلا شخص اپنی صفائی میں بول بھی نہیں سکے گا۔‘

‘اس سے نفسیاتی طور پر بھی بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ جیسا کہ سوتے ہوئے برے خواب آ سکتے ہیں، وہ واقعہ آپ کو ہر وقت تنگ کر سکتا ہے، انسان ڈرا ڈرا رہتا ہے، لوگوں سے ملنا اورگھر سے نکلنا چھوڑ دیتا ہے تو یہ وہ تمام اثرات ہیں جو اس شخص کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔‘

’لوگ اپنی مرضی کے مطابق ویڈیوز بنا لیتے ہیں‘

پنجاب سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ایم پی اے عظمی کاردار کی ایک چار سال پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔

اس ویڈیو میں وہ گاڑی سے اترتی ہیں اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد رکاوٹین ہٹا کر آگے جانا چاہتی ہیں۔

اس پر بات کرتے ہوئے عظمیٰ کاردار کہتی ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ ’میری یہ ویڈیو ہر چھ ماہ بعد وائرل کی جاتی ہے۔ یہ عمران خان کی کال پر بنی گالہ پہنچنے کی ویڈیو ہے۔‘

’اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے یا آپ کی بات تسلی سے نہ سنے تو لازمی آپ اپنی آواز اونچی کر کے اپنا مؤقف بیان کر سکتے ہیں۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق ویڈیوز بنا لیتے ہیں اور غلط معلومات کے ساتھ اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں تو ایک سیاسی خاتون ہوں اور یہ سب معاملات سنبھال لیتی ہوں اور ایسی ویڈیوز سے ہماری مشہوری ہو جاتی ہے۔ لیکن جو ایک عام عورت ہے اس پر کیا گزرتی ہے یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا۔۔۔ کسی کی رازداری کی خلاف ورزی کرنے پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔‘

کیا خواتین کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کرنا آسان ہے؟

خواتین کے حقوق کی کارکن اور لمز یونی ورسٹی میں پروفیسر ندا کرمانی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی یا اہلکاروں سے ساتھ بدکلامی کی بالکل بھی حمایت نہیں کرتیں کیونکہ یہ غلط ہے۔

تاہم ان کے مطابق ایسے واقعات کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر خواتین تنقید اور ٹرولنگ کے لیے ایک آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

‘اگر دیکھا جائے تو آئے روز ہم ایسے واقعات سڑکوں پر دیکھتے ہیں جن میں مرد ایسے ہی ٹریفک اہلکاروں سے بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے کبھی ان کی ایسی ویڈیوز تو وائرل ہوتے نہیں دیکھی ہیں۔ ہمیشہ عورت کی ہی کیوں ویڈیو بنا کر وائرل کی جاتی ہے۔’

حالیہ ویڈیو کے بارے میں بات کرتے ہوئے ندا کرمانی نے کہا کہ اس معاملے میں جنس پرستی کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘اس کیس میں بھی میں بہت سے لوگوں کی ٹویٹس دیکھیں جس میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کرنل صاحب پر ترس آ رہا ہے۔‘

’ایسے کمنٹس صاف ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کسی عورت کی غلطی کے بارے میں بات کرنے کے بجائے اس کی جنس کو پہلے نشانہ بناتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp