رچرڈ بیوک اور شعور کا ارتقا


RICHARD BUCKEکا شمار بیسویں صدی کے صف اول کے ماہرین نفسیات و روحانیات ’فلسفیوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ انہیں اپنی درویشانہ شخصیت کی وجہ سے اتنی بین الاقوامی شہرت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔

رچرڈ بیوک 1837 میں انگلستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد HORATIO BUCKE پادری تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ انگلستان سے کینیڈا ہجرت کی اور لندن اونٹاریو میں سکونت اختیار کی۔

رچرڈ بیوک نے پہلے اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کیا اور پھر سکول کی تعلیم حاصل کی۔ رچرڈ بیوک کو نوجوانی میں سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ وہ سولہ برس کی عمر میں امریکہ کے مختلف شہروں کی سیر کو چل دیے۔ رچرڈ بیوک خطرات کا سامنا کرنے سے بالکل نہ گھبراتے تھے۔ 1857 میں انہوں نے امریکہ کے ایک پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی کوشش کی لیکن برف کے طوفان میں گھر گئے جس سے ان کے پاؤں شل ہو گئے۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹر کو ان کے ایک پاؤں کو آپریشن کر کے کاٹنا پڑا۔ 1858 میں وہ واپس کینیڈا آئے۔

کینیڈا واپس آ کر انہوں نے مونٹریال کی میکگل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ پہلے انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر نفسیات میں تخصص حاصل کر کے ایک ماہر نفسیات بن گئے۔ 1877 میں وہ لندن کینیڈا کے نفسیاتی امراض کے ہسپتال کے انچارج بن گئے اور آخری عمر تک ذہنی مریضوں کا علاج اور خدمت کرتے رہے۔

رچرڈ بیوک کو نفسیاتی علاج کے ساتھ ساتھ تحقیق کرنے اور اپنی تحقیق کے حوالے سے مقالے اور کتابیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ پہلے انہوں نے نفسیاتی مسائل پر مقالے لکھے لیکن پھر ان کی دلچسپی روحانی مسائل میں بڑھ گئی۔ اس کی ایک وجہ ان کا ایک خاص نفسیاتی تجربہ تھا۔

1872 کی ایک شام رچرڈ بیوک اپنی بگھی میں سوار اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے جب انہیں ایک روحانی تجربہ ہوا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ انہیں پہلے تو یہ محسوس ہوا جیسے انہیں آتشیں بادلوں نے گھیر لیا ہے اور ان کے چاروں طرف آگ ہو لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ وہ باہر کی آگ نہیں تھی وہ ان کے اندر کی روشنی تھی۔

اس تجربے کا ساتھ انہیں مسرت کا احساس بھی ہوا جسے انہوں نے اپنے لیے ایک یزدانی تحفہ سمجھا۔ اس تجربے سے ان کے جسم ’دل اور ذہن کو ایک سکون‘ آشتی اور طمانیت کا احساس ہوا۔ اس تجربے سے ان کا من روشنی اور دل محبت سے بھر گیا۔

رچرڈ بیوک نے لکھا کہ چند لمحوں کے روحانی تجربے سے وہ اتنا کچھ جان گئے جو وہ برسوں کے کتابوں کے مطالعے سے نہ سیکھ سکے۔ اس تجربے کے بعد نہ انہیں موت کا ڈر رہا نہ بیماری کا خوف اور ان کے دل سے ہر قسم کا احساس گناہ جاتا رہا۔

رچرڈ بیوک اپنے اس روحانی تجربے کے بارے میں کافی عرصے تک خاموش رہے۔ نہ کچھ کہا نہ ہی کچھ لکھا لیکن اس تجربے کے بعد ان کی دلچسپی روحانی تجربات میں بڑھ گئی۔ چونکہ وہ سائنس اور نفسیات کے طالب علم بھی تھے چنانچہ انہوں نے روحانیات کی نفسیات پر تحقیق کی اور مشرق و مغرب کے مختلف مکاتب فکر کا مطالعہ کیا۔

برسوں کی تحقیق اور ریاضت کے بعد انہوں نے 1901 میں اپنی معراکتہ الآرا کتابCOSMIC CONSCIOUSNESSلکھی جس نے انہیں بیسویں صدی کے نامور دانشوروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے روحانی تجربات کے بارے میں ماہرین کی رائے بھی رقم کی اور اپنے تجربات اور مشاہدات بھی پیش کیے۔

رچرڈ بیوک کے نظریے کے مطابق کرہ ارض پر شعور کے ارتقا کی تین منزلیں ہیں۔
پہلی منزل سادہ شعور و اگہی ہے جسے وہ SIMPLE CONSCIOUSNESS کا نام دیتے ہیں۔ یہ وہ شعور ہے جو جانوروں اور پرندوں میں پایا جاتا ہے۔
دوسری منزل خود آگہی اور شعور ہے جسے رچرڈ بیوک SELF CONSCIOUSNESS کہتے ہیں۔ جانور جانتے ہیں اور انسان جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں۔
تیسری منزل آفاقی شعور ہے جسے وہ COSMIC CONSCIOUSNESS پکارتے ہیں۔ یہ خود آگہی سے آگے کی منزل ہے جو انسانی تاریخ میں صرف چنیدہ چنیدہ لوگوں کو حاصل ہوئی۔ اس شعور سے انسان کائنات اور انسانی رشتوں کے بہت سے راز جان لیتا ہے۔

رچرڈ بیوک کا خیال ہے کہ جانوروں کی آگہی سے انسانوں کی خود آگہی میں کئی صدیاں لگیں پہلے صرف چند انسانوں کو خود آگہی حاصل ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ چاروں طرف پھیل گئی۔ اب کرہ ارض پرسات ارب انسان ہیں۔

رچرڈ بیوک کی پیشین گوئی ہے کہ جس طرح جانوروں کی آگہی سے آگے جا کر انسانوں نے خود آگہی حاصل کی اسی طرح اب دھیرے دھیرے انسان آفاقی شعور حاصل کریں گے اور ایسا شعور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔

رچرڈ بیوک نے اپنے تجربے مشاہدے اور مطالعے سے ہمیں بتایا کہ جب انسان آفاقی شعور کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو وہ روایتی مذہب کی اقدار کو پیچھے چھوڑ کر روحانی اقدار کو گلے لگاتے ہیں اور پھر ایک قدم اور آگے بڑھ کر روحانی اقدار کو چھوڑ کر انسانی اقدار سے گلے ملتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب وہ اپنے خاندان اور اپنی قوم کے مفادات سے بھی آگے نکل جاتے ہیں اور پوری انسانیت کو اپنا خاندان اپنا کنبہ اور اپنا قبیلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انسان دوست بن جاتے ہیں۔

رچرڈ بیوک کو نفسیات اور روحانیات کے ساتھ ساتھ ادب موسیقی اور شاعری کا بھی بڑا شوق تھا۔ وہ امریکی انسان دوست شاعر والٹ وٹمین اور ان کی شاعری کے مجموعے LEAVES OF GRASS سے بہت مرعوب تھے۔ ان کی والٹ وٹمین سے دوستی بھی تھی۔

رچرڈ بیوک نے اپنی کتاب میں انسانی تاریخ کے جن عظیم انسانوں کا ذکر کیا ہے جو آفاقی شعور رکھتے تھے ان میں سب سے پہلے بدھا اور سب سے آخری والٹ وٹمین تھے۔

رچرڈ بیوک اپنی معرکتہ الآرا کتاب چھپنے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ 1902 میں ان کا برف پر پاؤں پھسلا اور وہ جلد ہی فوت ہو گئے۔

رچرڈ بیوک کے نظریات نے بیسویں صدی کے بہت سے ماہرین نفسیات ’ماہرین روحانیات اور فلسفیوں کو متاثر کیا۔ ان کے مداحوں کی فہرست میں OUSPENSKY، ALDOUS HUXLEY، WILLIAM JAMES، ERIC FROMM جیسے دانشور شامل ہیں۔

بیسویں صدی کی نفسیات اور روحانیات کی تاریخ رچرڈ بیوک اور ان کی کتاب آفاقی شعور کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوگی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments