ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت اور کشمیر


\"mujahidپاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ وہ منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھارت کے ساتھ مصالحت کروانے کے اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔ ٹرمپ نے اکتوبر کے دوران کہا تھا کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں وہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو حل کروانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیں گے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس قسم کا کردار صرف اسی صورت میں ادا کرسکتے ہیں اگر دونوں ملک اس پر راضی ہوں۔ اس تناظر میں پاکستانی وزارت خارجہ کو ٹرمپ سے یہ امید باندھنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں بھارت اور امریکہ بہترین دوست بن جائیں گے۔ وہ اپنے اس ارادے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے جوہری پروگرام کو محدود کروانے کے لئے کام کرنا چاہیں گے۔

 پاکستان کی طرف سے کشمیر کے تنازعہ کے تصفیہ کے لئے ہمیشہ عالمی ثالثی یا مداخلت کی حوصلہ افزائی اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ تیسرے فریق کی طرف سے اس قسم کی مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کے دور میں تو یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ اگر پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر کے لیڈروں سے رابطہ کرے گی تو بھارت مذاکرات سے انکار کر دے گا۔ بھارت کی موجودہ حکومت کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی ملک کا مشورہ کو سننے سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں چار ماہ سے جاری مظاہروں کے باوجود کشمیری لیڈروں سے سنجیدہ سیاسی مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ اس لئے اگر پاکستانی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے یہ توقع قائم کرتی ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات کرنے کے لئے مجبور کرسکتی ہے تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ کے سیاسی حلقوں میں بھی بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ وہ پہلے امیدوار ہیں جو دنیا کے اہم معاملات کے بارے میں کوئی واضح پالیسی بیان کے بغیر نعرے لگاتے ہوئے امریکی عوام کی ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق ری پبلیکن پارٹی بھی ٹرمپ کی کامیابی کی امید نہیں کر رہی تھی ، اس لئے پارٹی قیادت بھی ابھی نئی صورت حال کا جائزہ لینے اور ٹرمپ کے ساتھ معاملات چلانے کے بارے میں غور و خوض کررہی ہے۔ یہ درست ہے کہ واشنگٹن میں ری پبلیکن حکومتیں عام طور سے پاکستان کے لئے سود مند رہی ہیں ۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف ری پبلیکن پارٹی کے برسر اقتدار آجانے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگیں گے۔ ہر امریکی حکومت اپنے مفادات کی روشنی میں پالیسی تیار کرے گی۔

 موجود صورت حال میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر 20 جنوری 2017 کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں ابھی سے منصوبہ بندی اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ ملے گا اور دونوں ملک تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی ملک کی خارجہ پالیسی صرف خوش فہمیوں کی بنیاد پر استوار نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے، مشکلات کو سامنے رکھنے اور ممکنہ منفی پہلوؤں پر خاص طور سے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے سارے بیان امریکی ووٹروں کو خوش کرنے اور زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لئے تھے۔ انہیں نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی ان کا پس منظر اور پیشہ وارانہ صلاحیت انہیں خارجہ اور سیکورٹی کے امور پر مہارت فراہم کرتی ہے۔ اس کے باوجود وہ انتخابات کے دوران ووٹروں کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ سب معاملات چٹکی بجاتے حل کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کروانے کا بیان بھی اسی مزاج کا حصہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو ٹرمپ جیسے صدر کے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ مشکل اور کسی حد تک تصادم بھرے تعلقات کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ اپنی قومی سیکورٹی یا اقتصادی منصوبوں کے لئے اب امریکی تعاون اور امداد پر بھروسہ ختم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ امریکہ پہلے ہی پاکستان کی امداد میں خاطر خواہ کمی کر چکا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں اس میں اضافہ یا تسلسل کا امکان کم ہو گا۔ اس کے برعکس امریکہ پاکستان سے انتہا پسندی کے خلاف تندہی سے کام کرنے کے لئے زیادہ پرجوش مطالبہ کرے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور افغانستان میں امن کے لئے بھی پاکستان پر ہی دباؤ ڈالا جائے گا۔ یہ قیاس کرنا بھی غلط ہو گا کہ ٹرمپ انتظامیہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی دوٹوک مؤقف اختیار کرسکتی ہے۔ ٹرمپ کا سلوگن لوگوں کو ملانے سے زیادہ تقسیم کرنے کے جذبہ پر استوار ہے۔ وہ انسانی حقوق کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔

 اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کو ختم کروانے کے لئے کام کرے۔ اوباما حکومت نے بھی اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا آغاز کیا تھا۔ اس دباؤ میں میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ صدر اوباما نے اپنے آٹھ برس کے دور حکومت میں بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پالیسی کا آغاز کیا اور برصغیر میں پاکستان کی بجائے بھارت کو اپنا اسٹریجک معاون بنانے کے لئے بنیاد استوار کی ہے۔ ٹرمپ ، صدر اوباما کی جس واحد پالیسی کو آگے بڑھانے کا اعلان کرچکے ہیں، وہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ انتہا پسند امریکیوں کی مدد سے صدرمنتخب ہوئے ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ یہ حیرت کا سبب نہیں ہو نا چاہئے کہ جس وقت امریکی عوام ٹرمپ کے منتخب ہونے پر احتجاج کررہے ہیں ، عین اسی وقت بھارت کے انتہا پسند ان کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ پاکستان کو خارجہ تعلقات کے حوالے سے ان امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments