طیارہ حادثے میں شہید ہونے والا سید دانش اور اس کے دوست


سید دانش جیسے ہنس مکھ، خوبرو، خوش شکل، خوش اخلاق اور خوش گفتار نوجوان کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، روح تڑپ اٹھتی ہے اور دل گھائل ہو جاتا ہے۔ دانش بلا شبہ ان نوجوانوں میں سے تھا جو پہلی ملاقات میں ہی دل میں اتر جاتے ہیں۔ سرخ و سفید رنگ، گلابی ہونٹ، گہری نیلی آنکھیں جن میں اپنائیت جھلکتی تھی، ملائم، چمکیلے سنہری ریشمی بال اور داڑھی، روشن اور کشادہ پیشانی، موتیوں جیسے چمکتے دانت، عنابی رخسار اور شگفتہ چہرہ جس پر ہر وقت مسکراہٹ کے کئی رنگ بہار دکھلاتے رہتے۔

جب پتلون شرٹ اور جوگر پہن کر نکلتا تو کلاسیک اردو ہندی فلموں کا کوئی سدا بہار ہیرو لگتا تھا۔ میں کیسے لکھوں کہ اس جوان رعنا کو کل ہم نے اپنے ہاتھوں منوں مٹی تلے دفنایا۔ جو نوجوان اپنے لباس پر معمولی داغ نہیں لگنے دیتا تھا وہ پل بھر میں جل بھن کر کوئلہ بن گیا تھا۔ اس کے حرماں نصیب بھائی سید تیمور نے، جو اس کا دوست بھی تھا، اس کی سوختہ لاش کو جوگرز اور پتلون کے پائنچے سے پہچانا۔ اس حادثۂ جانکاہ میں شہید ہونے والے دانش کے جگری دوست راجہ آصف اور ملک ذیشان کی جلی ہوئی لاشیں بھی اس کے دائیں بائیں تھیں۔ تینوں دوست زندگی کے ہر سفر میں ایک ساتھ ہوتے، آج موت کے سفر پر بھی اکٹھے روانہ ہوئے۔ تیس بتیس سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے مرنے کی۔ وہ بھی عید کے موقعے پر۔ بدترین فضائی حادثے میں؟

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

یہ تینوں دوست جمعے کو گاڑی لینے راولپنڈی سے لاہور پہنچے تھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ وہ گاڑی نہیں موت خریدنے جا رہے ہیں اور جہاز کی پرواز کے دو گھنٹے کے اندر ہی ان کی ارواح بھی پرواز کر جائیں گی؟ لاہور پہنچ کر ڈیلر نے بتایا کہ گاڑی تو عید کے بعد کراچی سے لاہور پہنچے گی اور ہم اسے راولپنڈی پہنچا دیں گے۔ مگر انہیں تو گاڑی عید سے قبل چاہیے تھی۔ بات گاڑی کی نہیں تھی انہیں تو موت اپنے متعین مقام و وقت کی طرف کھینچ رہی تھی۔

تمام نشستیں بک ہونے کے باوجود ڈیلر نے جیسے تیسے ان کے لیے نشستوں کا اہتمام کر ہی دیا اور وہ تینوں موت کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فضائی میزبان مدیحہ ارم کو فضائی کمپنی کی گاڑی بر وقت نہ لے سکی اور اس کی جگہ فضائی میزبان انعم کو فرائض کی ادائیگی کے لیے بد قسمت طیارے میں جانا پڑا جو چند لمحوں کے بعد باقی مسافروں کی طرح راکھ کی ڈھیری میں بد ل چکی تھی۔ موت نے بینکار زین پولانی، ان کی اہلیہ اور تین بچوں کو بھی کسی غیر مرئی طاقت کے سہارے اپنی طرف کھنچا تھا۔ زین پولانی والی نشست ممتاز سماجی کارکن محمد مصطفٰے احمد نے بک کروائی تھی تاہم پی آئی اے کے خود کار سسٹم میں خرابی کی بنا پر وہ ٹکٹ کی ادائیگی نہ کر سکے اور بعد ازاں اس نشست پر زین پولانی اور ملحقہ نشستوں پر ان کی اہلیہ اور بچوں نے سفر کیا جو دو گھنٹے بعد جل کر خاکستر ہو چکے تھے۔

دانش اور اس کے دوستوں کی سوختہ لاشیں پنڈی پہنچیں تو قیامت کا سماں تھا۔ دانش کی تین بہنیں تابوت کے ساتھ لپٹ گئیں۔ وہ اپنے بھائی کا آخری دیدار کرنا چاہتی تھیں مگر تابوت بند تھا۔ دانش اپنی بہنوں پر جان چھڑکتا تھا۔ آٹھ اپریل کو جب میری چھوٹی بھابی اور بھائی کو اللہ تعالٰی نے نو سال بعد بیٹی کی نعمت سے سرفراز کیا تو دانش بھی ہسپتال میں موجود تھا۔ اس روز وہ بہت خوش تھا۔ ادھر ادھر بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ اس کے بعد میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ بھابی نے بتایا کہ حادثے سے ایک دن پہلے اس نے ویڈیو کال کی۔ دیر تک باتیں کرتا رہا۔ نومولود کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور عید کے بعد کشمیر آکر سب سے ملنے کا وعدہ کیا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بھابی کو بمشکل ہم نے چاند رات کو پنڈی پہنچایا۔ انہیں غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ وہ دانش کے بچپن کے دن یاد کر کے بین کرتیں تو کلیجہ منہ کو آجاتا۔

وہ اس وقت کو یاد کرتیں جب دانش محض ایک سال کا تھا تو ان کی امی چل بسی تھیں۔ اس وقت بھابی خود بھی چھ سات سال کی بچی تھی۔ ماں کے رخصت ہونے کے وقت بعد شیر خوار دانش بہت تنگ کرتا سو اسے بہلانے کی ذمہ داری بھابی کے معصوم اور ناتواں کاندھوں پر تھی۔ وہ فریاد کر رہی تھیں کہ کاش اللہ تعالٰی شیر خوارگی ہی میں دانش کو اٹھا لیتا تو آج پورے خاندان کو یہ جانگسل صدمہ نہ اٹھانا پڑتا۔ راجہ آصف کی حرماں بخت ماں ماتم کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ آج میرے ایک بیٹے کا نہیں اکٹھے تین بچوں کے جنازے اٹھے ہیں۔ غمزدہ خاندانوں کے بد قسمت افراد کی جگر پاش اور دل کو چھلنی کر دینے والی چیخیں سنی جاتی ہیں نہ ان کی حالت زار دیکھی جاتی ہے۔

وطن عزیز میں 26 مارچ 1965 سے شروع ہونے والے فضائی حادثوں کی تاریخ بڑی تباہ کن اورافسوسناک ہے جس میں اب تک ہزاروں مسافر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ 17 اگست 1988 میں ہونے والا حادثہ کون فراموش کر سکتا ہے جب امریکی ساختہ ہر کولیس سی ون تھرٹی بہاول پور کے نزدیک گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں جنرل ضیا اور امریکی سفیر سمیت تیس افسران شہید ہو گئے تھے۔ ہمارے ہاں اس حادثے سے قبل 7 دسمبر 2016 کو جہاز تباہ ہوا تھا جس میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 54 مسافر جان سے گزر گئے تھے۔

آج کم و بیش ساڑھے تین سال بعد ہمیں ایک اور اندوہناک فضائی حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کہ امریکہ میں آخری فضائی حادثہ 12 فروری 2009 کو ہوا تھا جس میں پچاس افراد جاں بحق ہو ئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک وہاں کوئی ایسا حادثہ نہیں ہوا۔ یہ ہے زندہ قوموں اور متحرک و فعال حکومتوں کی نشانی۔ ادھر ہمارے ہاں ہر تین چار سال بعد سیکڑوں مسافر فضا میں جل کر کوئلہ بن جاتے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

دانش، اس کے دوستوں سمیت 98 بد قسمت مسافر چل بسے، جن کے خاندان عمر بھر لہو روتے رہیں گے مگر ہم نے ہمیشہ حادثوں کی تحقیقا ت اور انکوائریوں کے نام پر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر اصل ذمہ داروں کو بچایا ہے۔ یاد رہے کہ اس حادثے کی تحقیقات بھی وہی حکومت کر رہی ہے جو سانحۂ ساہیوال کی ”تحقیقات“ کر چکی ہے۔ 7 دسمبر والے سانحے کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے پیشہ ورانہ اہلیت کو بڑھانے کے بجائے کالے بکروں کا صدقہ دے کر کام چلانے کی کوشش کی تھی، اس وقت بھی ہم نے لکھا تھا کہ کالے بکروں کے صدقے سے کام نہیں چلے گا بلکہ پی آئی اے سے کالی بھیڑوں کو نکالنا پڑے گا۔

ہمارے ہاں اس طرح کے اندوہناک حادثوں کی تحقیقات کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ فورسز کا کوئی طیارہ گر کر تباہ ہو تو فنی خرابی اور پی آئی اے سمیت دوسری کسی ایئر لائن کے جہاز کو حادثہ پیش آ جائے تو پائلٹ ذمہ دار۔ خداراإ حکومت اب اس قبیح رسم کو ختم کرتے ہوئے اس حادثے کے اصل ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ اسی صورت میں بد قسمت خاندانوں کے گہرے زخموں کا کسی قدر درماں ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments