خاندانی لوگ اور انسانی محبت


سردیوں کی ایک یخ بستہ شام میں اور میرا بیٹا حسن اپنے فلیٹ کے فرنٹ روم میں ہیٹر کے آگے بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ بابا جان۔ میری ایک دوست اور کلاس فیلو آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ بیٹے نے کہا۔ کیوں کوئی خاص بات ہے، میں نے پوچھا۔ باباجانی، کوئی خاص بات نہیں، بس اس نے تین چار دفعہ آپ سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ خیر رہنے دیں اگر آپ مصروف ہیں تو کوئی بات نہیں پھر کبھی سہی۔ میں نے سوچا ضرور کوئی خاص بات ہے ورنہ حسن کبھی اتنا اصرار نہیں کرتا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اس سے پوچھا۔ بیٹا وہ کون ہے، کہاں رہتی ہے۔ پاپا جان وہ میرے ساتھ پڑھتی ہے۔ پاکستانی ہے۔ اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔ حسن نے جواب دیا۔ تو پھر بیٹا پرسوں میں فارغ ہوں، آپ اسے سہ پہر چائے پر بلا لو۔ میں نے اسے کہا۔

ان دنوں میں برمنگھم کے مشہور ہسپتال میں سینئر کارڈیو ویسکولر سرجن تھا۔ حسن میڈیکل کے تیسرے سال میں تھا۔ ہم دونوں برمنگھم کے پوش علاقے سولی ہل میں واقع اپنے فلیٹ میں رہ رہے تھے۔ دوسرے دن میڈیکل کالج سے واپسی پر حسن اسے اپنے ساتھ لے آیا۔ میری اس دن چھٹی تھی۔ وہ گڑیا سی نازک اورپیاری لڑکی کسی طرح بھی میڈیکل کی تھرڈ ایئرکی طالبہ نہیں لگ رہی تھی۔ شفق نام تھا اس کا۔ میں بڑی شفقت سے اسے ملا۔ فرنٹ روم میں بٹھایا۔

دونوں سے کہا، آپ باتیں کریں میں چائے بناتا ہوں۔ نہیں انکل آپ بیٹھیں۔ میں چائے بناتی ہوں، اس نے کہا۔ بیٹا آپ مہمان ہو اور یقین کرو میں بہت اچھی چائے بناتا ہوں۔ میں چائے بنا کرلایا اور ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ انکل۔ حسن آپ کا ہر وقت اتنا ذکر کرتے ہیں کہ مجھے آپ سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا۔ لیکن انکل آپ تو ہو ہی اتنے اچھے۔ اسی لئے حسن آپ کی اتنی تعریفیں کرتا ہے۔ وہ میرے پاس بیٹھی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہی۔

اس نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی اور اماں کے ساتھ نزدیکی ٹاؤن ڈڈلی میں رہتی ہے، والد کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا ہے۔ اماں ہاؤس وائف جبکہ بھائی کمپیوٹر انجنیئر ہے جوایک فرم میں اچھے عہدے پر کام کر رہا ہے۔ انکل کبھی ہمارے گھر آئیں نا، اس نے دعوت دی۔ بیٹے، انشا ء اللہ ضرور آئیں گے۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ حسن سے کہا کہ اسے گھر ڈراپ کر آؤ۔

رات کو میں نے حسن سے پوچھا، بیٹا۔ آپ شفق میں کس حد تک دلچسپی رکھتے ہو۔ باباجان، ابھی تو ہم صرف اچھے دوست ہیں اور وہ مجھے اپھی لگتی ہے۔ لیکن باباجان، میں کوئی بھی فیصلہ آپ کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا اور نہ ہی کروں گا۔ بیٹے آپ کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہو اور میں آپ کے کسی بھی فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوں گا۔ میں نے کہا۔ وہ میرے گلے لگ کر رو دیا۔ بابا جانی، میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں، بیٹے میں نے اسے بھینچ لیا۔

وہ اس دن میرے ساتھ ہی سو گیا۔ حسن میری اکلوتی بہن کا بیٹا ہے۔ جب یہ چھوٹا سا تھا تو میری بہن اور اس کے میاں کا پاکستان میں کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا اور وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ میں اسے اڈاپٹ کر کے برطانیہ لے آیا تھا۔ حسن کو اس بات کا پتہ نہیں تھا وہ مجھے ہی اپنا باپ سمجھتا تھا۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ اس کی ماں کا انتقال ہو گیا ہوا ہے۔ وہ مجھے ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔

اس کے دو ہفتوں بعد حسن نے بتایا۔ باباجان، شفق کے گھر والوں نے ہمیں ڈنر پر بلایا ہے۔ ڈنر پر ہم ان کے گھر پہنچے۔ شفق بہت خوش ہوئی۔ اس کا بھائی مجھے کچھ کچھ چوہدری ٹائپ کا آدمی لگا۔ اس کی امی جب فرنٹ روم میں آئیں تو مجھے ایک دم ایک جھٹکا سا لگا۔ میں پہلی نظر میں ہی زینب کو پہچان گیا تھا۔ وہ بھی میرا چہرا دیکھ کر ایک دم رک گئی تھی شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا۔ سلام دعا کے بعد وہ اٹھ کر کچن میں گئیں۔ حسن اور شفق کا بھائی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھیے اپنی آنکھیں بند کیں تو میرے یادوں کے دریچے میں ماضی کی بہت سی یادیں در آئیں۔

میں۔ میری بڑی بہن اور والدین، چار افراد پر مشتمل ہمارا چھوٹا سا گھرانا تھا۔ ہم گوجرانوالہ کے دور دراز دیہات میں رہتے تھے۔ میرے والد گاؤں کی مسجد کے پیش امام تھے۔ والدہ بھی گاؤں کے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں۔ میں جب تھوڑا بڑا ہوا تو والد صاحب نے پڑھنے کے لئے مجھے ماموں کے پاس شہر بھیج دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ میں شہر میں ماموں کے پاس ہی رہتا اور کبھی کبھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا تھا۔

میں نے ایف ایس سی میں اپنے ضلع میں ٹاپ کیا تھا۔ اس خوشی میں میری والدہ نے سارے گاؤں میں گڑ تقسیم کیا تھا۔ نشترمیڈیکل کالج ملتان میں میرا ایڈمشن میرٹ پر ہوا۔ یہ ہمارے شہر سے بہت دور تھا۔ والد صاحب بڑی مشکل سے میرا کالج خرچہ پورا کرپاتے تھے۔ میں نے ایک دو ٹیوشن رکھ لیں تا کو ابا جان کا بوجھ کچھ کم کر سکوں۔ کالج میں صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا تھا۔ میں سنجیدگی سے پڑھنے اور نوٹس بنانے کا عادی تھا۔ اکثر میرے ہم جماعت ان سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔

کالج میں میری صرف اشفاق سے دوستی تھی وہ میرے مزاج کو سمجھتا تھا اور میں اس کے۔ حالانکہ وہ ایک بڑے سرکاری افسر کا بیٹا تھا۔ پہلے پراف کا رزلٹ آیا تو میری پہلی پوزیشن تھی۔ انہی دنوں میں ایک دن کلاس ختم ہونے کے بعد ہماری کلاس کی دو لڑکیاں میرے پاس آئیں۔ اپنا تعارف کروایا۔ مجھے رزلٹ پر مبارک باد دی اور ساتھ ہی اپنے نوٹس انھیں دینے کی درخواست کی۔ میں نے دوسرے دن نوٹس دینے کا وعدہ کیا۔ زینب تھوڑی سی تیز تھی جب کہ عائشہ خاموش طبع تھی۔

میں عموماً اپنی حثیت کے اند ر ہی رہتا تھا اور اشفاق کے علاوہ کسی سے زیادہ میل جھول نہیں رکھتا تھا۔ ویسے بھی میں شرمیلی طبیعت کا مالک تھا۔ دوسرے دن میں نے انھیں نوٹس لا کر دیدئے۔ اس کے بعد میری زینب اور عائشہ سے اکثر ملاقات ہونے لگی۔ میری دلچسپی صرف نوٹس لینے دینے کی حدتک ہی تھی۔ ایک دن یوں ہی بیٹھے بیٹھے اپنے آبائی علاقوں کا ذکر چھڑا تو پتہ چلا کہ زینب ہمارے گاؤں کے چوہدری حاکم کی بیٹی ہے اور میری طرح وہ بھی اپنے ماموں کے پاس شہر میں رہ کر پڑھتی رہی ہے۔

میں نے اسے اپنا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی کہ ہم دونوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ اس کے بعد ہماری پکی دوستی ہو گئی۔ ہم نوٹس کے بہانے اکثر ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ پھر پتہ ہی نہیں کب یہ ملاقاتیں چاہت میں بدل گئیں۔ اب اکثر کلاس میں۔ کالج میں۔ کینٹین اور دوسری بہت سی جگہوں پرہم اکٹھے نظر آنے لگے۔ عائشہ، زینب کی ایک رازدار سہیلی اور کلاس فیلو تھی۔ اب کی بار چھٹیوں میں، میں اپنے گاؤں گیا تو میں نے اماں سے کہا کہ اگر آپ چوہدری حاکم سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگیں تو کیا وہ دے دیں گے۔

یہ بات سن کر ا ماں کی تو اک دم سٹی گم ہو گئی۔ فوراً کہا پتر ایک دفعہ تو یہ بات میرے سامنے کہہ دی ہے، دوبارہ کبھی مت کرنا۔ تم ان کو جانتے نہیں ہو۔ ان کو تو پہلے ہی تمہارا ڈاکٹر بننا بہت برا لگ رہا ہے۔ اور بیٹا دیکھ میں تمہار ے سا منے ہاتھ جوڑتی ہوں، دوبارہ یہ بات منہ سے نہ نکالنا۔ بیٹا، ہم بڑے غریب لوگ ہیں۔ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ماں کی نصیحت سن کر میں چپ ہو گیا۔ لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ زینب بھی چھٹیوں پر گاؤں آئی ہوئی تھی۔

اس نے اپنی ماں سے میرے ساتھ اپنی شادی کی بات کی اور پھر بھونچال آ گیا۔ میری جان لینے کی کوشش ناکام ہوئی تو ابا جان کو حویلی بلا کر بے عزتی کی گئی۔ ان کو گاؤں سے نکال دیا گیا۔ امی یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکیں اور اللہ میاں کے پاس چلی گئیں۔ شکر ہے بہن کی شادی اس سے پہلے ہو گئی تھی اور وہ شہر میں رہتی تھیں۔ وہ ابو کو اپنے ساتھ لے گئیں۔ وہ امی کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور ایک سال کے اندر ہی ان سے جا ملے۔ ہمارا تیسرے پراف کا رزلٹ ابھی آیا تھا جس میں میری حسب معمول پہلی پوزیشن تھی۔ کالج کھل گئے لیکن زینب واپس نہیں آئی۔ عائشہ کی زبانی پتہ چلا کو اس کی شادی طے ہو گئی ہے۔ زبردستی شادی سے اس کی ڈاکٹری ادھوری رہ گئی تھی۔

میں ان پے در پے صدموں کو برداشت نہ کر سکا اور چوتھے پراف میں فیل ہو گیا۔ سب لوگ حیران تھے کہ پہلے تین پراف میں ٹاپ کرنے والا چوتھے پراف میں فیل کیسے ہو گیا۔ صرف میرے دوست اشفاق اور عائشہ کو میرے فیل ہونے کی وجوہات کا علم تھا۔ اشفاق نے ہمارے انچارج پروفیسر صاحب سے بات کی۔ پروفیسر صاحب اور اشفاق نے میری کونسلنگ کی اور مجھے بہت سہارا دیا جس کی وجہ سے نہ صرف میں نے یہ پراف سپلی میں پاس کیا بلکہ فائنل پراف میں پھر میری پہلی پوزیشن تھی۔

ہاؤس جاب مکمل کر کے میں جیسے ہی فارغ ہوا۔ اشفاق نے اپنے ساتھ ساتھ میرے لئے بھی انگلینڈ میں داخلے کا بندوبست کرا کر دوستی کا حق ادا کر دیا۔ اشفاق کے والد ایک بہت بڑے سرکاری افسر تھے۔ پھر میں مستقل انگلینڈ میں ہی رہ گیا۔ بہن اور بہنوئی کے کار ایکسیڈنٹ میں انتقال پر ایک دفعہ پاکستان گیا اور حسن کو ضروری کارروائی کر کے میں اپنے ساتھ لے آیا اور اس کے بعد کبھی پاکستان نہیں گیا۔ یہاں میری توجہ کا مرکز صرف حسن اور میرا پروفیشن تھا۔ زینب کے بعد مجھے کبھی شادی کا خیال نہیں آیا اور نہ ہی ضرورت پڑی۔ اب آج زینب کو دیکھ کر سارا ماضی ایک دم نگاہوں میں گھوم گیا تھا۔

ڈنر پر کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ مجھے بجھا بجھا دیکھ کر حسن کو بھی احساس ہو رہا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔ لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔ اگلے دو تین ہم دونوں ہی بہت مصروف رہے۔ ہفتے کی شام کو ہم دونوں ڈنر پر بیٹھے تھے۔ میں نے حسن سے پوچھا کہ وہ شفق سے شادی میں کتنا سنجیدہ ہے تو وہ بولا بابا جان اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو کوئی بات نہیں آپ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہو گا۔ مجھے اس کی پسند کا اندازہ ہو گیا تھا۔

میں نے اسے کہا کہ کل ہم ان کے گھر شفق کا رشتہ مانگنے جا رہے ہیں۔ میری یہ بات سن کر اس کا چہرا کھل اٹھا۔ تم شفق کو بتا دو۔ اگلے ہی دن ہم ان کے گھر بیٹھے تھے۔ میں نے اپنے ابا جی کے حوالے سے اپنا تعارف کروایا اور شفق کے رشتے کی بات کی۔ میری بات سن کر زینب کے بیٹے کے اندر کاچوہدری جاگ گیا۔ رشتے کی بات سن کر اس نے کہا۔ اب ہم اتنے بھی گئے کزرے نہیں کہ اپنی بہن کمی کمینوں کو دے دیں۔ آپ مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیں۔

میں نے اسے کہا، بیٹے دیکھو۔ ہم سب مسلمان ہیں، اب قدریں بدل گئی ہیں۔ آپ ایک بہت ایڈوانس معاشرے میں رہ رہے ہو جو ذات پات سے مبرا ہے۔ نہیں جناب، پیشتر اس کے کہ میں آپ سے کوئی گستاخی کروں آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اس نے سختی سے جواب دیا۔ یہ بات سن کر حسن نے مجھے اشارہ کیا، بابا اٹھیں ہم چلتے ہیں۔ میں نے شفق کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں ہمارے آنے سے دیپ جو جل اٹھے تھے ان کی روشنی ماند پڑ گئی تھی۔ میں اٹھا اور ہم چلنے لگے تو زینب کی آواز گونجی۔

عالمگیر صاحب، رکیے۔ آپ بیٹھئے۔ جو ظلم میرے ساتھ ہوا وہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں ہونے دوں گی۔ بیٹے سے روتے ہوئے کہا میں تمہارے والد اور تم بھائی بہن کو انگلینڈ اس لئے لے کر آئی تھی تا کہ تم کچھ بدل سکو اور جو ظلم میں نے سہے ہیں، تم دونوں اس کے شکار نہ ہو سکو۔ کیونکہ پاکستان میں یہ ممکن نہیں تھا۔ اس لئے میں آپ کو یہاں لے آئی تھی۔ لیکن افسوس تم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عالمگیر صاحب۔ شفق آج سے آپ کی بیٹی ہے آپ جب چاہیں اسے بیاہ کرلے جائیں۔ میں نے کہا۔ میں چاہتا ہوں دونوں پہلے اپنی تعلیم مکمل کر لیں۔ اور خوشی سے شفق اور حسن کو گلے لگا لیا۔ شفق اب میری بہو ہے۔ میں نے یا زینب نے اپنی وابستگی کا قصہ کبھی نہیں چھیڑا۔

نوٹ۔ یہ ایک سچی داستان ہے جو چند سال پہلے میرے انگلینڈ قیام کے دوران میری بیٹی کے پڑوس میں رہنے والے ڈاکٹر صاحب نے سنائی جن سے میری دوستی ہو گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments